تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     06-04-2016

بکری کی چھینک

پانامہ کی جس کمپنی کی وجہ سے دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے‘ اس کی بنیاد ہی میں فساد تھا اور بدنیتی‘ جن دو افراد نے اس کمپنی کو 1977ء میں بنایا‘ ان میں سے ایک کا نام موساک ہے۔ اس کا باپ جرمنی کی رسوائے زمانہ نازی پارٹی کے عسکری ونگ میں ملازمت کرتا تھا۔ پھر وہ امریکہ چلا گیا اور سی آئی اے کے لیے کیوبا کی جاسوسی کرتا رہا۔ دوسرے پارٹنر کا نام رامن فون سیکا ہے۔ اس کی سیاسی جماعت نے کان سے پکڑ کر پارٹی سے نکال دیا۔ برازیل کے ایک بہت بڑے سکینڈل میں ملوث تھا۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں گزشتہ تین دنوں کے اندر اس کمپنی اور اس کے طریقۂ واردات کے بارے میں کثیر معلومات دی جا چکی ہیں۔ آف شور کمپنیوں کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ اس سے بھی ایک عام پڑھا لکھا پاکستانی واقفیت حاصل کر چکا ہے۔ مختصر ترین قصہ یہ ہے کہ جن کاروباری یا جرائم پیشہ لوگوں نے ٹیکس بچانا ہوتا ہے یا اس سوال سے بچنا ہوتا ہے کہ ''یہ رقم کہاں سے حاصل کی ہے؟‘‘ وہ ان کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں ان کی ملکیت میں بھی ہو سکتی ہیں اور محض ان کی کارندہ بھی ہو سکتی ہیں۔ اصل مالکوں کو پردے میں رکھ کریہ کمپنیاں ان کے نام پر دنیا بھر میں جائیدادیں خریدتی ہیں‘ کاروبار کرتی ہیں اور یوں سو سے لاکھ‘ لاکھ سے کروڑ‘ کروڑ سے ارب اور ارب سے کھرب ہا کھرب بنتے جاتے ہیں! پردہ بھی پڑا رہتا ہے!
مگر یہ تاریخ‘ یہ تعارف‘ یہ پس منظر سب ثانوی ہیں۔ سوال جو اس وقت ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے ایک ہی ہے کہ کچھ ہوگا؟ کوئی تفتیش؟ کوئی ایکشن؟ کوئی صفائی؟ عبرت کا کوئی سامان؟۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنے پاکستانی یہ سوال پوچھ رہے ہیں‘ اتنے ہی اس کا جواب بھی دے رہے ہیں‘ جو نیم خواندہ پاکستانی نہیں جانتے کہ آف شور کمپنیاں کیا ہیں؟ اور پانامہ کس چڑیا کا نام ہے؟ انہیں بھی یہ ضرور معلوم ہے کہ حکمران خاندان نے کوئی نیا گل کھلایا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس پہاڑ کو کھودنے سے کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
تین پہلو اس معاملے کو مزید مضحکہ خیز بنا رہے ہیں۔ اول۔ دوسری سیاسی جماعتوں خاص طورپر پیپلزپارٹی کا ردعمل! پیپلزپارٹی والے شریف فیملی کے حوالے سے تفتیش چاہتے ہیں مگر ان کا ترجمان بینظیر بھٹو کے بارے میں زور وشور سے کہتا ہے کہ انہیں تو فلاں ادارے نے کلیئر کردیا تھا!
قانون کے بارے میں کہاوت ہے کہ اندھا ہوتا ہے مگر پاکستان کے ضمن میں قانون بے چارہ لولا اور لنگڑا بھی ہے۔ آج تک کسی کو اپنے شکنجے میں نہیں کس سکا۔ قانونی موشگافیاں اس ملک میں طاقت کے ساتھ مل کر مقدمات کو مشکل تر بنا دیتی ہیں۔ زرداری صاحب کراچی سے لے کر سوئٹزرلینڈ تک عدالتوں سے ''کلیئر‘‘ ہوگئے۔ ساری دنیا کو ساری جائیدادوں کا علم ہے مگر قانون کچھ نہیں ثابت کر سکا۔ بینظیر بھٹو کا دامن بھی صاف تھا! دبئی کے محل سے لے کر نیویارک کے اس مشہور اپارٹمنٹ تک‘ جس کا قصہ معروف کالم نگار انجم نیاز نے لکھا ہے‘ سب کچھ روئے زمین پر موجود ہے۔ دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے مگر قانون اندھا ہے۔ اسے کچھ نہیں دکھائی دیتا! ایک سیاسی رہنما اس وقت کے صدر مملکت کی توجہ مبذول کراتا ہے کہ آپ کا وزیراعظم مال بنا رہا ہے اور صدر مملکت فرماتے ہیں۔ ''تو کیا حرج ہے؟‘‘ تیس سال پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے خالد کھرل نے چار دن پہلے انٹرویو میں بتایا ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی پوچھا جاتا تھا کتنے پیسے دو گے؟ مگر ثابت کچھ نہ ہوا۔
یہی صورت حال فریقِ ثانی کی ہے۔ ایف بی آر سے پہلے (یا دوسرے) دورِحکومت میں ایک ایک دن کے لیے احکامات جاری اور منسوخ ہوتے رہے۔ تیس سال کی کہانی صرف اور صرف Conflict of Interests کی کہانی ہے۔ ٹیکس نہ دینے کا سب کو معلوم ہے۔ ایک شہر میں سارا محلات پر مشتمل بسا دیا گیا۔ ہارون الرشید آج ہوتا تو زاروقطار روتا کہ برامکہ کو اُس نے ناحق زوال اور ذلت سے دوچار کیا۔ بغداد میں ان کے درجنوں محلات‘ رائیونڈ کے مقابلے میں ماچس کی ڈبیا سے زیادہ نہ ہوں گے! شاہراہیں کیسی کیسی بنی ہیں! عام پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا! ہزاروں پہریدار سرکاری خزانے سے تنخواہیں پاتے ہیں اور حفاظت دوسروں کی کرتے ہیں! آف شور کمپنیاں بھی موجود ہیں! کارخانے اور گراں بہا اپارٹمنٹ بھی ہیں مگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ دلائل کا شمار ہی نہیں۔ کبھی یہ کہ جلاوطنی تھی! کبھی یہ کہ ایک سواسی دن باہر رہنے والے پر فلاں قانون لگتا ہے‘ اگرچہ ٹیکس نہیں لگتا۔ ایسے ایسے دلائل کہ کراماً کاتبین کو حیران کردیں۔ ایک چور عدالت کے سامنے حاضر کیا گیا۔ اُس کے وکیل نے زبردست دلائل دیئے اور چھڑا لیا۔ آخر میں اس کے وکیل نے کہا کہ چھڑا تو تمہیں لیا ہے‘ میرے سامنے تو چوری کا اقرار کرلو۔ چور کہنے لگا‘ چوری تو میں نے کی تھی مگر تمہارے دلائل سن کر شک ہونے لگا ہے کہ کہیں میں بے گناہ تو نہیں! یہی ملک ہے جس میں پارلیمنٹ کے ارکان گوشوارے داخل کراتے ہیں تو کچھ کی مفلسی اس قدر ہوتی ہے کہ گاڑی تک ان کے نام نہیں ہوتی۔
دوم۔ ہمارے معاشرے میں روایت ہے کہ اولاد کے لیے انسان سب کچھ تج دیتا ہے! جائیداد کیا شے ہے! حکومت کی کیا حیثیت ہے! جان قربان کردی جاتی ہے! ہمایوں بیمار تھا تو باپ نے اپنی جان دے کر (اپنے خیال میں) بیٹے کو بچا لیا۔ وزیراعظم اسی معاشرے کا حصہ ہیں! ان کے بچوں پر افتاد آ پڑی ہے۔ پانامہ سکینڈل میں نام آگئے ہیں۔ میڈیا نے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے۔ ہر شخص کی زبان پر اُن کے نام ہیں۔ کیا وزیراعظم بچوں کی خاطر‘ اُن کی عزت کے لیے‘ حکومت کو خیرباد نہیں کہہ سکتے؟ حکومت! جو یوں بھی عارضی ہے! بکری کی چھینک کی طرح بے حیثیت! ایک بادشاہ کو ایک درویش نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی! بادشاہ سمجھ ہی نہیں رہا تھا! درویش نے کہا‘ اگر تم ایک دشتِ بے اماں میں بھٹک رہے ہو‘ 
اور پیاس سے جان لبوں پر ہو‘ پانی کے لیے کوئی تم سے آدھی سلطنت مانگے تو کیا کرو گے؟ بادشاہ نے جواب دیا‘ دے دوں گا! جان سے بڑھ کر کوئی شے نہیں! درویش نے دوسرا سوال پوچھا۔ پانی پینے کے بعد تمہارا پیشاب بند ہو جائے۔ اُس دشتِ بے اماں میں تم درد سے تڑپنے لگو! پیشاب جاری کرنے والی دوا کا مالک باقی آدھی سلطنت کا تقاضا کرتا ہے۔ کیا کرو گے؟ بادشاہ نے کہا وہ بھی دے دوں گا! زندہ رہنے کے لیے! درویش نے کہا‘ پھر ایسی سلطنت جس کی قیمت پانی کے چند گھونٹ اور پیشاب کے چند غلیظ قطروں سے زیادہ نہیں‘ اُس پر کیا اترانا! اوراس پر عزت کو کیا قربان کرنا!
سوم! دنیا میں اس وقت دو قسم کے ملک ہیں! ایک وہ جن میں پانامہ سکینڈل کے سامنے آتے ہی تحقیقاتی ٹیمیں بن گئی ہیں اور تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں جرم ثابت ہوا تو مجرموں کو سزائیں ملیں گی! حکمرانوں کو کان سے پکڑ کر نیچے اتار دیا جائے گا! حکومتیں گر جائیں گی! سیاسی جماعتیں مجرموں کو نکال باہر کریں گی! دوسری فہرست میں وہ ممالک ہیں جن میں کچھ نہیں ہوگا۔ ان ملکوں میں بادشاہتیں ہیں یا ایسی ''جمہوریتیں‘‘ جن میں بیس بیس سال کے پارٹی ''سربراہوں‘‘ کے سامنے ساٹھ ساٹھ سال کے سفید سر سیاستدان جی جناب اور یس سر کہتے پھرتے ہیں! ان ملکوں میں لیبیا اور مصر جیسے آمریت کا شکار ممالک بھی ہیں! رومانیہ بھی کبھی اسی فہرست میں تھا۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ رومانیہ کے صدر چی سسکو کا انجام کیا ہوا؟ لیبیا کے قذافی اور مصر کے حسنی مبارک چھپائی ہوئی انبار در انبار دولت سے کتنا فائدہ اٹھا سکے؟ بس یہی تو یاد نہیں رہتا! یہی المیہ ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved