سات ارب انسانوں میں سے وہ ایک آدمی تھا، جس نے کائنات ، زندگی اور خود اپنے بارے میں غور و فکر کا آغاز کیا تھا۔ وہ یہ عقدہ حل کرنا چاہتا تھا کہ ہم انسان یہاں اس زمین پہ کیا کر رہے ہیں ۔ اس دوران حیرت انگیزانکشافات نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اپنی تحقیقات کو اس نے تحریری شکل میں محفوظ کرنا شروع کیا۔ اس نے یہ لکھا:
1۔ یہاں ، جس نیلے سیارے پہ ہم رہتے ہیں ، اس کی تخلیق کے محض پچاس کروڑ سال بعد یعنی آج سے چار ارب سال پہلے ہی زمین پہ زندگی نے جنم لے لیا تھا۔ اس دوران اس نے بہت سی شکلیںاختیار کیں ۔آپ اسے ناچتے ہوئے مور میں دیکھیں یا مکروہ کیڑے میں ، ہر کہیں کچھ چیزیں مشترک ہیں ۔ ہر کہیں یہ خلیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ہر کہیں ان خلیوں تک توانائی پہنچنے اور فاسد مادوں کے اخراج کا نظام ایک ہی جیسے طریقِ کار پہ مشتمل ہے ۔ یوں اگر آپ گہرائی میں دیکھیں تو خوبصورتی اور بدصورتی کے احساسات صرف ہمارے دماغوں تک محدود ہیں ۔ جہاں تک زندگی کا تعلق ہے ، وہ ایک مکمل توازن پہ قائم ہے ۔ یوں کسی صورت اسے بدصورت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
2۔ حیرتوں کی حیرت یہ ہے کہ ان چار ارب سال کے دوران وہ 99فیصد جاندار انواع جو کبھی اس زمین پہ موجود تھیں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکیں ۔ اب ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں ۔ اس کے باوجود، زمین پہ زندگی کی بہتات ہے ۔ یہ گویا کسی نوزائیدہ چشمے کی طرح ابل رہی ہے ۔ وہ انواع جو ختم ہو چکیں ، ان کی تعداد کا تخمینہ پانچ ارب ہے ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ سات ارب انسان ان میں سے صرف ایک نوع ہیں ۔
3۔ کرّۂِ ارض پہ اس وقت جاندار اقسام کی تعداد پچاس لاکھ سے لے کر ڈیڑھ کروڑ کے درمیان ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف 12لاکھ کو انسان ایک نام دے پایا ہے ۔ باقی ہنوز اس کے تحریری ریکارڈ سے باہر ہیں ۔ یہ بات اس لیے بھی حیرت انگیز ہے کہ انسان کسی بھی نئی چیز کو نام دینے میں بالکل تاخیر نہیں کرتا ۔ پھر بھی جانداروں کی اقسام اس قدر بے تحاشا اور بے حد و حساب ہیں کہ انسان اس عمل میں گویا تھک سا گیا ہے ۔ اگر ذہین انسان ، جو اپنا سارا علم آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتا اور طاقتور ترین سپر کمپیوٹر جسے میسر ہیں ، آج تک محض بارہ لاکھ جاندار اقسام کا ڈیٹا مرتب کر پایا ہے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ زندگی کا مکمل ڈیٹا قائم کرنے میں ہمیشہ وہ ناکام ہی رہے گا۔
4۔ زمین کئی مرتبہ بڑے حادثات سے گزری ہے ۔ دس سے بیس مربع کلومیٹر دم دار ستارے اس پہ برستے رہے ہیں ۔ یہ واقعات مستقبل میں بھی رونماہو سکتے ہیں ۔ زمین طویل آتش فشانی ادوار سے گزری ہے ۔ یہ ادوار دوبارہ لوٹ سکتے ہیں ۔ گزرے چار ارب سالوں میں زمین برف کا گولہ بنتی رہی ہے اور یہ دوبارہ بھی بن سکتی ہے ۔ ایسے حادثات آنِ واحد میں 70سے 90فیصد جانداروں کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کرتے رہے ہیں ۔ایسے حادثات دوبارہ بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود، انسان جسمانی طور پر دوسرے جانوروں جیسا ہی ایک جانور ہے ۔ ابھی تک بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات روکنے میںوہ ناکام رہا ہے ۔ وہ دائمی زندگی پا نہیں سکا۔ وہ خلا میں ایک ایسی مستقل رہائش قائم کرنے میں ناکام رہا ہے ، جہاں زمین سے رسد نہ پہنچنے کی صورت میں بھی وہ زندہ رہ سکے ۔ اس کے ہمسایہ سیاروں کا ماحول زندگی کے لیے سازگار نہیں ۔ ممکن ہے کہ اگلی ایک دہائی میں وہ کسی دوسرے سیارے پہ ایک بستی آبادکر سکے ۔زندگی کی حفاظت کرنے والے لوازمات کی غیر موجودگی میں وہاں ایک بہت دشوار زندگی ہماری منتظر ہوگی ۔ جہاں تک نظامِ شمسی سے پرے کسی دوسرے سورج کی زمین تک پہنچنے کا تعلق ہے ، تو اس کے لیے ہمیں ابھی کئی ہزار سال کا سفر طے کرنا ہوگا۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ 9ممالک وہ خطرناک جوہری ہتھیار بنا چکے ہیں ، جن میں سے چند ایک بھی پورے سیارے کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ کسی بھی غلط فہمی کی صورت میں کوئی بھی حادثاتی جنگ تمام جانداروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتی ہے اور انسان ان میں شامل ہے ۔
5۔ انسان ایک بے حد خوبصورت جاندار ہے لیکن اس سے پہلے بھی ایسے جاندار گزرے ہیں ۔ ان میں سے ایک ہومو سیپین نی اینڈرتھل (Homo Sapien Neanderthal) موجودہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پہ چلتا تھا۔ وہ ہماری ہی طرح کا ایک انسان تھا؛البتہ ہمارے جیسی ایجادات اور آسائشوں تک پہنچنے میں وہ ناکام رہا۔ اس کا سر ہم سے قدرے بڑا تھا۔ تیس ہزار سال پہلے جب ہم کرّۂِ ارض پہ پھیلتے چلے جا رہے تھے، وہ سکڑتے سکڑتے ناپید ہو گیا۔
6۔ موجودہ انسان جیسی شان و شوکت کبھی کسی مخلوق کے حصے میں نہیں آئی۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ انسانی دماغ کی ساخت منفرد ہے ۔ اس کے مختلف حصوں کے درمیان روابط کو دیکھیے یا دماغی خلیات کے باہمی کنکشن ، یہ انتہائی حد تک شاندار ہیں ۔ یہاں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ دوسری کسی بھی مخلوق میں اس کا عشرِ عشیر بھی کیوں جنم نہ لے سکا۔ جہاں تک حسیات ، آنکھوں ، کان ، ناک اور جلد سے ڈیٹا لے کر زندگی کی حفاظت کا تعلق ہے ، وہاں دوسرے جانور ہم سے بھی زیادہ عیار ہیں ۔ دوسری طرف جہاں دیرپا منصوبہ بندی، کسی شے کی تہہ میں اترنا ، عناصر کا جائزہ لینا ، انہیں نام دینا اور ایک دوسرے کو اس بارے میں بتانے کا تعلق ہے ، وہاں وہ سب ہونق نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ بنیادی ضروریات سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔ کوئی ایجاد نہیں کر سکے ، کوئی اوزار نہیں بنا سکے۔
7۔ دوسرے جانداروں میں کوئی ایسا نہیں کہ جو کسی شے کو ایک نام بھی دے سکے۔ دوسری طرف انسان ستاروں کے مرکز میں وقوع پذیر ہونے والے عوامل سے لے کر کرّۂِ ارض کے اندر موجود مفید دھاتوں تک ہر شے سے کھیل رہا ہے ۔ اس کے باوجود جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اپنا دماغ انسانوں نے خود نہیں بنایا بلکہ وہ پیدائشی طور پر اسے میسر ہے تو ذاتی تفاخر کرتے ہوئے جھجکنے لگتا ہوں ۔
آدمی لکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن لاچار اس نے یہ لکھا''ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے لگتایہ ہے کہ انسان ایک عظیم منصوبہ ساز کی تخلیق ہے ۔ایسی مخلوق جو اپنی ساری شان وشوکت کے باوجود عمر بڑھنے ، موت اور بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے باب میں دوسری مخلوقات سے مختلف نہیں ۔‘‘