تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     05-04-2016

کون توڑے گا اس ملی بھگت کو؟

کولکتہ میں پل کے گر جانے پرسیاسی توتو میں میں شروع ہو گئی ہے یہ ہماری جمہوریت کے لیے شرم کی بات ہے۔جن پچیس لوگوں کی جان چلی گئی ہے اور درجنوں لوگ بری طرح سے زخمی ہو گئے ہیں ‘ان کا معاوضہ کیسے بھرا جائے گا ۔لاکھوں روپیہ انہیں اور ان کے خاندانوں کو دے دینے سے کچھ مرہم تو لگے گا لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ مجرموں کو سخت سزادی جائے اور فوراًدی جائے تاکہ اس طرح کاحادثہ مستقبل میں دہرایا نہ جائے ۔سبھی پارٹیاں یہ مانگ کیوں نہیں کرتیں کہ اس پل کو بنانے والی حیدرآباد کی اس مشہور کمپنی (آئی وی آر سی ایل )پر تالے ٹھوک دیے جائیں؟اس کے مالک اور اس پل کی تعمیر کے متعلق سارے لوگوں کو کم از کم دس برس کی سزا دی جائے۔اس کمپنی کے افسروں اور ان کے خاندان والوں کی ساری دولت ضبط کی جائے۔بالکل اسی طرح کی سزا مارکس وادی پارٹی کی سرکار میں کام کر رہے ان سبھی سرکاری افسروں کو دی جائے ‘جو پل کی تعمیر میں شامل رہے ہیں۔ اگراس وقت کا وزیر زندہ ہوتو اسے بھی پکڑ کر اندر کیا جائے۔ ہو سکتا ہے اس عمل میں کچھ بے گناہ لوگ بھی پھنس جائیںلیکن کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ زخمی لوگ سبھی بے گناہ تھے ؟اگر پل کے گرنے اور ان اموات کو خدا کی مرضی بتایا جا رہا ہے تو وہ لوگ اس سزا کو بھی خدا کی مرضی مان کر جھیل لیں ۔
اس کمپنی کے بڑے افسر نے دعوی ٰکیا ہے کہ ستائیس برس سے اس کمپنی کے ذریعے بنائی جارہی چیزوں میں ایسا حادثہ پہلی بار ہوا ہے۔تو وہ یہ بھی بتائیں کہ وزارت ریلوے نے اس کمپنی پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے ؟ اس کمپنی پر بینکوں کا دس ہزار کروڑ روپیہ کا قرض کیوں چڑھا ہوا ہے ؟ اگر اس حادثہ کے فوراًبعد اس کمپنی کااحتساب کر دیا جائے تو ملک کی سبھی کمپنیوں کو بڑا سبق ملے گا ۔ رشوت خوری اور گھٹیا مال کھپانے کی رسم رک ہو جائے گی۔اس طرح کے پلوں ‘سڑکوں ‘مکانات اور ڈیموں کا ٹوٹنا اسی لئے ممکن ہوتا ہے ‘کیونکہ لیڈروں ‘ افسروں اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت ہوتی ہے ۔جس دن بھارت میں کوئی مائی کا لال ایسا پیدا ہو جائے گا ‘جو اس ملی بھگت کو توڑ دے گا ‘اسی دن سے پل ٹوٹنا بند ہو جائیں گے ۔ اگر عدالت اپنے آپ کو پاک صاف سمجھتی ہے تو ان لوگوں کو قتل کے جرم کی سزا کیوں نہیں دیتی ہے ؟ان بدعنوانوں اور دہشتگردوں میں کیا فرق ہے ؟دونوں ہی بے گناہوں کا قتل کرتے ہیں ۔ دہشتگرد تو پھر بھی پکڑے جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں لیکن بدعنوان لیڈروں ‘افسروں اور ٹھیکیداروں پر بھلا ہاتھ ڈالنے والاکون ہے ؟
اترا کھنڈ میں دو دو دنگل ایک ساتھ
اترا کھنڈ کو لے کر جو عدالتی دنگل ہوا ہے‘وہ سیاسی
اکھاڑے بازی سے بھی زیادہ مزے دار ہے ۔جیسے وہاں ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو پٹخنی مار دی ‘ویسے ہی ایک عدالتی فیصلے کودوسرے عدالتی فیصلے نے بلاک کر دیا ہے ۔اگر یوسی دھیانی کی اکیلی بینچ نے31 مارچ کو سدن میں حمایت ثابت کرنے کا حکم دے دیا تو اسی عدالت کے دو ججوں نے اس اکثریت کو ثابت کرنے پر روک لگا دی ۔ بھاجپا خوش ہوگئی ‘ باغی ایم ایل ایز گد گد ہوگئے لیکن کانگریس پریشان ہو گئی ‘ویسے اگر 31 مارچ کو اکثریت ثابت ہو جاتی تو بھی پتا نہیں کیا ہو جاتا ؟ کانگریس اکثریت کا جگاڑ کیسے کرتی۔ اس تگڈم سے وہ پتا نہیں کتنی اور بدنام ہوتی ؟گورنر اور صدر مملکت کے لیے نیا سردرد کھڑا ہوجاتا ۔لیکن یہاں اس فیصلے نے کافی دھوم پہلے ہی مچا دی تھی ۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ اترکھنڈ میں جب کوئی سرکار ہی نہیں ہے تو اعتماد ووٹ کون حاصل کرے گا اور کیسے کرے گا ؟ سدن میں اکثریت دکھانے کے پہلے ہٹائے ہوئے وزیراعلیٰ کو حلف دلا کر وزیراعلیٰ بنانا ہوگا اور پھر جن نو کانگریسی ممبروں کو معطل کیا گیا ہے ۔وہ ووٹ کیسے دے دیتے ؟ ان کی معطلی کومعطل کون کرے گا؟اس وقت سپیکر اور ودھان سبھا (صوبائی اسمبلی) دونوں ہی آرام کی کیفیت میں ہیں ۔ اس کے علاوہ صدر راج کے چلتے جج کا یہ فیصلہ ایک دم اٹ پٹا اور غیر برتائو والا تھا ۔ حالانکہ سدن میں اکثریت کی بات اصولی صورت سے کافی اچھی لگ رہی تھی لیکن وہ تو 18 مارچ کو ہی ہو گیا تھا ۔اتر کھنڈ میں اب جو ہو رہا تھا ‘ وہ تو رشوت خوری ‘ تجارت بازی ‘دھاندلی اور افرا تفری کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔ اب جو بینچ کا فیصلہ آیا ہے ‘وہ بہتر ہے اس نے دونوںپارٹیوں کو ہفتے بھر کا وقت دے کر اپنی اپنی دلیل رکھنے کو کہا ہے ۔ 
لیکن پھر اس واقعہ کا مزے دار پہلو یہ بھی ہے کہ عدالت اور عدالت کے بینچ میں دونوں میں یہ معاملہ چلے گا ۔ ایک میں نو ایم ایل ایز کی معطلی کا اور دوسری میں صدرراج کا!کیا پتا ‘ دونوں عدالتوں کے فیصلوں میں کہیں پھر مٹھ بھیڑ نہ ہو جائے جو بھی ہو ‘ اترکھنڈ میں اب جس کی بھی سرکار بنے گی‘ اسے چلائے رکھنا آسان نہیں ہوگا ۔بہتر تو یہی ہوگا کہ صدر راج ختم ہوتے ہی چنائو کا اعلان ہو جائے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved