ایک صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ہسپتال میں تین دن کے بعد انہیں ہوش آیا تو نرس سے پوچھا۔
''کیا خبریں ہیں؟‘‘
''ایک بری خبر ہے اور ایک اچھی‘‘ نرس نے جواب دیا
''بری خبر کون سی ہے؟‘‘ موصوف بولے۔
''یہ کہ سرجن نے تمہارے دونوں پائوں کاٹ دیے ہیں‘‘ نرس بولی۔
''اور ‘اچھی؟‘‘ ان صاحب نے پوچھا۔
''اچھی یہ ہے‘‘ نرس نے جواب دیا''کہ ساتھ والے بیڈ پر جو مریض ہے‘ اُسے تمہارے جوتے پسند آگئے ہیں اور وہ انہیں خریدنا چاہتا ہے‘‘
اسی طرح ایک اور صاحب سے ان کا ایک دوست ملنے کے لیے آیا اور پوچھا۔
''سنائو کیا خبریں ہیں؟‘‘
''ایک ... بُری ہے اور ایک اچھی‘‘ وہ بولے۔
''بری خبر پہلے بتائو‘‘ دوست نے پوچھا
''بُری خبر یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جو میں نے امپورٹڈ جوتا خریدا تھا‘ اس کا ایک پائوںچند روز پہلے میرا کتاکھا گیا تھا‘‘ ''اوراچھی؟‘‘ دوست بولا۔
''اچھی یہ ہے کہ آج وہ اس کا دوسرا پائوں بھی کھا گیا ہے!‘‘وہ صاحب بولے۔
لیکن فارم ہائوس سے تقریباً سبھی اچھی خبریں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ آفتاب اور ان کی مسز عمرہ کر کے واپس آ گئے ہیں اور دوسری یہ کہ ان کی بیٹی(آپو) کو اللہ میاں نے بیٹے سے نوازا ہے اور اس میں اصل خبر یہ ہے کہ میں پڑدادا بن گیا ہوں‘ بلکہ اس کی بجائے کوئی اور لفظ ہونا یعنی پڑدانا یاپڑنادا۔ کوئی اہل زبان دوست اگر یہ مسئلہ حل کر دے تو۔
اس سے اگلی خبر یہ رہی کہ ِسٹرس کے پودوں سے پھول جھڑنے اور ننھے مُنے پھل نکلنا شروع ہو گئے ہیں‘ اسے ایک اور ہی خوش خبر پیدائش سمجھیے۔ اب ان کے بڑے ہونے اور پکنے کاانتظار ہو گا جس کے لیے کم از کم دس ماہ درکار ہوں گے جب یہ سارا منظر ہی بدل کر رکھ دیں گے‘ اور ‘ یہ انتظار کسی محبوبہ کے انتظار سے کیا کم ہو گا‘ اور میں آپ کو بھی اس معاملے پر ساتھ ساتھ ہی رکھوں گا۔
ڈفّی کے ساتھ ایک پپّی کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ڈسکہ سے آیا ہے‘ خالص لیبرے ڈار‘ اس کی ماں بھی خاندانی تھی یعنی مکمل طور پراصیل ہے۔ اس کا نام لیٹو ہے اور یہ ڈفّی کے علاوہ میرے اور آفتاب کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ لیبرے ڈار کے بارے میں مشہور ہے کہ وفادار بہت ہوتا ہے۔ ایک صاحب ایک دکان سے کتا خریدنے گئے۔ کتا پسند کیا اور رقم ادا کرنے کے بعد دکاندار سے پوچھا کہ یہ خاصا مہنگا کُتا ہے‘ کیا یہ وفادار بھی ہے؟
''صاحب‘ وفاداری کا نہ پوچھیے‘ یہ اتنا وفادار ہے کہ 20بار اسے بیچ چکا ہوں اور یہ ہر بارمیرے پاس آ جاتا ہے!‘‘ دکاندار بولا۔ تاہم ‘ جن گھروں میں رکھوالی کے لیے کتے نہیں ہوتے وہاں یہ کام خود کر لیا جاتا ہے‘ مثلاً مشہور امریکی مزاح نگار مارک ٹوین لکھتے ہیں کہ ہم اتنے غریب ہوا کرتے تھے کہ رات کو چوروں کو ڈرانے کے لیے کتوں کی آوازیں نکال کر خود بھونکا کرتے تھے!
پھر یہ کہ کُتے انسانوں کے برعکس‘ ایک دوسرے کے ہمدرد بھی ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود کہ کُتا کُتے کا بیری ہوتا ہے۔ ایک درویش کی جنگل میں رہائش تھی۔ ایک بار وہ کھانا کھانے لگا تو اس نے دیکھا کہ ایک بُھوکا کُتا دروازے پر امید بھری نظروں سے کھڑا ہے۔ اس کے پاس دو روٹیاں تھیں‘ ایک اس نے کُتے کو ڈال دی۔ دوسرے دن کھانے کا وقت ہوا تو درویش نے دیکھا کہ وہ کُتا ایک اور کُتے کو بھی ساتھ لے آیا تھا۔ درویش اس سے اتنا متاثر ہوا کہ انہیں ایک ایک کر کے دونوں روٹیاں ڈال دیں۔ تیسرے دن کھانے کے وقت درویش کیادیکھتا ہے کہ وہ کُتا پانچ سات کُتوں کو ساتھ لائے کھڑا تھا!
رات پولیس انسپکٹر ذوالفقار بٹ آ گئے جو مقامی تھانہ ہیر کے ایس ایچ او ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1991ء میں جب میں فلاں جگہ پر ایس ایچ او تھا تو میں نے چھلانگ لگا کر کنوئیں میں گرنے والے ایک بچے کو بچایا تھا اور اس پر آپ نے کالم لکھا تھا جس کا بہت چرچا ہوا اور وزیر اعلیٰ صاحب نے مجھے پچاس ہزار انعام دیا تھا۔ اور‘ لطیفہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر کارکردگیوں کے باوصف موصوف کی پروموشن نہیں ہوئی اور اب تک انسپکٹر ہی چلے آ رہے ہیں۔ مزید تازہ خبر یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں بھی ایک گھر کی تعمیر شروع ہو گئی ہے یعنی یہ علاقہ اب باقاعدہ آباد ہوتا نظر آتا ہے۔ دن بھر مزدور اور مستری کام بھی کرتے ہیں‘ گپّیں بھی لگاتے اور گانے بھی گاتے ہیں اور اس طرح خوب رونق لگی رہتی ہے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک اور جگہ بھی اینٹیں پڑی نظر آتی ہیں‘ یقیناً وہاں بھی یہی کام ہونے جا رہا ہے۔
سٹاپ پریس: صُبح کی واک کا وقت تبدیل ہو گیا ہے جو اذان کے بعد چار بجے ہی شروع ہوتی ہے۔ صبح طلوع ہوتی دیکھنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے۔ اندھیرا آہستہ آہستہ روشنی میں تبدیل ہوتا اور چیزیں واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر تازہ ٹھنڈی اور قاتل ہوا! اللہ کا شُکر ادا کرتا ہوں اور جن کے بارے کہا گیا ہے کہ تم اپنے اللہ کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلائو گے تو ان میں ایک صبح کی ہوا بھی ہے‘ خالص اور پاک۔
پرندے شاید کہیںچھٹی منانے چلے گئے ہیں۔ ممولے کی زیارت کیے تو شاید ایک مہینہ گزر چکا ہے‘ سُرخاب اور فاختائیں بھی غائب ہیں۔ ایک آدھ چڑیا نظر آئے گی یا تھوک کے حساب سے کوّے اور شارقیں یعنی لالیاں۔ مطلب یہ کہ کسی دن انہی پر گزارہ کیا جائے۔ گرمی باقاعدہ شروع نہیں ہوئی۔ قدم رنجہ فرمانے لگتی ہے تو مطلع ابر آلود ہو جاتا ہے اور بارش کی پیشین گوئی اس پر مستزاد۔ ادھر ادھر بارش تھوڑی بہت ہو بھی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی سنا ہے کہ مئی جون میں شدید گرمی پڑنے والی ہے۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے کہ بندے بھی اس کے ہیں اور موسم بھی اُس کے۔ دم مارنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو آئے آئے کہ یاں دل کُشادہ رکھتے ہیں!
آج کا مطلع
ماندگی میں ترے پتھر پہ جبیں رکھ سکتا
یا یہ سامان سفر اور کہیں رکھ سکتا