تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-04-2016

یہ نعرہ اور سیکولر ازم ؟

مارچ کے پہلے ہفتے راشٹریہ سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھگوت نے اعلان کیاتھا کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ اپنی نئی نسل کو بتانے اور ان کے ذہنوں میں بٹھانے کیلئے بھارت میں رہنے والے ہر شخص کیلئے '' بھارت ماتا کی جے‘‘ (Hail Mother India) کا نعرہ بلند کرنا لازمی قرار دیا جائے؛ چنانچہ سنگھ کے اس رہنما کی‘ جو کہ بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت کے حقیقی سربراہ ہیں‘ ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہر بھارتی کے لیے '' بھارت ماتا کی جے‘‘ کا نعرہ لازمی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ اس بھارت کی سرکاری مہم کا حصہ ہے جو خود کو دنیا بھر میں سیکولر ازم کا سب سے بڑا مبلغ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتا۔ بھارت میں صدیوں سے مختلف قومیتیں اور مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہیں۔ ان سب کے لیے یہ نعرہ لازمی قرار دے دیا جانا کوئی عام سا سرکاری حکم نہیں؛ بلکہ اس کے پیچھے انتہا پسند ہندوانہ سوچ اور مقاصد چھپے ہیں۔ بھارت ماتا کی جے کبھی بھی قومی نعرہ نہیں تھا۔ اس نعرے کا مقصد بی جے پی کی حکومت کی طرف سے توجہ ہٹانا ہے۔ بی جے پی نے انتخابات سے پہلے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے‘ ان پر عملدرآمد کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آ رہا۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں جنتا پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی نا کامی نے بھارت کی جنتا کی مودی سرکار سے نا راضگی واضح کر دی ہے ۔ آزادی سے پہلے ہندوستان کے سکولوں میں ہندو استاد مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کو بندے ماترم کا ترانہ کہنے پر مجبو کیا کرتے تھے اکثر اس بات پر فسادات اور لڑائی جھگڑے ہوا کرتے تھے۔ یہی وہ ترانہ تھا جس نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ انگریز سے ہندوستان کی آزادی کا مطلب صرف ہندو کی آزادی ہے۔ جبکہ باقی سب قومیں انگریز کے بعد ہندو کی غلام بن کر رہ جائیں گی۔ انتہاپسند ہندو آج ایک بار پھر بندے ماترم کی جگہ پر بھارت ماتا کی جے کا نعرہ ہر کسی کے سر تھونپ کر ایک ہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بھارت صرف ہندوئوں کا ہے اور یہاں ان کی سب دیوی دیوتائوں سے منسوب جانوروں اورچوپایوں کو ماں کا درجہ بھی دینا ہو گا۔ بھارت کے لبرل اور سیکو لر لوگ اسے مودی حکومت کا نیا پاگل پن قرار دیتے ہوئے اسے ملکی یکجہتی کے سرا سر خلاف قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کی کمیونسٹ پارٹیاں‘ سیا سی جماعتیں اور مختلف ترقی پسند تنظیمیں اس نعرے کوانسانی حقوق کے خلاف قرار دے رہی ہیں۔ حیدر آبادسے رُکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں کھڑے ہو کر کہا‘جے ہند یا جئے بھارت کہنے میں کوئی حرج نہیں‘ ہم یہ نعرہ سو مرتبہ لگائیں گے لیکن بھارت ماتا کی جے کا نعرہ نیا ڈھکوسلا ہے اور منافرت بھری تقسیم کے ایجنڈے پر مشتمل ہے۔ ہم اس کی ہر سطح پر مخالفت کریں گے۔ اگر انتہا پسند سوچ کے نزدیک بھارت سے وفا داری کا ثبوت دینے کیلئے اس نعرے کا لگانا ضروری ہے تو میں کبھی یہ نعرہ نہیں لگائوں گا اور آئین کی رو سے کوئی بھی مجھے مجبور نہیں کر سکے گا۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی مساجد، سکھوں کے گردواروں اور عیسائیوں کے گرجا گھروں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ آر ایس ایس کا یہ نعرہ بندے ماترم کا دوسرا رُخ ہے جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ نعرہ لگانے والا'' دیوی ماں‘‘ کے سامنے سر جھکا رہا ہے ۔ دیوی دیوتائوں کی پوجا‘ آسمانی مذاہب کے نزدیک کفر ہے اور پھر ہندو مت میں دیویوں کی تعداد‘ جن کی پوجا کی جاتی ہے‘ لاکھوں میں ہے۔
یاد ہو گا کہ1992ء میں شیو سینا نے ممبئی کی سڑکوں پر روزانہ جگہ جگہ مارچ کرتے ہوئے نعرے لگانے شروع کر دیئے تھے کہ ''بھارت دیش میں رہنا ہو گا تو‘بندے ماترم کہنا ہو گا‘‘ بندے ماترم کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ اس نعرے کو ایک متعصب بنگالی ہندو چندر چیٹر جی نے تخلیق کیا تھا جسے بعد میں اس نے اپنے ناول آنند میتھ میں شامل کرلیا۔ اس ناول میں مسلمانوں کی تہذیب،
مذہب اور معاشرت کے بارے میں انتہا درجے کی گھٹیا زبان استعمال کی گئی تھی اس وقت کی کانگریس اور دوسری ہندوانتہا پسند جماعتوں کے علاوہ صوبہ سرحد کے سرخپوشوں اور خدائی خدمت گاروںنے بندے ماترم کے اس نعرے کو انگریز سے آزادی اور ہندو دھرم کی عظمت کے طور پر لگانا شروع کر دیا۔ جب مسلمانوں اور توحید پر یقین رکھنے والے کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اعتراض شروع کیا تو1937ء میںپنڈت نہرو اور مولانا ابوا لکلام آزاد نے ہندوستان کا نیا ترانہ تیار کیا جس کے آغاز میں بندے ماترم ہی لکھا اور اس کے بعد'' بندے ماترم جانا گانا مانا‘‘ کا اضافہ کر دیا جو ہندو دیویوں کے تصور پر مبنی ہے۔
آر ایس ایس اور جنتا پارٹی بھارت میں صرف ہند و سوسائٹی کے تصور کا راگ ہی الاپتے ہیں اور ان کے پیغامات اور تشہیری مہمات میں بھارت کے کم ترقی یافتہ علا قوں کے لوگوں میں یہ کہتے ہوئے زہر گھولا جا تا ہے کہ ہندوستان پر قابض مسلمان حکمرانوں نے ہمارے سینکڑوں مند رتباہ کر دیئے تھے۔ یہ بات شہروں میں نہیں کہی جاتی کیونکہ ان کے سامنے سینکڑوں سالوں سے بڑے بڑے مندر اسی طرح کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ ہندو بہت ہی بہا در اور مضبوط قوم ہیں اور ضمن میں وہ ہندو بادشاہوں اور راجوں کے من گھڑت قصے بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے ان کا مقصد نو جوان نسل کو یہ باور کرانا ہے کہ ہندوئوں سے بڑی بہادر قوم دنیا میں اور کوئی نہیں۔
بھارت میں بسنے والی آج کی نئی نسل جسے دنیا میں گھومنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور بھارت کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں گوگل کی دنیا میں بسنے والوں کی ایک خاصی بڑی تعداد راشٹریہ سیوک سنگھ کے نظریات سے ذرا سا بھی اتفاق نہیں کر رہی کیونکہ وہ موبائل سمیت فیس بک اور گوگل کی بہت سی Chatting سہولیات کی وجہ سے دنیا کو کیا کہہ کر اور انتہا پسندوں کے دلائل کی روشنی میں کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ بھارت میں ''گائے ذبح کرنے والوں اور بیف کھانے والوں کو پھانسی دنیا اور انہیں سنگسار کرنا ہندو مذہب کے مطا بق جائز ہے۔ وہ کیا کہیں کہ مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانا، مساجد کو مسمار کر کے اُن کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا اور مسلمانوں سمیت عیسائیوں اور سکھوں کو یہ کہتے ہوئے زبر دستی ہندو مذہب قبول کرنے پر آمادہ کرنا کہ اس طرح گھر واپسی ہو جائے گی اور ان تمام انتہائوں کے ساتھ اب زبردستی اور طاقت سے '' بھارت ماتا کی جے کہلانا‘‘ مودی سرکار نے سرکاری نعرہ بنا لیا ہے اور شایدوہ یہی نعرہ لگا کر ریاستی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی ہند نے تو اس نعرے کو سرا سر مشرکانہ قرار دے دیا ہے ۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved