جھولوں سے ہمیشہ معصومیت ‘ شرارت‘ بچپنے کی بے فکری‘ خوشی سے چیخیں مارتے بچے‘ قہقہے ‘ اور مسکراہٹیں ہی ذہن میں آتی ہیں۔ مگر اب کی بار خون کی ہولی انہی جھولوں پر کھیلی گئی۔ جھولا جھولنے کے لیے آئے ننھے معصوم بچے بارود کی آگ میں چیتھڑوں میں بدل گئے۔ کچھ مائوں کی گودوں میں تھے‘ کچھ باپ کے کندھوں پر سوار تھے‘ آگ کے اس کھیل میں کسی ماں سے بچہ بچھڑ گیا تو کسی بچے کی ماں جل کر راکھ ہو گئی۔اور کہیں پوراکا پورا خاندان دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ گلشن اقبال پارک کے جھولوں والے لان میں اس قیامت کو گزرے آج پورے آٹھ دن بیت گئے! سو بریکنگ نیوز کے اس ہنگام میں یہ خبر آٹھ دن پرانی ہے اور ہم ہیں فوری ردعمل والی قوم۔ خود فراموشی ہماری پناہ گاہ ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سب اچھا سمجھنے کی پالیسی پنجاب حکومت نے اپنا رکھی تھی، یہاں تک کہ لاہور کے پر رونق پارک میں اتوار کی تعطیل اور ایسٹر کے روز‘ اپنے خاندانوں کے ساتھ خوشی سے وقت گزارتے معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو لہو لہو کر دیا گیا۔ اب کبوتر نے آنکھیں کھولی ہیں اور گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ سب اچھا اور پرامن پنجاب محض حقیقت سے نظریں چرانے کی بات تھی۔ دشمن اپنے ٹھکانے‘ اپنا نیٹ ورک پرامن پنجاب میں پھیلا چکا ہے‘ مضبوط کر چکا ہے ۔ اب کشتیاں جلا کر اس گندگی کو پاک کرنا ہو گا۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فوری ردعمل والی قوم ہیں۔
جب بھی کوئی قومی سانحہ ہوتا ہے ‘چند روز کے لیے پوری قوم کا مزاج بدل جاتا ہے۔ بریکنگ نیوز‘ فالواپ نیوز‘ ٹاک شوز‘ تجزیے اور تبصرے سب اسی سانحے کے گرد گھومتے ہیں۔ سانحے کے ایک ایک پہلو پر گفتگو کا طوفان اٹھتا ہے۔ اگلے روز سوگ کا اعلان‘ قومی پرچم سرنگوںرہتا ہے۔ ہڑتالیں‘ جلسے جلوس‘ مذمتی قرار دادیں اور دہشت گردی کی مذمت میں حکومت‘اپوزیشن اور ہر چھوٹے بڑے لیڈر کی طرف سے بیانات کا سیلاب آ جاتا ہے۔ فوری ردعمل کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگلے دن کے تمام مارننگ شوز پر سوگ کا رنگ چھایا ہوتا ہے۔ مارننگ شوز کی چلبلی میزبانوں کے کالے ماتمی ڈیزائنر ملبوسات سے لے کر المیہ لہجوں تک اور ان کے ''نو میک اپ لک‘‘ کے خصوصی میک اپ کے ساتھ گلیسرین زدہ آنسوئوں کی اداکاری تک... ایسا فوری ردعمل دکھائی دیتا ہے کہ بس بقول فیضؔ ''چند روز اور مری جان بس چند ہی روز‘‘ کے مصداق زندگی معمول پر آ جاتی ہے اور حکومت سے لے کر عوام تک سب کے شعور اور لاشعور سے یہ خیال اڑ جاتا ہے کہ ہمارا ملک اور ہم اس وقت ایک انتہائی گمبھیر جنگ کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ وہ جنگ ہے جو صرف سرحدوں تک نہیں بلکہ دشمن ہمارے گھروں میں گھس کر ہمارے بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہم جن سنگین حالات سے دوچار
ہیں‘اس پر جو سنجیدہ اورمسلسل ردعمل ہمارے حکومتی اداروں کاہونا چاہیے تھا یا بحیثیت پاکستانی جو ردعمل اور رویہ ہمارا ہونا چاہیے تھا وہ ناپید ہے۔ ہمیں تو ان قربانیوں کا ہی احساس نہیں جو آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کے جوان اپنی شہادتوں سے دے رہے ہیں یا پھر ملک کے طول و عرض میں سکیورٹی فورسز کے گمنام اہلکار قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کا احساس ہمیں نہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل افسوس رویہ پنجاب حکومت کا رہا۔ میٹرو ٹرین ‘فلائی اوورز بنانے پر کمر بستہ حکومت نے دہشت گردی کے خطرے کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں اور ہر اس مطالبے کو رد کر دیا جس میں کہا گیا کہ پنجاب بھر میں دہشت گردوں نے اپنی پناہ گاہیں بنارکھیں ہیں‘ان کے خلاف بھرپور کریک ڈائون ہونا چاہیے‘ مگر نہ جانے کیوں پنجاب حکومت نے اس حقیقت سے نظر یںچرائے رکھیں ۔لاہور سے ایک تعلیم یافتہ فیملی کی خاتون اپنے بچوں اور چند مزید خواتین کے ساتھ مبینہ طور پر داعش میں شامل ہو گئی مگر پھر بھی کہا جاتا رہا کہ یہاں داعش کا کوئی وجود نہیں یا پھر وہی گھسے پٹے بیانات کہ دہشت گردوں کو مذموم کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو ان کے گھر کے اندر گھس کر خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا‘ اس پربھی پنجاب حکومت نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ پنجاب حکومت کے خوش گمانوں کا خیال تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پنجاب کے لیے نہیں بنایا گیا‘ہر سانحے کے بعد صرف فوری ردعمل کی ڈنگ ٹپائو پالیسی سے گزارا ہوتا رہا۔ اے پی ایس پر حملہ ہوا تو سکولوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی بلکہ سکیورٹی کے نام پر ریت کی چند بوریوں اور نیلی وردی میں ملبوس ایک سکیورٹی گارڈ بٹھا دیا گیا۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو پنجاب یونیورسٹی کی دیواریں اونچی کرنے کا خیال آ گیا۔ خفیہ اداروں کی اطلاع تھی کہ پنجاب میں دہشت گردی کا شدید خطرہ ہے‘ مگر اس کے باوجود پنجاب حکومت کا رویہ لاابالی پن کا مظہر رہا، یہاں تک کہ گلشن اقبال پارک میں ایک ہولناک سانحہ ہو گیا۔ تفریح کے لیے آئے ہوئے چار پانچ سو افراد اس کا نشانہ بنے۔ ہلاکتوں کی تعداد اسی سے تجاوز کر چکی ہے ۔ ایک ہفتہ گزر چکا ہے‘ متاثرین اور زخمی ہسپتالوں میں لاوارث پڑے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی اور گنجائش کا علم سب کو ہے ۔صرف مذمتی بیانات اور تعزیتی فوٹو سیشن سے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس سانحے میں اب میڈیا کی دلچسپی بھی کم ہو چکی ہے ۔وہ بدقسمت جو اس شام گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی کا نشانہ بنے‘ وہی تمام عمراس حادثے کے اثرات سہیںگے۔ جس تن لاگے سو تن جانے! جن کے گھر کے گھر اجڑ گئے ‘ان کے پیارے واپس نہیں آئیں گے ۔یہ سانحہ جس نے لاہوریوں کو ہلا کر رکھ دیا‘ اور ذاتی طور پر مجھے بہت متاثر کیا کہ گزشتہ چند سالوں سے گلشن اقبال پارک میں مارننگ واک کی ایک روٹین تھی اور اتفاق ہے کہ ہم جھولوں والے گیٹ سے ہی داخل ہوتے اور وہیں سے اپنی واک کا آغاز اور اختتام کرتے ۔خون کی ہولی وہیں کھیلی گئی۔ پنجاب حکومت شاید کسی سانحے کے انتظار میں تھی کہ اس روز کے بعد سے اب تک پنجاب بھر سے اور خصوصاً لاہور کے مضافاتی علاقوں سے سینکڑوں خطرناک دہشت گرد پکڑے گئے ہیں جن کے پاس حساس عمارتوں اورمقامات کے مکمل اندرونی نقشے برآمد ہوئے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو پنجاب میں مکمل نافذ کیا جائے گا۔ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائیگا۔ اب تک تو پنجاب حکومت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں‘ دہشت گرد اپنا نیٹ ورک سہولت سے یہاں مضبوط کر تے رہے۔ اب اتنی جانوں کے زیاں کے بعد خدا خدا کر کے کبوتر نے آنکھیں کھول لی ہیں!