مارچ کے انتہائی آخری دن آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے انتخاب کے لئے مختص ہیں۔ ہر سال اس ماہ کی 29،30 یا 31 تاریخ کو پاکستان بھر کے مالکان اخبارات و مجلات (یا ان کے اعلیٰ سطحی نمائندے) کراچی میں اکٹھے ہوتے، اور آنے والے سال کے لئے اپنے عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ بار ایسوسی ایشنوں کی طرح یہاں بھی انتخاب موخر کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ بار کی انتخابی مہم تو اب طویل ہو گئی ہے، اس کا حلقہ انتخاب بھی پورا مُلک ہے، لیکن بہت کچھ ہونے کے باوجود یہ کچھ بہرحال نہیں ہوتا کہ منتخب نمائندے ''اقتدار‘‘ نہ سنبھالتے ہوں۔ یہی معاملہ اے پی این ایس کا ہے۔ دھیمے سروں میں مہم تو کئی ہفتے جاری رہتی ہے، لیکن گرما گرمی دو چار روز کی مہمان ہوتی ہے۔ یوم انتخاب اجلاس عام کے لیے مختص ہوتا ہے، اس لیے امیدوار اور ان کے حامی دِل کی بھڑاس نکالنے سے نہیں چوکتے، بعض اوقات پُرزور الفاظ بھی استعمال کر گزرتے ہیں۔ اس سال بھی اجلاس ہنگامہ خیز تھا۔ جناب حمید ہارون گزشتہ دو سال سے صدارت کا منصب سنبھالے ہوئے تھے، انہیں تیسری بار منتخب نہیں کیا جا سکتا تھا کہ دستور نے اس پر قدغن لگا رکھی ہے۔ نیا صدر منتخب ہونا تھا، اس کے لیے جناب سرمد علی اور جناب عارف نظامی میدان میں تھے۔ ہمارے ہاں انتخابات مرحلہ وار ہوتے ہیں، پہلے مرحلے میں چھتیس رکنی مجلس مُنتظمہ کا چنائو ہوتا ہے، اس کے بعد یہ مجلس عہدیدار چنتی ہے۔ عام طور پر اتفاق رائے سے معاملات طے پا جاتے ہیں، مجلس مُنتظمہ کے اجلاس میں عہدیداروں کے چنائو میں ووٹ ڈالنے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔
اس بار تیس مارچ کو انتخابی عمل قدرے تاخیر سے شروع ہوا، ووٹوںکی گنتی اگلی صبح دو بجے مکمل ہوئی۔ اے پی این ایس کا وسیع صدر دفتر سفاری پارک کے پہلو
میں تعمیر کیا جا چکا ہے، اس لیے ہوٹلوں کی محتاجی نہیں رہی۔ صدر دفتر کی عظیم الشان عمارت حمید ہارون اور ان کے رفقا کے اعلیٰ ثقافتی اور تعمیراتی ذوق کی عکاس ہے۔ نفاست اور شکوہ کے اعتبار سے اپنی مثال آپ۔ صبح دو بجے نئی مجلس کا انتخاب ہوا، اور اتفاق رائے سے میٹھے اور جھکے جھکے سے سید سرمد علی کو نیا صدر منتخب کر لیا گیا۔ رمیزہ مجید نظامی سینئر نائب صدر اور عمر شامی سیکرٹری جنرل چنے گئے۔ تاریخ میں پہلی بار سیکرٹری جنرل کا منصب لاہور کے حصے میں آیا، کہ کمیونیکیشن انقلاب نے اب فاصلے سمیٹ دیے ہیں۔ آپ دور بیٹھ کر بھی قریب رہ سکتے اور ایک ایک معاملے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ نائب صدارت کے لیے مشتاق قریشی اور ممتاز طاہر کے درمیان خفیہ رائے شماری کے نتیجے میں ثانی الذکر، اول آ گئے۔ فنانس سیکرٹری ''ڈان گروپ‘‘ کے علی حسن نقوی اور جائنٹ سیکرٹری ''پیغام‘‘ فیصل آباد کے منیر جیلانی بنے۔
انتخاب کے فوراً بعد جیتنے اور ہارنے والے شیر و شکر تھے، اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے ر ہے تھے۔ کسی چہرے پر غصہ تھا نہ کوئی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔ یہ رویہ جس روز قومی انتخابات میں جیتنے اور ہارنے والے بھی اپنائیں گے، وہی روز پاکستانی جمہوریت کے لیے استحکام اور دوام کی خبر لائے گا۔ یہاں جو دھکم پیل جاری رہتی ہے، اس سے پاکستانی سیاست کی چولیں تو ڈھیلی ہوتی ہی ہیں، معیشت کی چیخیں بھی نکل جاتی ہیں۔ سول، ملٹری تعلقات الجھتے یا الجھائے جاتے ہیں۔ نیچا دکھانے کی خفی یا جلی خواہش دِلوں کو جلاتی اور مستقبل کو دھندلاتی چلی جاتی ہے۔
اے پی این ایس کے دفتر سے ڈیفنس کا رخ کیا کہ صبح صادق تک باقی ماندہ وقت اپنے بھانجے شہزاد شامی کے ہاں گزارنا تھا۔ اُونگھتے، جاگتے چند لمحے گزارے، پھر بذریعہ پی آئی اے لاہور کا رخ کیا۔ اس دوران برادرم نصیر سلیمی فون کرتے رہے، لیکن اس کی روح قبض تھی، معلوم ہی نہ ہو پایا کہ ایک قیامت گزر گئی ہے۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر قدم رکھا، تو ڈاکٹر حسین پراچہ کی شکستہ آواز نے ڈاکٹر ممتاز احمد کے انتقال کی خبر سنائی۔ خبر کیا ایک بجلی تھی، جو دِل و دماغ پر گر چکی تھی۔ دو بجے گوجر خان میں نمازِجنازہ ادا ہونا تھی اور وہاں پہنچنا ممکن نہیں رہا تھا۔ برادرم نصیر سلیمی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ یہ اطلاع دینے ہی کے لئے فون کرتے رہے تھے۔ کراچی میں پتہ چل جاتا تو لاہور کے بجائے اسلام آباد کی پرواز پکڑنے کی کوشش کر لی جاتی، اپنے ممتاز دوست کو الوداع کہنا ممکن ہو جاتا، لیکن اب یادوں کے کچوکے تھے اور مَیں تھا۔
گوجر خان پروفیسر رفیق اختر کے حوالے سے مشہور ہو چکا، لیکن اس مٹی نے ڈاکٹر ممتاز کو بھی جنم دیا (ان کے بھانجے اور ممتاز تر دانشور خورشید ندیم کو بھی اسی سے نسبت ہے) لیکن ان کی دُنیا تحقیق و جستجو کی تھی، وہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں شمعیں جلاتے رہے، ان کے افکار سے آگاہی کے لئے کتاب سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے کے باوجود اس سے گریزاں، بلکہ بالاتر رہے۔ سو عوامی شہرت تو ان کے حصے میں بہت زیادہ نہ آئی، لیکن اہلِ دِل کے لئے وہ سرمایہ جان بنے رہے۔ اس روشن دماغ سے دوستی کا آغاز ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں ہوا تھا۔ کراچی میں میری صحافت پَر پرزے نکال رہی تھی، ممتاز احمد ابھی ڈاکٹر نہیں بنے تھے، لیکن ان کی ذہانت اپنا لوہا اپنے ہاتھ میں لے چکی تھی۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں پروفیسر خورشید احمد کی رہنمائی میں انہوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، وہ انہیں امریکہ لے گیا۔ مسئلہ کشمیر پر ایک معرکے کی کتاب انہوں نے عین عالم شباب میں لکھ ڈالی
تھی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بصد مسرّت اس کا دیباچہ لکھا تھا۔ ممتاز امریکہ گئے تو پھر وہیں کے ہو رہے، انہوں نے بہت کچھ لکھا، بہت سفر کئے، اسلامی تحریکوں اور ان کی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔ سید منور حسن اور ڈاکٹر انوار صدیقی سے ان کا یارانہ تھا۔ فتح محمد ملک ان کے دِل میں بستے تھے، تھوڑی بہت گنجائش ہم جیسے عامیوں کے لئے بھی انہوں نے نکال لی تھی۔ پاکستان ان کی محبت کا محور رہا، کئی سال پہلے وہ اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے اور آخر دم تک اس درس گاہ کا یہ اعزاز برقرار رہا۔ فتح محمد ملک اور ڈاکٹر انوار دونوں کو اِس کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی، ٹوٹ کر ملتے۔ پرانی محبت تازہ ہو جاتی۔ ''نقطہ نظر‘‘ کے وہ باقاعدہ سامع تھے اور اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرنے سے کبھی نہ چوکتے تھے۔ آج کی ''اسلامی سیاست‘‘ پر ان کا دِل کڑھتا، دہشت گردی اور لاقانونیت ان کو بھی مضطرب رکھتی تھی۔ پاکستان کیا، عالم اسلام نے بھی ان کے پائے کے استاد اور دانشور کم ہی پیدا کئے ہیں، نعرہ بازی کے اپنے فائدے ہیں لیکن جب نعرہ باز سیادت کو اپنی گرفت میں لے لیں تو پھر بازی جیتنا دشوار ہو جاتا ہے۔ عجب اپنا سفر ہے کہ فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں۔ یہ نکتہ وہ سمجھتے تھے، اور سمجھا بھی دیتے تھے، بشرطیکہ کوئی سمجھنے پر تیار ہو۔ آخری دن بھی یونیورسٹی گئے، اپنا کام کیا، ایک عرصہ سے ڈائیلسس پر تھے۔ گھر آ کر لیٹے ہیں تو دِل جواب دے گیا، پھر اُٹھ نہیں سکے۔ خوشی خوشی خالق حقیقی سے جا ملے، یعنی، رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)