تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-04-2016

سرخیاں، متن، ٹوٹا اور ڈاکٹر ضیاء الحسن

ہمارا عزم روز بروز مضبوط ہو رہا ہے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہمارا عزم روز بروز مضبوط ہو رہا ہے‘‘ البتہ ہماری حالت دن بدن پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو سارا آپریشن پنجاب ہمارے ووٹ بینک کے خلاف ہے جبکہ ہمارا دو ہی بینکوں سے واسطہ ہے۔ ایک ووٹ بینک اور دوسرے سوئس اور دبئی وغیرہ کے بینک۔ اور اس آپریشن سے ہماری پریشانی آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے جیسا کہ خاکسار اپنی فہم و فراست کے زور پر ہر بات بڑی آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکی عوام دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں‘‘ حالانکہ انہیں میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا کیونکہ معاملات تو سارے کے سارے میرے خراب ہو رہے ہیں‘ اور حالات جس طرف جا رہے ہیں اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے‘ چنانچہ میں نے اپنے جملہ باورچیوں کو ساتھ جانے کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے اور دیگر ساز و سامان بھی تیار ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں امریکی صدر کے فون پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''حکومت دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے‘‘ اور، کچھ اتنا تنگ بھی نہیں کر رہی کیونکہ اگر واقعی تنگ کرنا‘ مقصود ہوتا تو یہ کام کافی عرصہ پہلے کر لیا جاتا اور آپریشن پنجاب کی نوبت ہی نہ آتی‘ تاہم اب بھی ان شرفا کو گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ البتہ اپنا کام ذرا محتاط ہو کر کرتے رہیں کیونکہ ایسی کارروائیوں میں جن لوگوں نے جامِ شہادت نوش کرنا ہوتا ہے‘ یہ ان کی قسمت میں پہلے ہی لکھ دیا گیا ہوتا ہے اور اس نیک کام کو روکنا اور اس میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنا ہمارے لیے مناسب بھی نہیں ہے‘ کیونکہ ہمارے دلوں کا حال وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اُنہی کے ساتھ ہیں‘ اس لیے ریٹائرمنٹ تک انہیں بھی ہماری طرح صبر و استقلال سے کام لینا چاہیے جبکہ کچھ خود کُش حضرات جنّت میں جا کر بھی ہمارے لیے دعائے خیر کر سکتے ہیں کیونکہ شہید کی دعا ویسے بھی جلد قبول ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے کینسر کے مکمل خاتمے 
تک جنگ جاری رہے گی۔ شہباز شریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی اور انتہا پسندی کے کینسر کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی‘‘ جس کے لیے ہم ایک کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں‘ اور اورنج لائن منصوبے کے مکمل ہوتے ہی اس پر غور شروع کر دیا جائے گا جس کے لیے بھائی صاحب مکمل طور پر تیار ہیں کیونکہ غور و فکر کا سارا کام وہی سرانجام دیتے ہیں جس کے لیے اوقات مقرر ہیں یعنی کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد‘ بشرطیکہ کھانے کے بعد دوبارہ نہ کھانا پڑ جائے کیونکہ مہمان ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں اور سب کے ساتھ باری باری کھانے یا ناشتے وغیرہ میں شامل ہونا پڑتا ہے‘ اس لیے اگرچہ سوچ بچار کے لیے انہیں وقت بہت کم ہی دستیاب ہوتا ہے‘ تاہم پھکّی اور چورن وغیرہ کے استعمال سے انہیں غور و فکر کے لیے تھوڑا بہت وقت مل ہی جاتا ہے جس کے لیے مناسب ترین مواقع کھانے کے بعد اونگھنے کے دوران میسر آتے ہیں بلکہ اس کے بعد سو جائیں تو خواب میں بھی سوچتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں منتخب نمائندوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
عوامی راج پارٹی
رکن قومی اسمبلی جمشید احمد دستی نے عوامی راج پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جو کرپشن پر سزائے موت دے اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرے گی اور وطن عزیز میں صدارتی نظام حکومت قائم کرے گی جو کہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب کیا جائے گا‘ اس کے علاوہ صدر اور ارکان کابینہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں دو کمروں پر مشتمل ہوں گی۔ صدر کے ساتھ دو ملازم ہوا کریں گے جن میں سے ایک دفتری امور کے لیے اور دوسرا محافظ ہو گا۔ جمشید دستی اپنی سادہ روی اور راست روی کی وجہ سے ایک اپنا امتیاز رکھتے ہیں‘ نوجوان‘ نڈر اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے والے۔ ان کے منشور کی یہ جھلک پُرکشش ہے بشرطیکہ قابل عمل بھی ہو کیونکہ صدارتی نظام ایک آئینی ترمیم ہی کے ذریعے متعارف کروایا جا سکتا ہے؛ تاہم کوئی عجب نہیں کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی بد حکومتی اور بد اعمالیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام ان کی طرف راغب ہونے میں سنجیدہ ہو جائیں اور عوام اور ملک اس یرغمالی حالت سے باہر نکل آئیں۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن کی غزل
یہ تحفہ ہمیں اپنے پرانے کرم فرما جناب ذاکر حسین ضیائی کے توسط سے موصول ہوا ہے جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ عمدہ شاعری اب بھی ہو رہی ہے!
موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں
یہ زیست ہے تو زیست کا مفہوم کچھ نہیں
منظر حجاب خود ہی کئی منظروں کے ہیں
معلوم ہم کو یہ ہے کہ معلوم کچھ نہیں
خواب و خیال سمجھیں تو موجود ہے جہاں
ورنہ سوائے نقطۂ موہوم کچھ نہیں
حرف و بیاں ‘ نظارے ‘ ستارے ‘دل و نظر
ہر شے میں انتشار ہے‘ منظوم کچھ نہیں
ہے کچھ وہی کہ جس کی ہمیں آرزو رہی
اور جس سے خود کو رکھا ہے محروم کچھ نہیں
جس کے بغیر جی نہیں سکتے تھے جیتے ہیں
ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں
آج کا مقطع
ہم اتنے عقل مند نہ ہوں گے مگر‘ ظفرؔ
کافی تھا اس کا ایک اشارہ کہ اب نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved