تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-04-2016

انحراف

آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کے حوالے سے سوچتا اور تجزیہ کرتا ہے۔ پھر صحیح نتائج وہ کیونکر اخذ کرے؟ مسئلہ پھر کیسے حل ہو؟ عارف نے سچ کہا تھا: تمام انحرافات بنیادی طور پر علمی ہوتے ہیں، تجزیاتی!
صدر اوباما کو سخت تشویش ہے کہ برصغیر میں تدبیراتی (Tectical) ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔ان کا اشارہ پاکستان کے اس ایٹم بم کی طرف ہے، جس کا سائز بہت چھوٹا ہے، ایک فٹ بال جتنا۔ اس ایٹم بم نے بھارت کو الگ سے دکھی کر رکھا ہے اور امریکہ کو الگ سے۔ امریکہ کی تشویش تو یہ ہے کہ کہیں یہ دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ بھارتی پریشانی کی بنا اور ہے ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی ''کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘سے دنیا بھر کی حکومتیں آشنا ہیں۔ اچانک اور تیز رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے پاکستان کے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا جائے اور پھر اپنی شرائط منوا کر ہی اس علاقے کو خالی کیا جائے۔
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور احمقانہ خواب دیکھنے پر کسی قدغن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فرض کیجیے، بھارتی فوج راجستھان کے راستے پاکستانی علاقے میں داخل ہوتی ہے۔ فرض کیجیے پاکستان کی انٹیلی جنس ناکام ہو جاتی ہے۔ بھارتی سینا کا راستہ روکنے کے لیے پاک فوج اور فضائیہ بروقت بروئے کار نہیں آتیں۔ فرض کیجیے صحرا عبور کر کے وہ حیدر آباد اور کراچی کو باقی ملک سے کاٹ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی معیشت یرغمال ہو جاتی ہے اور اسے بھارتی شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔
فی الحال اس نکتے کو الگ رکھیے کہ بھارتی شرائط کیا ہوں گی۔ احمقوں، دانشوروں اور این جی اوز کے کارندوں کے سوا یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اوّل روز سے بھارت کا ہدف پاکستان کا خاتمہ ہے؛ چنانچہ برہمن کی شرائط اسی منصوبے کا حصہ ہوں گی۔
پاکستان کے تدبیراتی ایٹمی ہتھیار، اسی بھارت منصوبے کا جواب ہیں۔ راجستھان یا سیالکوٹ‘ کشمیر یا لاہور، کہیں سے بھی بھارتی فوج پاکستان میں داخل ہو‘ تو ایک عدد چھوٹا ایٹم بم اس کا علاج ہے۔ چونکہ یہ خود پاکستان کی سرزمین پر برتا جائے گا اور جارح افواج کے خلاف؛ چنانچہ اس پر اتنا واویلا بھی ممکن نہ ہو گا۔ایٹم بم کا استعمال ایک المناک واقعہ ہو گا، کہ اس سے پھوٹنے والی تابکاری برسوں کے لیے زندگی کے امکانات کہیں خاکستر اور کہیں محدود کر دے گی۔( اگرچہ پاکستانی سائنس دانوں نے تابکاری محدود کرنے پر بہت کام کیا ہے) مگر اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ کیا کوئی قوم خود کو ایک ایسے دشمن کے حوالے کر سکتی ہے، نفرت کا لاوا جس کے اندر صدیوں سے پک رہا ہے۔ جو خود اپنی سرزمین پر دوسرے مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کو گوارا نہیں کرتی۔ سرکاری ملازمتوں میں انہیں حصہ نہیں دیا جاتا۔ کاروبار میں پھلنے پھولنے کے مواقع ان کے لیے محدود ہیں۔ عبادت گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس کے بڑے بڑے شہروں میں بھی سب سے بڑی اقلیت، کسی مسلمان کے لیے کرایے کا مکان حاصل کرنا بھی سہل نہیں۔
بھارتی اس پر پریشان ہیں اور انہی کی وجہ سے اسرائیلی اور امریکی بھی۔ ایک ممتاز مبصر نے لکھا ہے: شکر ہے، میاں محمد نواز شریف ایٹمی تحفظ کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ تشریف نہ لے گئے۔ عین ممکن ہے کہ امریکی دبائو وہ قبول کر لیتے۔ کون سا دبائو؟ خوش قسمتی سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور دفاعی پالیسیوں سے سول حکومت کا کبھی کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، صدر زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کو تو کبھی ایٹمی تنصیبات کے دورے کی دعوت بھی نہ دی گئی۔ فوجی سربراہوں کے سوا کسی شخص کو اگر یہ سعادت حاصل ہوئی تو وہ صدر غلام اسحق خان مرحوم تھے۔ ایٹمی سائنس دان باپ کی طرح ان کا احترام کرتے۔ سول حکومت کا دخل ہونا تو ضرور چاہیے۔ دنیا بھر میں قاعدہ یہی ہے لیکن اگر ملک کا وزیر اعظم، دشمن ملک کی ایسی شخصیات سے مل کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کا متمنی ہو، جن کے بارے میں شکوک پائے جاتے ہوں تو کیا کیا جائے؟
پرسوں پرلے روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات پرویز رشید کو سخت صدمے کا شکار پایا گیا۔ اتنا شدید صدمہ کہ ٹی وی کے ہر ناظر نے محسوس کیا۔ بظاہر خیال یہ تھا کہ ایک دن قبل پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والی کارروائی پر وہ آرزدہ ہیں۔ مگر وہ تو تخریب کاری کا نیٹ ورک چلانے والے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پر بھی رنجیدہ پائے گئے۔ اس بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ یعنی یہ کہ وہ جاسوس ہے بھی یا نہیں اور اس کی گرفتاری کا جواز تھا بھی یا نہیں۔ پرویز رشید کو جو لوگ جانتے ہیں، انہیں خبر ہے کہ وہ قیام پاکستان کے کبھی حامی نہ تھے۔ 76.5فیصد ووٹروں کی تائیدسے جو قائم ہوا۔ اس کے برعکس وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جو قائد اعظم کا مذاق اڑاتے ہیں،تین برس پہلے تک قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان کی تائید میں ایک لفظ کہنے سے بھی انہیں گریز تھا۔ پاکستانی فوج کا تمسخر اڑانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ جب نشان دہی کی گئی تو بعض مواقع پر قائد اعظم اور تحریک پاکستان پر انہوں نے اظہار خیال کیا۔ پنجابی محاورے کے مطابق ''شلجموں پر سے مٹی جھاڑی‘‘ 
پرویز رشید ہو یا کوئی اور، اپنی رائے قائم کرنے میں ہر شخص آزاد ہے۔ سوال دوسرا ہے۔ ایسا شخص وفاقی کابینہ میں کیوں شامل ہے؟ نواز شریف کی کابینہ میں جو قائد اعظم ثانی کہلانا پسند کرتے ہیں؟۔ بات دور نکل جائے گی مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال ذہن میں جنم لیتا ہے۔ نجم سیٹھی ایسا شخص وزیر اعظم کو اتنا عزیز کیوں ہے، جن کے نظریات معلوم اور معروف ہیں۔ کسی دوسرے ملک میں ایسے شخص کو ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ ہوتی چہ جائیکہ وہ کرکٹ بورڈ ایسے قومی ادارے کا سربراہ بنے۔ چہ جائیکہ وہ وزیر اعظم کے ایما پر دشمن ملک میں سفارت کاری کے فرائض انجام دے۔ یوں آدمی حیران ہوتا ہے کہ وہ کس کے مفاد میں سوچتا ہو گا، پاکستان یا بھارت کے ؟ کوئی قوم کسی بھی چیز پر سمجھوتہ کر سکتی ہے مگر اپنے دفاع پر کبھی نہیں۔ انسان کی پوری تاریخ یہی ہے کہ جو ریاست اپنی سلامتی کے بارے میں غیر محتاط ہو، اپنا وجود وہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ کیا کہنے ایسے وزیر اعظم کے اور کیا کہنے ایسے مشیر اور سفارت کار کے۔
اب جہاں تک صدر اوباما کی فکر مندی کا تعلق ہے کہ چھوٹے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اس کا علاج یہ نہیں کہ ایک ملک اپنی بقا کے تقاضے نظرانداز کر کے ہتھیار بنانے سے گریز کرے بلکہ یہ کہ ان کی حفاظت کا زیادہ بہتر انتظام کیا جائے۔ سب جانتے ہیں اور دنیا بھر کی اقوام گواہ ہیں کہ پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا حفاظتی انتظام اکثر ممالک سے زیادہ سخت ہے۔ فوج کے ایک پورے ڈویژن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے پاک فوج نے ایک بے مثال جنگ لڑی ہے۔ دنیا جانتی ہے ‘ اور صدر اوباما بھی جانتے ہیں کہ قبائلی پٹی اور بلوچستان میں ان دہشت گردوں کو بھارت کی مالی، اسلحی اور تدبیراتی سرپرستی حاصل ہے۔ اس سے زیادہ کراچی میں جہاں تیس برسوں سے وہ قاتلوں کے ایک پورے گروہ کو پال رہا ہے۔ صدر اوباما کو اس پر تشویش کیوں نہیں؟ یہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ خطے میں عدمِ استحکام کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کے حوالے سے سوچتا اور تجزیہ کرتا ہے۔ پھر صحیح نتائج وہ کیونکر اخذ کرے؟ مسئلہ پھر کیسے حل ہو؟ عارف نے سچ کہا تھا: تمام انحرافات بنیادی طور پر علمی ہوتے ہیں، تجزیاتی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved