تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     03-04-2016

بنگلہ دیش میں نام نہاد’’وار کرائم‘‘ مقدمات

انٹرنیشنل لاء، جناب احمر بلال صوفی کا خصوصی موضوع ہے۔ الطاف صاحب کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) کے زیر اہتمام سیمینار میں، بنگلہ دیش میں نام نہاد انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل میں چلنے والے مقدمات ان کا موضوع تھے۔ یہ مقدمات 25 مارچ 1971ء کے فوجی آپریشن کے بعد مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے بحران کے دوران ہندوستان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کی تخریبی کارروائیوں کی مزاحمت اور آخر میں ہندوستان کی عریاں جارحیت کے مقابل پاکستان کی حمایت کے ''جرم‘‘ پر چلائے جا رہے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء کی بی این پی کے لوگ بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن جماعت اسلامی خصوصی ہدف ہے۔ جماعت اسلامی کے ملاّ عبدالقادر اس میں پہلے شہید تھے۔ پھر قمرالزماں حوالۂ دار ہوئے۔ 90 سالہ پروفیسر غلام اعظم جیل میں اللہ کو پیارے ہو گئے (انہیں 93 سال قید کی سزا ہوئی تھی) مولانا ابوالکلام محمد یوسف بھی مقدمے کی سماعت کے دوران ہی مُلکِ عدم کو سدھار گئے۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جماعت اسلامی کے علی احسن مجاہد اور بی این پی کے صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی دے دی گئی (صلاح الدین، متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کے صاحبزادے تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان سے عہدِ وفا نبھانے والوں میں فضل القادر چودھری بھی تھے۔ زنداں میں انہوں نے ہر طرح کی ابتلا و آزمائش کا بڑے حوصلے سے مقابلہ کیا اور کال کوٹھڑی میں اس کیفیت میں جان، جانِ آفریں کے سپرد کی کہ زبان پر کلمۂ طیبہ کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ تھا۔ انہوں نے ساتھ والی کوٹھڑی میں ''مقیم‘‘ مولوی فرید احمد کو پکارا، مولوی گواہ رہنا، میں ایک پاکستانی کی موت مر رہا ہوں) اور اب جناب مطیع الرحمن نظامی کی باری ہے۔ سزائے موت سنائی جا چکی، ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے، کسی لمحے خبر آ جائے گی، بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔
اس نام نہاد ٹربیونل میں انٹرنیشنل لاء، کسی بھی سوسائٹی میں انصاف کے بنیادی تقاضوں اور خود بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین معاہدوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، احمر بلال صوفی نے براہین و دلائل اور ثبوت و شواہد کے ساتھ یہ کہانی اس مؤثر انداز میں بیان کی کہ بزرگ قانون دان جناب ایس ایم ظفر بھی تعریف، اور بے پناہ تعریف کیے بغیر نہ رہے۔ ان کا کہنا تھا، احمر بلال کی یہ پریزنٹیشن نام نہاد وار کرائمز ٹربیونل میں مظلوموں کا مقدمہ لڑنے والے وکلا کو بھجوائی جائے کہ اس میں ان کی صفائی میں پیش کرنے کے لیے نہایت مؤثر دلائل ہیں۔ حکومتِ پاکستان سے بھی ان کا مطالبہ تھا کہ احمر بلال کا تیارکردہ یہ کیس، ہیومن رائٹس کے بین الاقوامی اداروں میں بھی پیش کیا جائے۔
ناسازیٔ طبع کے باعث بزرگ قانون دان کے لیے زیادہ دیر بیٹھنا محال تھا۔ وہ اُٹھ گئے تو سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد نے کرسیٔ صدارت سنبھالی۔ خطبۂ صدارت میں انہوں نے اپنے پیشرو (جناب ظفر) کی بات کو آگے بڑھایا، بنگلہ دیش میں عوام کی اکثریت اب بھی پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ اس کے لیے وہ ڈھاکہ میں ہونے والے پاک، بھارت میچوں میں بنگالیوں کی طرف سے پاکستان کی پُرجوش حمایت کی مثال لائے، جب شیرِ بنگلہ سٹیڈیم پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے ہوم گرائونڈ اور بنگالی تماشائی ان کے لیے ہوم کرائوڈ بن جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، حسینہ واجد حکومت کی پاکستان دشمن پالیسیوں کے جواب میں بنگلہ دیش اور وہاں کے عوام کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب تر لانے کے لیے عوامی رابطوں کو فروغ دینے کی بات کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران بھی یہاں موجود تھے، جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلبہ کے لیے مفت تعلیم اور خصوصی سکالرشپس کا اہتمام کیا ہے۔ شمشاد احمد خان کا کہنا تھا: اسی طرح بنگلہ دیشی طلبہ کو بھی سکالرشپ دیئے جائیں، دونوں ملکوں کے درمیان فوجی مشقیں ہوں، ہم انہیں ''گِٹھ مُٹھیا‘‘ سمجھنے اور اپنے ''مارشل ریس‘‘ ہونے کا زُعم دماغ سے نکال دیں کہ یہ ''ریس‘‘ کا نہیں، ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ (ایس ایم ظفر نے''ون نیشن، ٹو سٹیٹس‘‘ کے نظرئیے کو فروغ دینے کی بات بھی کی تھی) پاکستان کے ممتاز سفارت کار نے یہاں ایک اور نکتہ بھی بیان کیا، فارن آفس پالیسی نہیں بناتا، صرف ''اِن پُٹ‘‘ دیتا ہے۔ پالیسی حکومت بناتی ہے، فارن آفس کا کام اسے Pursue کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور کی مثال پیش کی، تب وہ سیکرٹری خارجہ تھے۔ وزیر اعظم نے انہیں بلایا اور کہا کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہم مذاکرات چاہتے ہیں، جس کے لیے آپ پوری تیاری کے ساتھ جائیں لیکن یاد رکھیں، کشمیر پر کوئی کمپرومائز نہیں کرنا... شمشاد احمد ایک اور نکتہ بھی لائے، بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت کو پینتیس، چالیس سال بعد یہ مقدمات چلانے کی جرأت اس لیے ہوئی کہ آج پاکستان ایک کمزور ریاست ہے۔ 1999ء تک ہم ایک مضبوط ریاست تھے۔ آج ہم اپنی تاریخ کے کمزور ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں کہ ہمیں خود اپنی سرزمین پر، اپنی بقا کی جنگ، دہشت گردی کی جنگ، درپیش ہے۔
جناب لیاقت بلوچ، میجر جنرل(ر) محمد جاوید، لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ارشد جہانگیر جھوجہ اور ڈاکٹر عمرانہ مشتاق نے بھی اپنا اپنا کیس، نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا۔ شامی صاحب کا کہنا تھا: بنگلہ دیش میں حسینہ واجد، پاکستان کے وفاداروں کے خلاف انتقام کی پیاس بجھا رہی ہے تو اس کے خلاف سب سے اہم کردار ہماری حکومت کو ادا کرنا ہے، لیکن وہ اس میں سنگین غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہاں وہ ایک فقرے میں ایک اور اہم بات بھی کہہ گئے، ٹی وی مذاکروں میں عسکری دانشوروں کی بات سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ (سول، ملٹری ریلیشن شپ کے حوالے سے) ان کا ذہنی ٹیڑھ ابھی تک نہیں گیا۔ 
جاوید ہاشمی اس سیمینار میں شرکت کے لیے ملتان سے چلے آئے تھے۔ ان کی صحت ایسی مشقت کی زیادہ متحمل نہیں ہوتی۔ تحریکِ انصاف کو الوداع کہنے کے بعد، وہ ان دنوں کسی سیاسی جماعت میں نہیں لیکن اپنے قدر دانوں کے دلوں میں اب بھی ٹھکانہ کیے ہوئے ہیں، خود ان کی ''آبائی جماعت‘‘ میں جن کی تعداد کم نہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا لیکن وہ اپنی ''آبائی جماعت‘‘ مسلم لیگ کو قرار دیتے ہیں۔ 2010ء کے برین ہیمرج میں وہ سروائیو کر گئے لیکن جسم کے دائیں جانب اس کے اثرات نہیں گئے۔ سیاست میں اپنی راہیں خود تراشنے اور اپنا مقام خود بنانے والا ''باغی‘‘ جسمانی معذوری میں بھی دوسروں کے سہارے سے گریز کرتا اور اپنا جسم، اپنا بوجھ خود سنبھالتا ہے۔ اِسے دیکھا تو یاد آیا ؎
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے؟
بنگالیوں میں، اپنے سابق وطن سے محبت کے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے وہ بتا رہے تھے، 1999ء میں، وہ میاں صاحب کی نمائندگی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے گئے، تو وہاں بنگلہ دیشی وفد کے سربراہ ڈاکٹر عبدالصمد سے بھی ملاقات ہوئی (وہ شیخ مجیب کے ساتھی اور پرانے عوامی لیگی تھے) کارگل کا ذکر چھڑا تو وہ کہنے لگے، الگ ہو کر ہم دونوں ''لائٹ ویٹ‘‘ ہو گئے... ہمیں نکال کر آپ نے کونسی ترقی کر لی؟ پھر اچانک موضوع بدل کر کہنے لگے، آپ کی کرکٹ ٹیم انڈیا سے اس بری طرح کیوں ہاری؟ میں ساری رات روتا رہا۔
ڈاکٹر عبدالصمد سے ایک اور ملاقات۔ ٹوکیو میں ہونے والی اس ملاقات میں انہوں نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیا جائے۔ پھر انہوں نے اخبار میرے سامنے رکھ دیا، جس میں خبر تھی، ہندوستان نے کارگل میں سب سے بڑی اور آخری چوٹی ٹائیگر بھی پاکستان سے واپس چھین لی۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا، وہ پھر رو رہے تھے... پاکستان کے ایک اور میچ ہارنے پر...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved