میاں نواز شریف کو چاروں طرف سے مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ کل بھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کریں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ جس طرح کرگل آپریشن کے ہنگام اٹل بہاری واجپائی نے میاں نواز شریف کو فون کر کے کہا ''آپ نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپا‘‘ میاں صاحب بھی نریندر مودی سے گلہ کریں ''مہاراج میں نے آپ کو جاتی اُمرا میں خوش آمدید کہا‘ پٹھان کوٹ حملہ کی ایف آئی آر گوجرانوالہ میں کاٹی‘ شریکوں کے طعنے سنے مگر آپ نے کل بھوشن کو بلوچستان بھیج دیا۔ یہ جوابی خیر سگالی کا کون سا انداز ہے‘ ‘ ؎
وہی میری کم نصیبی‘ وہی تیری بے نیازی
مِرے کام کچھ نہ آیا‘ یہ کمال نے نوازی
انتہا پسند بھارتی قیادت کی ذہنیت اور عزائم کو قائد اعظمؒ نے سمجھایا اقبالؒ نے۔ اقبالؒ نے برملا کہا ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ‘ تسبیحِ شیخ
بتکدے میں برہمن کی پُختہ زنّاری بھی دیکھ
یہ برہمن کی پختہ زنّاری ہے کہ ہم تو جذبہ خیر سگالی کے تحت اپنی تفتیشی ٹیم پٹھان کوٹ بھیج کرخورسند ہیں مگر بھارت اقوام متحدہ کی کمیٹی میں ہمارے ایک شہری مولانا مسعود اظہر پر پابندیوں کے لیے کوشاں ہے۔ ان کوششوں پر ہمارے آزمودہ دوست چین نے پانی پھیر دیا۔ قرار داد ویٹو کر دی‘ ورنہ پھندا تیار تھا۔
بھارت کے معاملے میں خوش فہمی کا شکار اکیلے میاں نواز شریف نہیں‘ آصف علی زرداری اور عمران خان بھی ہیں۔ الطاف حسین تو خیر بھارت کو اپنی وفاداری کا یقین دلا چکے اور بھارتی سرزمین پر اپنے ماں باپ کی ہجرت اور بزرگوں کی جدوجہد پر معافی کے خواستگار ہوئے۔ یہ تک کہا کہ ''ہم واپس بھارت آنا چاہیں تو براہ کرم کھلے بازوئوں سے استقبال کرنا‘ روکنا ٹوکنا نہیں‘‘۔ زرداری صاحب کا فرمان ہے کہ ''ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی براجمان ہے اور ہر بھارتی کے من میں ایک پاکستانی بستا ہے‘‘۔ میاں صاحب واجپائی کی لاہور یاترا سے لے کر اب تک بھارت پر ریشہ خطمی ہیں مگر کسی کو احساس نہیں کہ بھارت نے کل بھوشن کا نیٹ ورک انہی دنوں قائم کیا جب پرویز مشرف مسئلہ کشمیر کا آئوٹ آف باکس حل تلاش کرنے میں بھارت کے مددگار تھے۔ یہ زرداری اور نواز شریف کے دور میں پھلا پھولا اور بلوچستان کی علیحدگی کے منصوبے کو پروان چڑھاتا رہا۔ اگر بھارت تعلقات میں بہتری کا خواہش مند ہوتا تو کم از کم نریندر مودی کے دورہ ٔجاتی امرا کے بعد کل بھوشن کو کارروائیوں اور بلوچستان آمد و رفت سے روک دیتا مگر انہی دنوں موصوف کی سرگرمیاں مزید بڑھ گئیں اور دہشت گردی کے بڑے واقعات پیش آئے۔ سو تعلقات میں رکاوٹ مسئلہ کشمیر نہیں بھارتی بدنیّتی اور مذموم عزائم ہیں۔
کل بھوشن یادیو نے ان دانشوروں کی خوش فہمیوں کا پول کھول دیا جو ہمیں تسلسل سے باور کراتے ہیں کہ اگر پاکستان کشمیر پر زور نہ دے اور تعلقات بہتر بنانا چاہے تو بھارت ایک لمحہ کی تاخیرنہیں کرے گا۔ پرویز مشرف‘ زرداری اور نواز شریف تینوں مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال کر تعلقات و تجارت کے لیے بے تاب رہے مگر بھارت پاکستان توڑنے کی سازش سے باز آیا نہ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی سرپرستی سے رکا۔ بلکہ اس نے ہمارے ہمسائے اور دوست ایران کی سرزمین کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر ڈالا۔ کراچی میں ایک ایسا گروہ گرفتار ہو چکا ہے جو بیک وقت شیعہ اور سنی علماء اور اجتماعات پر حملے کرتا تھا۔ یہ بھارت کی تربیت اور ذہن سازی کا کرشمہ ہے مگر ہمارے ادارے ادھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ کل بھوشن گرفتار نہ ہوتا تو اب بھی بھارتی شردھالو یہی راگ الاپ رہے ہوتے کہ خواہ مخواہ ''را‘‘ پر الزام دھرنے اور ہمسائے ماں جائے بھارت پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے ہم اپنا گھر ٹھیک کریں اور دینی مدارس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کی سرکوبی پر توجہ دیں جو دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں۔
سانحہ گلشنِ اقبال کے بعد ایک بے قصور اور بے گناہ باریش یوسف کے جائے وقوعہ سے ملنے والے شناختی کارڈ پر جو غیر ذمہ دارانہ پروپیگنڈا ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ مگر جب سے پولیس نے اپنا بیان بدلا ان تمام تجزیہ نگاروں‘ ٹی وی اینکرز اور بھارت نوازدانشوروں کو سانپ سونگھ گیا ہے جن کی زبانیں کترنیوں کی طرح چل رہی تھیں۔ یہ زمینی حقیقت سمجھنے کے لیے افلاطون کے دماغ کی ضرورت ہے نہ ارسطو جیسی فہم و دانش درکارکہ بھارت افغانستان اور ایران کی سرزمین بھی استعمال کر رہا ہے اور امریکہ کا اثر و رسوخ بھی۔ گوادر بندر گاہ مکمل طورپر فنکشنل اور اقتصادی راہداری منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل وہ ہمیں کسی نئی دلدل میں دھکیلنا چاہتا ہے کیونکہ یہ گیم چینجر منصوبہ مکمل ہو گیا تو پھر اس کا مقابلہ صرف پاکستان نہیں بلکہ چین سے ہو گا اور پاک فوج کے عزم کی وجہ سے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پا لیا گیا تو دھیرے دھیرے خون رسنے کی وجہ سے ہم جس ضعف و اضمحلال کا شکار ہیں‘ وہ کیفیت باقی نہیں رہے گی۔ نریندر مودی نے چند ماہ قبل جو پینترا بدلا وہ بھارتی قیادت کی روایتی عیاری و مکاری کا شاہکار تھا ‘کیموفلاج مگر ہم شاید اس کا ادراک نہ کر سکے۔
ایران اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کارروائیوں کا مقصد واضح ہے۔ تینوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک بھارت کی ریشہ دوانیوں‘ سازشوں اور کشمیر میں مظالم کو بھول کر آپس میں لڑتے رہیں‘ ایک دوسرے کو دشمن خیال کریں اور فریب کار بنیا لڑائی سے محظوظ ہو۔ پاکستان کمزور ہو‘ افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہے یا ایران تنہائی سے دوچار‘ بھارت کی پانچوں گھی میں رہیں اور سر کڑاہی میں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ اب اس کی کوشش یہ ہو گی کہ کل بھوشن کے ایشو پر پاکستان اور ایران کی آپس میں جوتم پیزار ہو اور دونوں پوائنٹ سکورنگ کے شوق میں ایک دوسرے کی خوب خبر لیں‘ مگر دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپس میں گلہ شکوہ تو کریں‘ معلومات کا تبادلہ اور آئندہ احتیاط برتنے کے انتظامات بھی‘ مگر لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں۔ اقبال لاہوری کا آموختہ یاد رکھیں ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اور دونوں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں جو امام خمینی کے الفاظ میں ''جو شیعہ سنی کی بات کرتا ہے وہ ملت اسلامیہ کا مشترکہ دشمن ہے‘‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ ایران کی سرزمین ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور خطۂ پاک کج فہم و کم نظر فرقہ پرستوں کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ بھارت کا کمال یہ ہے کہ اس نے صرف زبان و نسل اور علاقائیت کا فتنہ پروان نہیں چڑھایا اور نسلی و لسانی جماعتوں میں آلہ کار نہیں ڈھونڈے بلکہ مذہبی عناصر اور میڈیا میں بھی وفاداروں کی کھیپ تیار کی جو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس ریاست کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ کہیں بحیلہ مذہب کبھی بنام وطن۔
پٹھان کوٹ واقعہ کی تحقیقات کرنے والی تفتیشی ٹیم وطن واپس پہنچ چکی ہے۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ ٹیم کو سطحی معلومات کے سوا کیا ملا؟ ارکان ہی بتا سکتے ہیں۔ ٹیم پر بھارتی پولیس‘ بارڈر سکیورٹی فورس‘ ایئرپورٹ سکیورٹی اور دیگر اداروں کی نااہلی کس قدر عیاں ہوئی اور سازش کا عنصر کہاں تک قابل توجہ ہے؟ رپورٹ میں یقیناً سب کچھ شامل ہو گا؛ تاہم کل بھوشن کی گرفتاری اور سانحہ گلشن اقبال پارک سے حکومت کو کئی دوسرے معاملات کی پردہ پوشی کا موقع مل گیا ہے۔ سرفراز مرچنٹ سے ایف آئی اے کی پوچھ گچھ کا آغاز نہیں ہو سکا‘ ایان علی کو رہائی مل گئی‘ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو بھی کسی نہ کسی حد تک ریلیف ضرور ملا ہے۔ حکومت اپنے ان سابق حلیفوں کو ناراض کرنا چاہتی ہے نہ کوئی نیا محاذ کھول کر اپنے ''حقیقی سیاسی حریف‘‘ کو تقویت پہنچانے کی روادار۔ رانا ثناء اللہ درست کہتے ہیں۔ وزیر اعظم ایک حکمت عملی کے تحت خاموش ہیں۔ کل کلاں کو جن کی ضرورت پڑ سکتی ہے انہیں خواہ مخواہ ناراض کر نے کا فائدہ؟ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ہنگامی ملاقات کی اطلاع پا کر مجھے اکتوبر 99ء کی ملاقاتیں یاد آ گئیں۔ تب بھی بھارت کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات خراب ہوئے تھے‘ اب بھی ایک بھارتی ایجنٹ کی گرفتاری نے حکمرانوں کے چہرے پر بارہ بجا دیے ہیں۔ خدا خیر کرے ع
بتکدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ!