پچھلے زمانے کے حکمران اور چور ڈاکو اپنی لوٹ مار کی دولت زمین میں دباتے تھے یا پھر دیواروں اور غاروں وغیرہ میں چھپا دیتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت استحصال کی نوعیت بدلی ہے اور یہ شدید تر ہوتا چلا گیا ہے۔ حکمران طبقات نے اس نظام میں دولت کے انبار لگائے ہیں اور لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں مالیاتی سرمائے اور منافعوں کی ذخیرہ اندوزی کے طریقوں میں جدت آئی ہے اور اس ضمن میں ٹیکس ہیونز اور آف شور بینکنگ کا کردار بالخصوص گزشتہ کچھ دہائیوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔
3اپریل کو جدید صحافت کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل منظر عام پر آیا ہے۔ لیکن ابھی تک صرف لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک پاناما کی صرف ایک کارپوریٹ کمپنی موسیک فونسیکا کی جانب سے لوٹ مار کا مال چھپانے کا انکشاف ہوا ہے۔ بڑی شخصیات، سیاسی رہنمائوں اور مافیا سے وابستہ افراد کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہر طرف یہ ہاٹ نیوز ہے۔ اس انکشاف میں کلیدی کردار بین الاقوامی انجمن برائے تفتیشی صحافت (ICIJ)نے ادا کیا ہے اور ایک کروڑ 15لاکھ ریکارڈ بے نقاب کئے ہیں۔ جن حکمرانوں کے براہ راست نام آئے ہیں ان میں ارجنٹائن کے نئے صدر ماریسیو میکری، آئس لینڈ کے وزیر اعظم ڈاویو گنلاگسن اور یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو بھی شامل ہیں۔ 12سربراہان مملکت کے علاوہ سینکڑوں سیاستدان اور بااثر خاندانوں اور ان کے قریبی حواریوں کے نام بھی شامل ہیں جن میں میاں نواز شریف کی اولاد اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد قابل ذکر ہیں۔ پاناما کی اس کمپنی کے ساتھ مزید 140کمپنیاں منسلک ہیں جن کے ذریعے سے پیسہ ممالک سے باہر منتقل کرنے اور چھپانے کی واردات کی جاتی ہے۔ ان آف شور کمپنیوں میں سے ایک فٹ بال کے مشہور کھلاڑی لائنونل میسی اور اس کے والد کی ملکیت بھی ہے جو کالے دھن کو سفید کرنے اور ٹیکس چوری کی ''سروسز‘‘ فراہم کرتی ہے۔ اس کاروبار کا شمار دنیا کے بڑے اور منافع بخش دھندوں میں ہوتا ہے۔
یہ سب صرف ایک چھوٹے سے ملک کی ایک کمپنی کی داستان ہے۔اس شعبے کے ماہرین کے مطابق ایسی سینکڑوں کمپنیاں 60سے زائد ممالک میں سرگرم ہیں۔ ان ممالک میں سوئٹزر لینڈ، Liechtenstein، ویسٹ انڈیز اور کیریبین کے چھوٹے بڑے جزائر اہم ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ موجودہ انکشافات حقیقی صورتحال کی صرف ایک جھلک ہیں اور دنیا بھر میں سامراجی اور مقامی حکمرانوں کی ٹیکس چوری اور لوٹ مار کا ہجم کئی سو گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے 'ٹیکس جسٹس نیٹ ورک‘ کی رپورٹ اہم ہے جس کے مطابق دنیا بھر سے لوٹ کر آف شور بینکوں میں چھپائی گئی دولت کا حجم 32ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔یہ امریکہ اور جاپان کے مجموعی جی ڈی پی سے بھی زیادہ دولت ہے۔اسی ادارے کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیاں اور سرمایہ دار ہر سال 3.1ہزار ارب ڈالر کا صرف ٹیکس چوری کرتے ہیں۔'گلوبل فنانشل انٹیگریٹی‘ کے مطابق ایک ہزار ارب ڈالر ہر سال پسماندہ ممالک سے نچوڑ کر امیر ممالک اور آف شور بینکوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔یہ اتنی دولت ہے کہ اس کا قلیل سا حصہ بھی انسانوں کی اجتماعی ضروریات کے تحت مرتب کردہ معاشی منصوبہ جات کے ذریعے صرف کیا جائے تو چند سال میں غربت، بھوک اور محرومی قصہ ماضی بن سکتی ہے۔
اس بدعنوانی، استحصال اور لوٹ مار میں ''غریب ممالک‘‘ کے امیر حکمران پیش پیش ہیں۔ 2010ء تک کے 20سالوں میں ان غریب ممالک کے سرمایہ داروں، ریاستی اور سیاسی اشرافیہ کی لوٹ مار 9.3ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی تھی جب کے اس کے بعد کے صرف 6سالوں میں یہ رقم دوگنا ہو چکی ہے۔ یہ تمام تر دولت ان ممالک کے محنت کشوں کا لہو نچوڑ کر موسیک فونسیکاجیسی کمپنیوں اور بینکوں کے ذریعے ٹیکس ہیونز میں چھپائی جاتی ہے یا بیرون ملک کاروبار میں ڈال دی جاتی ہے۔
ویسے یہ انکشافات شاید عوام کے لئے کچھ زیادہ حیران کن نہیں ہوں گے۔ محنت کش طبقہ، جو یہ تمام تر دولت پیدا کردہ ہے، اس سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال کی شدت اور طریقہ ہائے کار کیا ہیں۔ لیکن لیک ہونے والی دوسری رپورٹوں کی طرح کارپوریٹ میڈیا اب کی بار بھی شخصیات تک بحث کو محدود رکھنے کی کوشش کرے گا، ''کرپشن‘‘ کا شور مچایا جائے گااور اس نظام پر سوال اٹھانے سے گزیر کیا جائے گا جس کا کردار ہی دولت پیدا کرنے والے محنت کش طبقات کو محروم کر کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملکیت اور جائیدار میں مسلسل اضافہ کرنا ہے۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی جائے کی کہ یہ نظام بالکل ٹھیک ہے اور ضرورت صرف چند ایک انتظامی معاملات کو سیدھا کرنے کی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ استحصال سرمایہ دارانہ نظام میں بالکل جائز ہے، جس کے ذریعے ایک فیصد افراد باقی کی 99فیصد آبادی کی مجموعی جمع پونجی سے زیادہ دولت کے مالک بن چکے ہیں، بلکہ ٹیکس چوری اور بدعنوانی کے بھی بیشمار 'جائز‘ طریقے اور 'لُوپ ہولز‘ موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے اس طرح کے سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد بھی شاید ہی کوئی برائے نام سی سزا بھی دی جاتی ہو۔لعن طعن ہوتی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں قصور وار اپنے عہدوں سے استعفے دے کر 'مظلوم‘ بن جاتے ہیں اور معاشی بربریت کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔
پاناما لیکس سے ایک بات اور بھی واضح ہوتی ہے مختلف ممالک میں حکمرانوں کی ٹیکس چوری یا بدعنوانی وغیرہ میں فرق برائے نام اور نسبتی ہی ہے۔ بدعنوانی اور سرمایہ دارانہ نظام ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں رشوت ستانی اور کرپشن پائی ہی نہیں جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان امیر اور ''مہذب‘‘ ممالک میں کرپشن بھی بھاری پیمانے کی ہوتی ہے اور بڑے ''مہذب‘‘ انداز میں کی جاتی ہے۔ اسلحہ سازی کی صنعت سے لے کر ادویات بنانے والی
کمپنیوں تک، سب کے سب اپنے کھاتوں میں کمیشن اور رشوت کی رقوم باقاعدہ مختص کرتے ہیں جن کے ذریعے سیاستدانوں، فوجی حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کو خرید کر اپنی مرضی کے قوانین اور خارجہ پالیسیاں مرتب کروائی جاتی ہیں۔ امریکی کانگریس اس طرح کے کمیشن ایجنٹوں کا کلب ہے۔ یہی صورتحال مختلف اشکال اور طریقہ ہائے واردات کے تحت تقریباً ہر جگہ نظر آتی ہے۔
اس سکینڈل سے قطع نظر بھی پاکستان جیسے ممالک کے باسی بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے اور طویل عرصے سے یہ بدعنوانی سماج کا ایسا معمول بن چکی ہے کہ کسی حیرانی یا پشیمانی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ سرمایہ دارانہ ریاست، سیاست اور حکومت کے ذریعے بدعنوانی یا لوٹ مار کو ختم کیا جاسکتا، محض دھوکہ دہی اور خود فریبی کے مترادف ہے۔ اس لئے پی ٹی آئی جیسی پارٹیاں، جن پر دوسری تمام پارٹیوں کے چھٹے ہوئے سرمایہ دار، جاگیر دار اور بدعنوان مسلط ہیں، جب ''احتساب‘‘ اور کرپشن کے خاتمے کی بات کرتی ہیں تو مضحکہ خیز ہی لگتا ہے۔ جب بدعنوانی ریاستی مشینری اور حکمران طبقات کے رگ و پے میں رچ بس جائے تو اصلاحات ناممکن ہوجاتی ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں یہ کیفیت ہر اس ملک اور ریاست کی ہے جہاں یہ نظام موجود ہے۔ جوں جوں اس نظام کا بحران بڑھ رہا ہے نہ صرف دنیا بھر میں محنت کش عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے بلکہ حکمران طبقات کا مجرمانہ کردار بھی بے نقاب ہو رہا ہے۔ اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے سوا جبر و استحصال اور ذلت سے نجات کا کوئی راستہ محنت کشوں کے پاس نہیں ہے۔