منصورہ میں بیس عدد دینی جماعتوں نے نظامِ مصطفی تحریک کا اعلان کیا ہے ۔ بابائے طالبان سمیع الحق ، مولانا فضل الرحمٰن اور سینیٹر سراج الحق اس روح پرور اجتماع کے سر خیل تھے ۔ اتفاق سے یہ وہی جماعتیں ہیں ، طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی جنہوں نے ہر ممکن مزاحمت کی تھی۔ صاحبزادہ ابو الخیر زبیر نے یہ فرمایا: دینی جماعتیں نظامِ مصطفی کے لیے متحد ہو جائیں تو اقتدار خود بخود ان کی جھولی میں آگرے گا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مذہبی جماعتیں محض عوامی بہبود کی خاطر اقتدار چاہتی ہیں ورنہ تزکیہ ء نفس کی طویل مشقت کے بعد ان کے دل میں حکومت کی ہرگز کوئی خواہش نہیں ۔ وہ تو روکھی سوکھی میں خوش رہنے والے لوگ ہیں ، انہیں اقتدار کی چکنی چپڑی سے کیا غرض۔
2001ء میں امریکہ نے افغانستا ن پر حملہ کیا تو پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات اپنے عروج پر تھے۔ آج پندرہ برس بعد یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اُس وقت القاعدہ سے بڑی دہشت گرد تنظیم روئے زمین پر موجود نہ تھی ۔ انہوں نے کم عمر لڑکوں کے ذریعے خود کش حملوں کی لعنت متعارف کرائی ، دیکھتے ہی دیکھتے جو پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ افغان طالبان القاعدہ کے میزبان، ان کے مربّی اور پالن ہار تھے ۔ خود ملّا عمر کی قیادت میں جو بندوق بردار شریعت افغانستان میں متعارف کرائی گئی، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ ہمارے ایک افسانوی بلکہ خواہشانوی تجزیہ کاریہ ثابت کرتے پا ئے جاتے ہیں کہ ملا عمر کے افغانستان میں شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اب ان میں سے بہت سے داعش میں بھرتی ہوکر ایک دوسرے پہ اسلام نافذ کرتے پائے جاتے ہیں ۔افغانستان پر امریکی حملہ بڑی حکمت سے ٹالا جا سکتا تھا، اگر اسامہ بن لادن کو ملک بدر کر دیا جاتا۔ خدا یہ کہتاہے : اور جسے حکمت دی گئی، اسے خیرِ کثیر دی گئی ۔
متحدہ مجلسِ عمل کی دو صوبائی حکومتوں نے اپنے دورمیں کس قسم کا نفاذِ اسلام کیا، میں اس تفصیل میںنہیں جاتا۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ یہی وہ دور تھا، جب پختون خوا اور قبائلی علاقے میں دہشت گرد مضبوط و منظم ہوئے اور آنے والے برسوں میں ملک گیر تباہی کی بنیاد رکھی گئی ۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس انداز میں 2004ء میں مولانا سمیع الحق نے الزامات عائد کرتے ہوئے اس بابرکت اتحاد سے علیحدگی اختیار کی، وہ قابلِ غور تھا۔ بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے دستِ راست اکرم درانی نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ جو سلوک کیا ، وہ اور بھی افسوسناک تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی سترھویں ترمیم کو جس مشکوک انداز میں مولوی صاحبان نے ووٹ دئیے وہ افسوسناک نہیں بلکہ خوفناک تھا۔
اس پانچ سالہ اقتدار میں متحدہ مجلسِ عمل اگرعوام کے مسائل حل کر پاتی ،بلوچستان او رسرحد کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا تو آج پورے ملک میں انہی کی حکومت ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں محض احتجاجی تقاریر کا فن آتا ہے ۔ اسی دورِ حکومت کا انجام یہ ہے کہ اس اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی جماعتِ اسلامی آج پاکستان کے طول و عرض میں گنتی کی چند سیٹیں حاصل کرپاتی ہے۔
دینی جماعتوں کے اس اتحاد نے امریکہ مخالف جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر قسم کا جھوٹ بولا۔یہ بات درست ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے کم عمر بچّوں کو غائب کر دیا گیا اور پھر انہیں طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ شدید ظلم ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ایک روز اچانک امریکی فوج کراچی میں پر امن طور پر رہنے والی ایک خاتون کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنائے اور بغیر کسی وجہ کے؟
عوام اور مذہبی سیاسی جماعتوں میں تقسیم بڑھتی چلی گئی ؛حتیٰ کہ سید منور حسن نے ملکی دفاع میں جانیں قربان کرنے والوں کو شہید تسلیم کرنے سے انکا رکر دیا۔ اس پر فوج نے ہزاروں شہدا کی توہین پر معافی کا مطالبہ کیا۔ منور حسن نے مڑ کر دیکھا تو عوام فوج کی پشت پر کھڑے تھے۔ بالآخر جماعت کو قیادت بدلنا پڑی۔
یہ تو وہ مذہبی جماعتیں ہیں ، جو سیاست میں متحرک ہیں ۔ ان کے مخالف فرقے والوں کا حال سب نے دیکھا ۔ اسلام آباد دھرنے میں مخالفین کے خلاف گالی گلوچ اور غلیظ زبان استعمال کی گئی ۔ دوسری طرف ہم سرکارِ دوعالم ؐ کی تعلیمات دیکھیں تو حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد یزید ملعون کے دربار میں بھی کوئی ادنیٰ لفظ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وہ لوگ ہیں ، ذرا سا بڑا اجتماع ، ذرا سی عوامی تائید دیکھتے ہی، جو جنون میں ڈوب جاتے ہیں ۔ دونوں مخالف فرقوں میں سے کسی کو بلا کر پوچھ لیا جائے کہ انسانی دماغ میں کتنی حیوانی جبلتیں کارفرما ہوتی ہیں ؟ نفس کیا ہے ؟ خدا کی تلاش میں عقل کی اہمیت کیا ہے ؟ یہ آپ کو کچھ بتا نہیں پائیں گے۔ اکثریت نیم خواندہ حضرات کی ہے ۔ وہ آپ کو اپنے بزرگوں کی کرامتیں سنا سکتے ہیں اور یہ کرامتیں اپنے مخصوص فرقے ہی سے منسوب ہوں گی ۔ دوسری طرف خدا یہ کہتاہے: جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور الگ گروہ ہو گئے ، (اے نبیؐ) تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (الانعام 159۔)
ادھر سوشل میڈیا پر ملّائیت کے حق میں ایک مہم برپا ہے ۔ اس کا انکار کرنے والوں کی مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں کے بارے میں غلیظ لطائف ایک دوسرے کے گوشِ گزار کیے جا رہے ہیں ۔ گزشتہ ماہ ایک خاتون کی تصویر پہ ہزاروں غلیظ تبصرے کیے گئے، جس نے یہ بینر اٹھا رکھا تھا: مولویو، اب تم سے ہماری کھلی جنگ ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اپنے مخالف سے بات کرتے ہوئے جو تہذیب اور شائستگی کا دامن بھی تھام نہیں سکتا، کیا وہ اسلام کا نمائندہ بنے گا؟ دوسرا سوال یہ کہ سب سے بڑ ھ کر تو اقبالؔ نے ملّائیت کی مذمت کی۔ ان پہ بھی فتویٰ جڑ دیجیے ۔ کیا یہی نام نہاد مذہبی طبقات نہیں تھے، قائدِ اعظم ؒ کو جنہوں نے کافرِ اعظم کہا؟
آئیے میں آپ کو ایک آیت سناتا ہوں : بے شک رات اور دن کے بدلنے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ، ان میں نشانیاں ہیں ڈرنے والوں کے لیے ۔ (یونس6۔) مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت مبارک کو ٹھیک طرح سمجھنے کے لیے فلکیات (کاسمالوجی) اور ارضیات (Earth Sciences)کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ بار بار خدا کہتاہے : وہ لوگ جو غور کرتے ہیں ‘وہ جو عقل رکھتے ہیں ‘وہ یہ کہتا ہے جو عقل نہیں رکھتے ، وہ بدترین جانور ہیں ‘شر الدواب ‘ تعلیم ‘ غو ر و فکر‘خدا کی شناخت کا سفر‘ یہ وہ چیزیں ہیں ، جو مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری تھیں ۔ انہوں نے اس سے ہاتھ اٹھالیااور حصولِ اقتدار کی کشمکش میں جُت گئے۔ انہیں نفرت انگیز نعروں کے ذریعے جذبات بھڑکانے ، فتویٰ بازی سے فرصت نہیں ۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ان لوگوں سے اسلام کو سخت خطرہ ہے‘ جو مملکتِ خداداد میں اس کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں ۔