ایک بات طے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن پر قابو پانا ممکن ہی نہیں۔ امریکی جمہوریت سے لے کے‘ چین کی ٹوٹل ٹائیفون کنٹرول حکومت تک کوئی نظام ایسا نہیں‘ جو کرپشن کو مکمل طور سے روک دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ چین کی موجودہ حکومت نے کرپشن کے خلاف زبردست قوانین بنائے ہیں۔ لیکن ان کی مکمل پابندی کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ جتنی زیادہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں‘ اتنی ہی ذہانت کا استعمال‘ یعنی پابندیوں کو قانون کے اندر رہ کر توڑنے کے لئے ‘ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اقبال کا یہ خوبصورت مصرع میں ایک انتہائی غلط جگہ استعمال کر رہا ہوں‘ لیکن اس وقت ذہن میں یہی آ رہا ہے ع
تو شب آفریدی‘ چراغ آفریدم
میں نے سرمایہ دارانہ نظام کی آزادیوں کی حقیقت دکھانے کے لئے عالمی میڈیا سے بعض اقتباسات حاصل کئے ہیں۔ ان کی ایک جھلک قارئین کی نذر کر رہا ہوں:
''پانامہ کی ایک لا فرم ‘موساک فونسیکا سے ملنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق اس کے گاہکوں میں بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں آنے والے بھی شامل تھے۔دستاویزات کے مطابق موساک فونسیکا کے گاہکوں میں 33 شخصیات یا کمپنیاں بھی شامل ہیں جن پر امریکی محکمہ خزانہ کی پابندیاں تھیں۔ان گاہکوں میں ایران، زمبابوے اور شمالی کوریا میں کام کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ایک کمپنی کا تعلق شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے تھا۔لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہونے والی دستاویزات کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔خفیہ دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں؟ اس کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی؟ پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی؟ڈی ایس ٹی مالیاتی کمپنی 2006ء میں شروع ہوئی اور اس کا مالک اور ڈائریکٹرز‘ شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں مقیم تھے۔اس کے بعد اس کمپنی پر امریکہ نے شمالی کوریا کومالی وسائل فراہم کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں مدد کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ایک اور کیس میں شامی صدر بشارالاسد کے کزن‘ رامی مخلوف کا نام بھی سامنے آیا ہے ۔ ان کے اثاثوں کی مالیت پانچ ارب ڈالر کے قریب ہے۔سال 2008ء میں امریکی محکمہ خزانہ نے رامی مخلوف پر شام کے عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے اور شامی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ذریعے اپنے کاروباری حریفوں کو ڈرانے دھمکانے کی پاداش میں ‘پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ موساک فونسیکا ‘رامی مخلوف پر پابندیاں عائد ہونے کے بعد بھی‘ ڈریکس ٹیکنالوجیز سمیت ان کی چھ کمپنیوں کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔دستاویزات کے مطابق برطانوی بینک 'ایچ ایس بی سی‘ کی سوئس برانچ ‘فرم کو مالیاتی سہولیات فراہم کرتی رہی۔ پابندیوں کے دو برس کے بعد ایچ ایس بی سی نے موساک فونسیکا کو لکھا ہے کہ ان کے خیال میں ڈریکس ٹیکنالوجیز ایک اچھی ساکھ کی کمپنی ہے۔اس کے بعدموساک فونسیکا کی جانب سے ایچ ایس بی سی میں‘ ڈریکس ٹیکنالوجیز کے معاملات دیکھنے والے عملے کو ای میل بھیجی گئی جس کے مطابق وہ رامی مخلوف کے بارے میں جانتے تھے۔17 فروری 2011ء میں بھیجی گئی ای میل کے مطابق '' ہم نے ایچ ایس بی سی سے رابطہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ رامی ‘شامی صدر بشارالاسد کے کزن ہیں‘‘۔نہ صرف ایچ ایس بی سی کی جنیوا میں برانچ بلکہ اس کے لندن میں مرکزی دفتر کو معلوم تھا کہ رامی کون ہیں؟ اور انہوں نے تصدیق کی تھی کہ ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔موساک فونسیکا کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ''ہر ممکن احتیاط سے کام کرتی ہے اور اگر اس کی خدمات کا غلط استعمال ہوا ہے تو اسے اس پر افسوس ہے۔‘‘موساک فونسیکا کے مطابق ہم نے کسی ایسی شخصیت کے ہاتھوں یہ جانتے ہوئے اپنی کمپنیوں کو استعمال نہیں ہونے دیا کہ ان کے شمالی کوریا یا شام کے ساتھ تعلقات ہیں۔
آج سے ایک سال قبل ‘ایک نامعلوم شخص نے جرمنی کے سب سے بڑے اخبار ''سڈڈوئچے‘‘ سے رابطہ کیا اور اخبار کو موساک فونسیکا کی اندرونی دستاویزات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔اخبار نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور آنے والے مہینوں میں اس نامعلوم ذریعے کی جانب سے بھجوائی جانے والی دستاویزات کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اس سارے ڈیٹا کا حجم 2.6 ٹیرابائٹ تک پہنچ گیا۔یہ سب کچھ فراہم کرنے والے ذریعے نے اس کے بدلے میں کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ سکیورٹی کے بارے میں چند یقین دہانیاں مانگیں۔''سڈ ڈوئچے‘‘ نے سارے ڈیٹا کا جائزہ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس یا ICIJکی مدد سے لینے کا فیصلہ کیا جو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کر چکا تھا۔پانامہ پیپرز عالمی سطح پر اس نوعیت کے تعاون کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔ان پیپرز کے لیے کی گئی تحقیقات میں گزشتہ بارہ مہینے کے دوران 400 کے قریب صحافیوں نے ‘جن کا تعلق 100 میڈیا تنظیموں سے ہے اور جو 80 کے قریب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ‘حصہ لیا۔ان میں بی بی سی کی ٹیم، برطانوی اخبار ''گارڈین‘‘، فرانسیسی اخبار ''لا موند‘‘، ارجنٹائن کے اخبار ''لا نیسیون‘‘ شامل ہیں۔اس تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کا پہلا اجلاس واشنگٹن، میونخ، لندن اور للہیمر میں ہوا جس میں تحقیق کے دائرہ کار کا تعین کر لیا گیا۔
بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد ‘اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں؟ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔فائل سے معلوم ہوتا ہے کہ موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی؟ پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔ایک کیس میں اس لا کمپنی نے‘ ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکانہ حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگولیشن کی خلاف ورزی ہے‘ جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام ہیں‘ بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹائن کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔اگرچہ ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے ہیں لیکن زیادہ تر جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت کیسے حاصل کی؟ اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینا۔اہم الزامات میں سے چند یہ ہیں کہ شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں‘ جو کہ ظاہری طور پر تو قانونی ہوتی ہیں لیکن یہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔ یہ کمپنیاں دولت کے مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔موساک فونسیکا کا کہنا ہے کہ وہ 40 برسوں سے‘ بے داغ طریقے سے کام کر رہی ہے اور اس پر کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔روسی صدر ویلادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوو نے کہا ہے کہ پوتن فوبیا اس حد تک پہنچ چکا ہے‘ جہاں روس یا اس کے کام یا روسی کامیابیوں پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو کچھ گھڑ لیا جائے۔
پانامہ پیپرز نامی دستاویزات میں نام آنے کے بعد‘ پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کے اہل خانہ نے ‘پیر کو اپنی ''آف شور یعنی بیرون ملک کمپنیوں‘‘ کی ملکیت کا دفاع کیا ہے۔پانامہ کی لا فرم موساک فونسیکا میں نامعلوم ذرائع نے واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نامی ایک تنظیم کو‘ فرم کی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات فراہم کیں، جن سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین افراد نے اپنا پیسہ بیرون ملک بھیج رکھا ہے۔‘‘
عالمی میڈیا سے اقتباسات نکال کر‘ میں نے سرمایہ دارانہ نظام پر ایک نظر ڈالی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ آج کے اہل سیاست‘ سرمایہ بٹورنے کیلئے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر اسی سرمائے کے بل پر ‘وہ اپنے اقتدار کو بچا لیتے ہیں۔ یہ مغربی بنگال کے ایک سینئر قلمکار کا تجزیہ ہے۔بھارت کی سیاسی تاریخ میں عوام کیلئے قربانیاں دینے والے لیڈروں نے بے شمار تحریکیں چلائی ہیں اور یہ تحریکیں آج بھی جاری ہیں۔ لیکن بھارت کی جن ریاستوں میں حکمرانوں کے خلاف جدوجہد چل رہی ہے‘ وہاں آج بھی سرمایہ داروں کا راج ہے۔ محنت کشوں کی جدوجہد اور سرمایہ دار حکمرانوں کی جمہوریت‘ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں؟ ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔مگر انتظار کب تک؟کرپشن کیخلاف عالمی مہم کے اثرات پاکستان پہنچے تو صرف دو ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاکستان میں احتساب تو جیت نہیں سکتا کرپشن البتہ...