تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     05-04-2016

’’عدالتی قتل‘‘

آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو کی 37ویں برسی ہے ۔جیالے ان کی یاد میں تقریبات منعقد کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا اجتماع گڑھی خد ا بخش میں ہو رہا ہے ۔بھٹو کی برسی مناتے ہوئے جیالے ان کی پھانسی کو ''عدالتی قتل‘‘ کہتے ہیں۔ اس الم ناک کہانی کو یاد کرتا ہوں تو بعض ''دلچسپ ‘‘پہلو بھی سامنے آتے ہیں ۔یہ 10اور11نومبر 1974ء کی درمیانی شب تھی جب احمد رضا قصوری شادی کی ایک تقریب سے واپس آرہے تھے ۔ ان کی (ڈرائیونگ ) سیٹ کے ساتھ والی نشست پر ان کے والد نواب محمد احمد خان قصوری تھے ۔والدہ ایک اور خاتون کے ساتھ پچھلی نشست پر تھیں کہ شادمان چوک میںیہ گاڑی فائرنگ کی زد میں آگئی۔ احمد رضا بچ گئے اور ان کے والد نشانہ بن گئے ۔احمد رضا کے اصرار پر ایف آئی آر میں بھٹو صاحب کو بڑے ملزم کے طور پر نامزد کر دیا گیا ۔11ماہ بعد (یکم اکتوبر 1975ء)کو یہ کیس ان الفاظ کے ساتھ داخل دفتر ہواکہ قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا تھا ( حیرت ہے بھٹو صاحب قتل کے اس مقدمے میں نامزد ملزم تھے لیکن حکومتی ادارے''اصل قاتلوں‘‘ کو ڈھونڈ کرکیفرِ کردار تک نہ پہنچا پائے ۔)
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں اس کیس پر عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے جن کا شمار دبنگ قسم کے ججوں میں ہوتا تھا ۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں انہی کی عدالت نے بھٹوصاحب کو ریلیف دینے کی جرأت کی تھی ۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے ۔ عدالت ایک کیس میں ضمانت لیتی تو پولیس کسی اور نامعلوم کیس کی ایف آئی آرکے ساتھ جیل کے دروازے پر موجود ہوتی اور یوں بھٹو صاحب ایک مقدمے میں رہا ہوتے تو دوسرے میں دھرلیے جاتے ۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین انتظامیہ کے ان حربوں کو خوب سمجھتے تھے ۔ انھوں نے بھٹو صاحب کیBlanket bailکا حکم جاری کر دیا ، گزشتہ تاریخوں میں درج کیے گئے تما م مقدمات میں ضمانت ، کسی نئے مقدمے کی صورت میں عدلیہ سے رجوع کیا جائے ۔
کہا جاتا ہے ،بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لئے ان کے ذہن میں مولوی صاحب کا نا م تھا لیکن سمجھانے والے نے سمجھایا ، جو شخص فیلڈ مارشل کی پروا نہیں کرتا تھا وہ آپ کی کب سنے گا ؟ حیرت تھی ، بھٹو جیسے جینئس کے ذہن میں یہ بات پہلے کیوں نہ آئی ؟ مولوی صاحب کے بجائے جسٹس سردار اقبال چیف جسٹس بنا دیئے گئے ( جو سنیارٹی میں ان کے برابر تھے۔ ) سردار اقبال بھی قاعدے قانون کے آدمی تھے ۔ حکومت کو اکاموڈیٹ کرتے ہوئے بھی حدودوقیود کا خیال رکھتے ۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم ) نے اپنی خود نوشت ''اپنا گریباں چاک‘‘ میں لکھا :'' بعض احباب کا خیال ہے کہ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے اپنے کسی دوست وکیل کو جج بنانے کی سفارش کی جس پر سردار اقبال نے جواب دیا ، ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دلّے ہائی کورٹ کے جج مقرر کر دیئے جائیں۔ اس پر یحییٰ بختیا ر ناراض ہو گئے ‘‘۔کچھ اور وجوہات بھی ہوں گی ۔ بہرحال سردار اقبال کی رخصتی کا فیصلہ ہو گیا ۔آئین میں ترمیم کر کے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے لئے چار سال کی مدت مقرر کر دی گئی۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس صفدر شاہ بھی ''دلِ یزداں ‘‘میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے ۔ 
ولی خاں اور ان کے رفقاء کی گرفتاری اور نیپ پر پابندی کے بعد پشاور ہائی کورٹ زیرِعتاب کارکنوں کے لئے ریلیف کا ذریعہ بن گئی ، نئی ترمیم چیف جسٹس صفدر شاہ سے نجات کے کام بھی آئی ۔ لاہورہائی کورٹ میں سینیارٹی میں 7ویں نمبر پر جسٹس اسلم ریاض حسین چیف جسٹس بنا دیئے گئے تو مولوی مشتاق حسین نے استعفے کا فیصلہ کر لیا‘ لیکن دوستوں کے اصرار پر وہ اس انتہائی اقدام کے بجائے طویل چھٹی پر چلے گئے۔ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کیس شروع ہو تو وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس (اور اس کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بنچ کے سربراہ )تھے ۔یہ کھلی عدالت تھی جو ملکی و غیرملکی صحافیوں اور دلچسپی رکھنے والے دیگر افراد سے بھری رہتی ۔عدالتی کارروائی کی تمام تر تفصیلات ملک کے اندر اور باہر شائع ہو رہی تھیں ۔ سابق وزیراعظم کو اپنے دفاع کے لیے تما م قانونی سہولتیں بہم پہنچائی گئیں ؛البتہ غیر ملکی وکلاء کی خدمات سے یہ کہہ کر معذرت کر لی گئی کہ خود بھٹو صاحب نے نیپ کو خلاف قانون قرار دینے اور غداری کے الزام میں ولی خاں (اور ان کے رفقاء ) کی گرفتاری کے بعد ایک نئے قانون کے ذریعے یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ پاکستانی عدالتوں میںکسی پاکستانی کے خلاف کیس میںکوئی غیر ملکی وکیل پیش نہیں ہو سکتا ۔اب یہی قانون خود ان کے رستے کی دیوار بن گیا تھا ۔
لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سزائے موت کے متفقہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی ۔ چیف جسٹس انوارالحق کی سربرائی میں 9رکنی بنچ(فل کورٹ) میں سماعت کا آغاز ہوا ۔ ان میں جسٹس صفدرشاہ بھی تھے ۔ پشاور ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے مالی حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ انھوںنے
بطورجج ساری زندگی دیانت داری کو شعارکیا تھا ۔ شریف الدین پیرزادہ کی تجویز پر جنرل ضیاء الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا ۔30جون 1978ء کو جسٹس قیصر خان اپنی مدت ملازمت کی تکمیل پر ریٹائر ہو گئے (اب باقی8جج رہ گئے تھے ۔) 30نومبر 1978ء کو جسٹس وحیدالدین پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس میں ان کی بینائی اور قوت ِگویائی برُی طرح متاثر ہوئی۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے فیصلہ دے دیا ، جسٹس صاحب کی واپسی کا کوئی امکان نہ تھا ۔ بھٹو صاحب نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سے مفصل خطاب کیا ۔ کئی روز جاری رہنے والے اس خطاب میں انھوں نے دنیا جہان کے مسائل پر اظہار خیال کیا ۔ ایک مرحلے پر چیف جسٹس نے یاد دلایا ، آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ دلچسپ ہے لیکن کیا آپ اس مقدمے کی طرف دھیان دینا بھی پسند فرمائیں گے ؟ بھٹو صاحب کا جواب تھا ، یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے ، من گھڑت داستان ہے ۔ اس طویل خطاب کا اختتام انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ کیا : خدا کا شکر ہے کہ مجھے بھی کچھ کہنے کی اجازت دی گئی ۔ آپ ہی تھے جنھوں نے میرے ساتھ یہ مہربانی کی۔ اب اگر آپ چاہیں تو مجھے تختہ دار پر بھی لٹکا سکتے ہیں ۔ 
2فروری 1979ء کو فیصلہ آگیا ۔چارججوں (چیف جسٹس انوارالحق ، جسٹس محمد اکرم ، جسٹس کرم الٰہی چوہان اور جسٹس نسیم حسن شاہ ) نے لاہو رہائی کورٹ کاپھانسی کا فیصلہ برقرار رکھا تھا ،تین ججوں (جسٹس دراب پٹیل ، صفدر شاہ اور جسٹس حلیم ) نے اختلاف کیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ بھٹو صاحب اور ان کے وکلاء نے اسے فوجداری مقدمے کے طورپر لڑنے کے بجائے سیاسی انداز میں لڑا۔ اسے طول دینے کے لئے تاخیری حربے اختیا ر کیے ‘اس دوران دو جج ریٹائر ہو گئے ۔ وہ موجود ہوتے تو اکثریتی فیصلہ شاید مختلف ہوتا۔
بھٹو صاحب چار اپریل کو پھانسی چڑھا دیے گئے ۔ اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ کے کچھ دلچسپ مناظر :لاہور ہائی کورٹ میں ایئر مارشل اصغر خان کے مقدمے کی سماعت مکمل ہو چکی ۔ حکومت کو سُن گُن ہوگئی تھی کہ فیصلہ پٹیشن کے حق میں آنے والا ہے لیکن اس سے قبل ہی چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کے لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں تبادلے کے آرڈر آ گئے اور حکومت اس فیصلے سے بچ گئی جو اس کی بنیادیں ہلا دینے والا تھا ۔
ضیاء الحق نے 1981کے اوائل میں پی سی او نافذ کیا تو چیف جسٹس انوارالحق ڈٹ گئے ، وہ اسے نصرت بھٹو کیس میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی قرار دے رہے تھے‘ جس میں 5جولائی 1977ء کے مارشل لاء کو اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا گیا تھا کہ 1973ء کا آئین ملک کے بالا تر قانون کے طور پر موجو د رہے گا اور عدالت کو مارشل لاء کے کسی بھی اقدام کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہو گا ( جوڈیشل ریویو کا حق۔) جنرل ضیاء اور چیف جسٹس کی ملاقات سخت کشیدگی کے ماحول میں اختتام کو پہنچی ۔ چیف جسٹس نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکا کر دیا تھا ۔ مولوی مشتاق حسین کو بلایا ہی نہ گیا ۔ انکار کرنے والے 2اور ججوں میں جسٹس دراب پٹیل اور فخر الدین جی ابراہیم شامل تھے ۔ دراب پٹیل بھٹوکی پھانسی کے بعد بھی پونے دو سال جج رہے اور اس دوران کسی حکومتی دبائو کی کوئی شکایت نہ تھی۔ ادھرپی سی اوکے تحت حلف اُٹھانے والوں میں جسٹس حلیم بھی تھے ۔ بھٹو کی پھانسی سے اختلاف کرنے والے جسٹس حلیم ، ضیاء الحق سے حلف لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے ۔ وہ اپنے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کی نسبت طویل ترین عرصے کے لئے اس منصب پر فائز رہے اور محترمہ بینظیر بھٹو کے ( پہلے ) دور میں ریٹائر ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved