مسلم لیگ نواز ایک ہی تکرار کئے جا رہی ہے۔۔۔۔ پنجاب میں کوئی خصوصی آپریشن نہیں ہو رہا، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد فوج اپنے تئیں کوئی آپریشن کر رہی ہے، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف پنجاب پولیس کوئی چار ماہ سے ٹارگٹڈ کارروائیاں کر رہی ہے اور اب بھی جو کچھ ہو رہا ہے اس میں صرف پنجاب پولیس ہی اپنے مختلف اداروں کے ذریعے حصہ لے رہی ہے، فوج کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ دو دن ہوئے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس نے ایک ٹی وی چینل کے اینکر کے سوال پر بڑے ہی واضح الفاظ میں کہا کہ پنجاب رینجرز نہ تو اس قابل ہے کہ کوئی بڑا ایکشن کر سکے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی نفری ہے کہ وہ کسی بڑے آپریشن کے لئے آزادانہ طور پر کام کر سکے۔ ہم نے رینجرز سے دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کے لئے مدد مانگی تو وہ صرف آٹھ کمپنیاں بڑی مشکل سے مہیا کر سکے۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اﷲ اور پنجاب حکومت کے سرکاری ترجمان زعیم قادری سمیت سبھی برملا کہہ رہے ہیں کہ فوج کی جانب سے کوئی بھی آپریشن نہیں کیا جا رہا، لیکن کیا کریںکہ چند ہی روز پہلے پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی موجودگی میں میڈیا کے سامنے کہا کہ فوج پنجاب میں اپنے طور پر، پولیس سے کوئی مدد لئے بغیر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔
کبھی کبھی عام انسان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے سکیورٹی ادارے دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف آپریشن میں مصروف رہتے ہیں، بلوچستان کی حکومت اور اس کے وزیر داخلہ برملا اس کا اعتراف کرتے اور ان کی خدمات کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال کے پی کے اور سندھ کا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ترجمان اور وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھے ہوئے لوگ فوج کا نام لینا بھی گوارا نہیںکرتے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان اور پولیس کے انسپکٹر جنرل اپنے صوبے میں فوج کے آپریشن سے مکمل لاعلمی ظاہر کرتے ہیں۔کیا وہ چاہتے ہیں کہ اس کے لئے علیحدہ سے پھر کوئی ٹویٹ جاری کی جائے؟
پنجاب کے طاقتور حکمرانوں نے ''دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ والا محاورہ ضرور سنا ہو گا، لہٰذا انہیں اور عوام کا ایک بار پھر یہ جاننا ضروری ہو گیا ہے کہ ملک کے سکیورٹی ادارے اس وقت دہشت گردوں کے کتنے گروپوں کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں جبکہ ملک کے حکمران اور ان کے ترجمان فوج پر آوازے کستے اور ان کی خدمات کی تضحیک کر تے ہوئے اس کے شہیدوں کے ورثا اور زخمیوںکے جذبات کو اپنی زبانوں کے تیروں سے کتنا مجروح کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں مسلسل تحریک طالبان پاکستان، را، موساد، القاعدہ، جماعت الاحرار، جیش الاسلام ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، اہل سنت والجماعت (لدھیانوی گروپ)، بلوچ نیشنلسٹ گروپس، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی افغانستان کے علاوہ کچھ دوسرے ملکوں کی
انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔ اندازہ کیجیے اور سوچیے کہ ہمارے ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں اور ادارے ایک طرف شمالی اور جنوبی وزیر ستان، بلوچستان، پنجاب، کراچی، گلگت اور سوات میں دہشت گردوں اور غیر ملکی سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر آپریشن میں مصروف ہیں اور دوسری جانب اسلام آباد اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حکمران ان سرفروشوں کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہیں۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
چلیں مان لیا کلبھوشن یادیوکی گرفتاری ان کے مشن کا حصہ نہیں تھی اور نہ ہی 'را‘ کی بیخ کنی ان کے ایجنڈے پر ہے، لیکن جب ایک ہی دن میں کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب میں درجنوں افراد بشمول بچے اورعورتیں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کر دیے جائیں تو کیا ان معصوموں کے سفاک قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی نہ کی جائے؟ حکمران تو کارروائی نہیں کرتے، اگر افواج پاکستان جنہوں نے ملک کی سلامتی کا حلف اٹھایا ہوا ہے، اگر اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان کارزار میں ان کو کچلنے کے لئے اترتی ہیں تو ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ان کی تضحیک کیوں کی جاتی ہے؟
اگر پنجاب کے وزیر قانون تک یہ اطلاعات نہیں پہنچیں تو وہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اب تک دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف396 بڑے بڑے کامیاب آپریشن کیے ہیں جن میں سے اسلام آباد، آزاد کشمیراور گلگت میں22، پنجاب میں45،کے پی کے اور فاٹا میں85، سندھ میں 56، بلوچستان میں188 آپریشن مکمل ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ آپریشن شامل نہیں ہیں جن میں اہم ترین شخصیات کے خلاف تیارکیے جانے والے دہشت گردی کے منصوبوں کا قبل از وقت ناکام بنانا شامل ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران سکیورٹی اداروں نے بہت سی قیمتی جانوں کی قربانیاں بھی دیں جن سے حکمران بخوبی واقف ہیں۔
فوج کے یہ ایسے چند کارنامے ہیں جن کا افواج پاکستان ذکر کرنے یا اشتہارات کی صورت میں میڈیا پر لانے سے گریز کرتی ہے۔ اگر پنجاب حکومت یا وزیر اعظم کا میڈیا سیل لاعلم ہے تو وزیراعظم کے تحت انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) تو یقینا جانتی ہوگی کہ فوج کے سکیورٹی اداروں نے 'را‘ اور اس کی مدد سے کام کر نے والی بہت سی فرقہ وارانہ تنظیموں کے کتنے نیٹ ورک تباہ کیے ہیں۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارتی نمائندے افواج پاکستان کی اس کامیابی پر حیرت زدہ ہیں۔ وہ بھارت جو کل تک دنیا بھر کے میڈیا اور اپنے عوام کے سامنے یہ کہتا نہیں تھکتا تھا کہ پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز بھارت میں دہشت گردی کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ وہ آئی ایس آئی کی مدد سے کرتے ہیں، آج وہی بھارت سفارتی حلقوں میں کلبھوشن کا نام آتے ہی بدکنا شروع ہو جاتا ہے۔ سفارتی حلقے بھارت کی اس نئی منطق سے بالکل اتفاق نہیں کر رہے کہ کلبھوشن یادیو نیوی سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک کاروباری آدمی تھا اور اسی سلسلے میں وہ ایران اور افغانستان آیا جایا کرتا تھا اس لئے کہ ایران اور بھارت میں تعینات انہی ممالک کے سفارتی ذرائع بھی وہی کہانی سنا رہے ہیں جو پاکستان نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کر کے بھارت کا دنیا بھر میں سر جھکا دیا ہے۔ بھارت دنیا بھر میں منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ 'را‘ کے کمانڈر کلبھوشن کے اعترافات دنیا کو دکھانے پر قوم کے بیٹوںکو جنہوں نے جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ مشن مکمل کیا، انہیں کھل کر سلام عقیدت پیش کیا جاتا، ان کی خدمات کا سنہرے حروف میں تذکرہ کیا جاتا، اس کامیاب آپریشن پر فوج اور اس کے اداروں کو مبارکباد دی جاتی، افسران کے لئے خصوصی اعزازات کا اعلان کیا جاتا، مقام حیرت ہے کہ پنجاب کی حکومت اور وزیر اعظم کا میڈیا سیل سوگ میں ڈوبا نظر آ رہا ہے۔شاید اسی لیے کہتے ہیں: ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘۔