تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-04-2016

جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا

کام تو وہ شاید ایک گھنٹے کا بھی نہیں تھا مگر میں قریب تین دن اسلام آباد میں پھنسا رہا۔ میں شاید دوسرے دن واپس آ جاتا مگر وزیر داخلہ کی تیقن بھری پریس کانفرنس نے میرا ایک اور دن فضول میں ضائع کروا دیا وگرنہ میں انتیس مارچ کو شام کی فلائٹ پر واپس آ جاتا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بڑے شدومد سے بیان کر رہے تھے کہ اگر رات دس بجے تک دھرنے والوں نے واپسی اختیارنہ کی تو صبح ڈی چوک زبردستی خالی کروا لیا جائے گا اور مزید کوئی مذاکرات وغیرہ نہیں کیے جائیں گے۔ سیاستدانو ںکی باتوں پر یقین تو بالکل اٹھ چکا ہے مگر ہمارے ایک دوست کو چوہدری نثار علی خان کے بارے میں ابھی کچھ خوش فہمیاں باقی ہیں‘ سو اس کی خوش فہمی کے سہارے رات اسلام آباد میں گزارنے کا پروگرام بنا لیا۔ دل کو تسلی دی کہ صبح راستے کھل جائیں گے۔
صبح اسلام آباد میں داخلے کے لیے، میرا مطلب ہے ریڈ زون میں دا خلے کے لیے‘ سیرینا ہوٹل کے سامنے والے راستے سے داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس کی چیک پوسٹ خالی پڑی تھی تا ہم سامنے کنٹینر رکھا ہوا تھا۔ واپس مڑ کر پرانے ایم این اے ہاسٹل کے سامنے سے گزر کرنادرا ہیڈ کوارٹرز والی سڑک سے داخلے کی کوشش کی، راہ میں پھر کنٹینر حائل تھا۔ آغا خان روڈ سے میریٹ کے سامنے سے گزرنے کی کوشش بھی اسی طرح کے ایک دوسرے کنٹینرنے نا کام بنا دی۔ اس سے پہلے بلیو ایریا کی پچھلی جانب سے ایک چور راستے سے داخل ہونا چا ہا مگر وہاں ایک عدد کنٹینر جلے ہوئے ٹرالر سمیت منہ چڑا رہا تھا۔ تھک ہار کر مارگلہ روڈ سے داخلے کی کوشش با لآخر رنگ لائی اور میں پاک سیکریٹریٹ کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ؛تا ہم پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے آگے راستہ پھر بند تھا۔ آگے جانے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے گاڑی کو آگے جانے سے روک لیادیا۔ چارو نا چار واپسی اختیار کی۔ واپس طارق کے گھر جا کر ارادہ کیا کہ اب واپسی اختیار کی جائے۔ اللہ جانے یہ دھرنا کب تک چلے گا اور راستے کب تک بند رہیں گے۔ گھر آکر بیگ باندھا کہ ملتان واپس چلیں اور دو چار چھ دن بعد جب حالات نارمل ہو جائیں گے واپس آجاؤں گا۔ ایک دوست نے اندر کی اطلاع دی کہ آج رات ڈی چوک ہر حال میں خالی کروا لیا جائے گا۔ سوچا جہاں دو دن گزر گئے ہیں ایک اور سہی اور رات اسلام آباد میں رکنے بارے نیم ارادہ کر لیا۔ اسی دوران چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس شروع کر دی۔
چوہدری نثار علی خان نے بڑے واضح انداز میں کہہ دیا کہ رات اندھیرے کی وجہ سے کارروائی نہیں کی جارہی کہ اس اندھیرے کی آڑ میں کوئی تیسرا فریق وہی کچھ نہ کر جائے جیسا گزشتہ دھرنے میں ہوا تھا اور پولیس وغیرہ کے مکمل غیر مسلح ہونے کے باوجود گو لیاں چلیں اور کچھ لوگ جان سے چلے گئے۔ تا ہم چوہدری صاحب نے میڈیا کو گواہ بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ کل صبح ہر حال میں ڈی چوک خالی کروا لیا جائے گا۔ انہوں نے دھرنے والوں کا ''تراہ‘‘ نکالنے کی غرض سے بتایا کہ دھرنے کے شرکاء کی تعداد پندرہ سو ہے جبکہ ہمارے پاس پولیس اور ایف سی کی نفری ملا کر سات ہزار سے زائد ہے۔ انہوں نے مزید کیلکولیشن کرتے ہوئے فرمایا کہ عموماً مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والوں کی باہمی تعداد کا تناسب ایک اور تین کا ہوتاہے یعنی ایک پولیس والا تین مظاہرین کے لیے کافی ہوتا ہے اور یہاں تو ایک شخص کے لیے پانچ پولیس اور ایف سی والے موجود ہیں۔ ایس پی نے بعد ازاں فرمایا کہ یہ معاملہ کل پندرہ منٹ میں ختم ہو جائے گا۔ میں بے فکر ہو کر سو گیا اور صبح اٹھ کر ریڈ زون کی طرف روانہ ہو گیا۔ مجھے امید تھی کہ راستے کھل گئے ہوں گے‘ لہٰذاقریبی راستے کی طرف سے داخلے کی کوشش کی۔
قریبی راستہ وہی سیرینا ہوٹل والا تھا۔ حالات جوں کے توں تھے۔ کنٹینر موجود تھا اور راستہ بند تھا۔ کل والی ترتیب سے راستے آزمائے گئے اور الحمد للہ انہیں ویسا ہی پایا جیسا گزشتہ روز چھوڑ کر گئے تھے۔ البتہ یہ ضرور دیکھا کہ ایف سی کے جوان ڈنڈے اٹھائے اِدھر سے اُدھر جا رہے ہیں۔ میریٹ کے سامنے اور پی ٹی وی کی عمارت کے ایک طرف سینکڑوں پولیس اور ایف سی والے متحرک تھے‘ میں نے گمان کیا کہ ا ب پندرہ منٹ والا معاملہ شروع ہونے والا ہے مگر ہوتے ہوتے سارا دن گزر گیا۔ سہ پہر کو قریبی دفتر خالی کروانے کا اعلان ہوا اور لوگ باگ گھروں کو چلے گئے۔ سارے دفتر عملی طور پر بند ہو گئے یعنی اب کام ہونے کی کوئی توقع نہ رہی تھی۔ لہٰذا میں بھی واپس گھر آ گیا اور ڈھیٹ بن کر بیٹھ گیا کہ اب تو کام ختم کر کے ہی واپس جاؤں گا۔ تا ہم چوہدری نثار علی خان اور حکومت کی رٹ پر بڑا غصہ آیا کہ انہوں نے مل کر پورے ملک کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے آتا ہے اور دار الحکومت کومفلوج کر دیتا ہے۔ کبھی طاہر القادری، کبھی عمران اور اب عشق رسولؐ کے نام پر جمع ہونے والوں نے۔ کون سا ایسا مسلمان ہے جس کا دل عشق رسولؐ سے خالی ہو اور وہ صاحب ایمان بھی ہو؟ لیکن خلق خدا کو تنگ کرنا کہا ںلکھا ہے؟ ملکی وقار کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کرنا کہاں واجب ہے؟ بہر حال رات دھرنا ختم ہو ا۔ مطالبات کے بارے میں پتہ چلا کہ کم از کم ممتاز قادری سے متعلق تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ سات نکات پر باہمی رضا مندی سے دھرنا اختتام پذیر ہوا مگر جس شخص کے نام پر، جس کے چہلم کے موقع پر یہ سارا معاملہ شروع ہوا ‘وہ جب ختم ہوا تو اس طرح کہ ممتاز قادری کا نام تک کسی اعلامیے میں شامل نہیں تھا۔
ممتاز قادری مورخہ انتیس فروری کو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف روانہ ہوا۔ اس حساب سے اس کا چہلم نو اپریل کو بنتا تھا۔ محض ستائیس دن بعد چہلم ہونے کا کوئی تک سمجھ نہیں آتا۔ آ ج کل لوگ بعض اوقات رسم قل تو تین دن کے بجائے دوسرے ہی دن کر لیتے ہیں کہ تعزیت کے لیے آنے والے افراد میں سے بہت سے لوگوں نے واپس جانا ہوتا ہے ۔ لہٰذا اعزہ ان کی سہولت کے لیے قل تیسرے کے بجائے دوسرے دن بھی کر لیتے ہیں مگر چہلم تیرہ دن قبل کرنے کا کوئی معقول جواز سمجھ نہیں آتا۔ مجھے ذاتی طور پر دنوں کی تعداد سے کچھ لینا نہیں ہے مگر بر سبیل تذکرہ ویسے ہی ایک بات ذہن میں آئی‘ سوپوچھ لی۔
اکتیس کی صبح جب میں ریڈ زون میں پہنچا تو ڈی چوک پر ڈی گراؤنڈ کے سامنے سی ڈی اے کے صفائی کا عملہ دھلائی کرنے میں مصروف تھا۔ پتہ چلا کہ وہاں صفائی کے حالات بہت ہی خراب تھے اور کھڑا ہونا مشکل تھا۔ کیبنٹ ڈویژن کے سامنے والے راؤنڈ اباؤٹ پر یعنی قومی اسمبلی کے تقریباً سامنے سڑک پر پیلے رنگ سے موٹا موٹا کچھ لکھا ہوا تھا۔ گاڑی گزری تو دیکھا کہ سی ڈی اے والے کالے رنگ سے اس چوک پر لکھا ہوا کچھ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے تجسس ہوا تو میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی روکے۔ گاڑی رکوائی تو چوک پر موجود ٹریفک والے نے سیٹی مار کر کہا کہ گاڑی مت روکیں ‘میں نے ڈرائیور کو کہا کہ وہ گاڑی کو گول چکر یعنی راؤنڈ اباؤٹ پر گھما کر لے آئے۔ پہلی تحریر تو بڑی حد تک مٹائی جا چکی تھی لیکن آگے والی تحریر ابھی موجود تھی۔ راؤنڈ اباؤٹ پر گاڑی چلاتے ہوئے یہ تحریر الٹی طرف سے پڑھنے میں تھوڑی دقت ہو رہی تھی کہ یہ ٹریفک کے چلنے کے حساب سے الٹی طرف لکھی ہوئی تھی اور اتنی بڑی تھی کہ ایک سرے سے ساری تحریر پڑھنا مشکل تھا ۔بہر حال دو چکروں میں میں نے یہ پڑھی۔ یہ وقت کے یزید اور اس کے نام پر مشتمل تھی‘ جس کے نام تھی اس کی رہائش زیادہ دور نہیں تھی۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اب جگ ہنسائی اور مخلوق خدا کو تنگی سے بچانے کے لیے مناسب وقت آ گیا ہے کہ دارالحکومت اور اس کے ریڈ زون کو اس قسم کی مہم جوئیوں سے محفوظ رکھنے کا قومی ایجنڈا بنایا جائے اور باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ریڈ زون کو ریڈ لائٹ ایریا بننے سے بچایا جائے‘ جہاں جس کا جی چاہتا ہے جب چاہتا ہے پہنچ جاتا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر مغلظات بھرے ویڈیو کلپ چل رہے ہیں جو اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قبیح سلسلے کا بر وقت قلع قمع کرے کہ ان کلپس میں لوگ پہچانے بھی جا رہے ہیں اور وہ ببانگ دہل اپنے ''ارشادات عالیہ ‘‘ سے ملکی معاشرتی ہم آہنگی کو برباد کرنے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سوات میں ''ملاریڈیو‘‘ کے ارشادت سے حکومتی اغماض نے معاملہ یہاں تک خراب کیا کہ ایک طویل فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ بے شمار لوگ بے گھر ہوئے اور سینکڑوں بے گناہ جان سے گئے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور بر وقت اقدامات سے اس رسم بد کو مزید پھیلنے سے روکے‘ بصورت دیگر فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آ گیا تو اسے بند کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔ لیکن حکومت کا زور بالکل اسی مزاحیہ جملے کی مانند ہے جس میں کہتے ہیں کہ ''جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘‘۔ لیکن اب محض ہمارے ''جاگدے رہنے‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved