تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     07-04-2016

ادھرکو اب خبر پہنچی؟

میاں نوازشریف کی غیر ملکی کمپنیوں کا راز ریمنڈ بیکر نے گیارہ سال قبل ہی اپنی کتا ب Capitalism's Achilles Heel: Dirty Money and How to Renew the Free-Market System میں فاش کر دیا تھا۔ ریمنڈ بیکر ہاورڈ بزنس سکول کے گریجوایٹ ہیں۔ میاں صاحب کی کرپشن سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ پاکستان سے باہرکئی کمپنیاں ایسی ہیں جنہیں شریف خاندان سے جوڑاگیا ہے۔ ان میں سے تین برطانیہ کے ورجن آئی لینڈ میں قائم ہیں جن کے نام نیسکول، نیلسن اور شیم راک 68 ہیں۔ چینڈرن جرسی پرائیویٹ لمیٹڈ نامی ان کی ایک اور کمپنی جزائر رودبار (چینل آئی لینڈ) میں ہے۔ ریمنڈ بیکر نے یہ بھی لکھا تھا کہ ان میں سے بعض کمپنیاں مبینہ طور پر لندن کے پارک لین میں چار بہت ہی شاندار فلیٹوں کی خریداری میں سہولت کاری کے لئے استعما ل کی گئی تھیں۔ یہ چاروں فلیٹس مختلف اوقات میں شریف خاندان کے مختلف افراد کے زیرِ استعمال رہے ہیں۔ یہ ساری کہانی ریمنڈ بیکر 2005ء میں ہی بتا چکے ہیں، لیکن آج اس کی خبریں اور ان کمپنیوں کے نام ہم پھر سن رہے ہیں اور انہیں بریکنگ نیوز ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہاں واحد بریکنگ نیوز تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کو وہی جانے پہچانے لوگ یعنی شریف اینڈ کو اور زرداری اینڈ کو لُوٹتے چلے جا رہے ہیں، جن کے نام ریمنڈ بیکر نے گیارہ برس قبل بتا دیے تھے۔کرپشن، منی لانڈرنگ اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ریمنڈ بیکر عالمی سطح پر ایک معتبر مقام کے مالک ہیں۔ ان کی کتاب پر بڑے شاندار تبصرے ہوئے تھے لیکن پاکستانیوں کو اس کے بارے میں شاید ہی کچھ معلوم ہوا ہو۔ ان کی کتاب میں جن کا نام لیا گیا تھا یعنی نواز شریف اور سابق فرسٹ کپل بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری، دونوں ہی نے ان الزامات کو یکسر نظر انداز کئے رکھا کیونکہ یہ سچے الزامات تھے۔ اگر وہ ریمنڈ بیکر پر ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ ان کا کچا چٹھہ مزید کھل کر سامنے آ جاتا۔ یہ لوگ چور ہیں جو اپنا سیاسی اثر و رسوخ پاکستان کے وسائل لوٹنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 
اتفاق فائونڈریز اصل میں ایک واحد فائونڈری تھی جو بعد میں پھیل کر تیس کمپنیوں کے ایسے مجموعے کی صورت اختیار کر گئی جہاں اسٹیل سے لے کر چینی، کاغذ اور کپڑا تیار ہوتا ہے۔ ان کا مجموعی ریونیو چار سو ملین ڈالرز ہے۔ جب سیاسی تخت انسان کے قبضے میں ہو تو اقتصادی نوعیت کے فوائد بٹورنا اس کے لئے بہت آسان ہوتا ہے۔ پنجاب کا دارالحکومت لاہور، شریف خاندان کی طاقت کا مرکز بنا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے ایک واقعہ خود براہِ راست متعلقہ ذریعے سے سنا ہے۔ کئی سال پہلے کی بات ہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے آدمیوں نے لاہور کے ڈرائی پورٹ سے لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کے آہنی تختوںکو کباڑ اور فالتو سامان قرار دیتے ہوئے ان کی سمگلنگ کی تھی۔ یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ ان ٹرکوں میں کباڑ کی بجائے لوہے کے تختے رکھے گئے ہیں،ان ٹرکوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کئی گئی۔
اپنی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد میں بے نظیر بھٹو نے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل رحمان ملک کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ نواز شریف کی کرپشن کا کھوج لگائیں۔ رحمان ملک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بینکوں سے نواز شریف سے زیادہ پیسہ اور کسی نے نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''پاکستان میں کسی قانون کی بالادستی ہے ہی نہیں، ایسی کوئی چیز یہاں وجود ہی نہیں رکھتی!‘‘ ہم ''ڈاکٹر‘‘ رحمان ملک سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا انہیں حسن وسیم افضل یاد ہیں؟ 2006 ء میں نیب کے نائب چیئرمین کے طور پر انہوں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے پیٹرو فائن فری زون کارپوریشن کی ملکیت رکھنے پر بے نظیر بھٹو اور رحمان ملک پر بڑی نکتہ چینی کی تھی۔ اس وقت رحمان ملک خود انصاف سے بچ رہے تھے۔ امریکی وفاقی وسائل کے سابق سربراہ پال وولکر کی زیر نگرانی اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے تحقیق سے معلوم کیا تھا کہ پیٹرو فائن 'ایف زیڈ سی‘ نے 115-145ملین ڈالرزکے تیل کے معاہدوں کے حصول کے لئے صدام حسین کو 2 ملین ڈالرکی ادائیگی کی ہے۔ حسن وسیم افضل نے اس عزم کا اظہارکیا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور رحمان ملک کو گرفتار کر کے رہیں گے؛ تاہم ان کے اس اظہارکے معاً بعد ہی انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیاگیا تھا اور ان کی یہ معلومات جو نیب کی ویب سائٹ پہ اپ لوڈ کی گئی تھیں وہ بھی غائب ہوگئیں۔ 
یہ ساری کارروائی جنرل مشرف کے اشارے پہ ہوئی جنہوں نے وسیم افضل کو گھر بھیج کر بی بی اینڈ کو کے خیر مقدم کے لئے این آر او متعارف کرا دیا تھا۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ہم ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر سے ان کی اسلام آباد والی رہائش گاہ پہ ملنے گئے۔ ان کی رہائش گاہ کا مرکزی گیٹ اور اندرونی داخلی دروازہ دونوں کھلے ہوئے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے توکاغذوں کا ایک پلندہ ہاتھ میں لئے نصیر اللہ بابر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ان کاغذات میں شریف خاندان کی ملکیتی مشکوک نوعیت کے کاروباروں کی تمام تفاصیل درج تھیں۔ نصیر اللہ بابر کہہ رہے تھے: ''یہ لوگ محض لوہار تھے، آج پاکستان اور پاکستان سے باہر اس قدرفیکٹریاں انہوں نے کیسے بنا لی ہیں؟ یہ فولڈر لے جائیں اور ان لوگوں کی اصلیت سامنے لائیں‘‘۔ ریمنڈ بیکر کی مذکورہ کتاب انٹر نیٹ پرج پی ڈی ایف کی شکل میں مفت دستیا ب ہے۔ کوئی بھی اسے ڈائون لوڈ کر کے پڑھ سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ نہایت باریک بینی سے کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح کاروباری افراد، جرائم پیشہ لوگ اور چور اچکے پیسوں کی منتقلی کے فن میں ایک خاص قسم کی مہارت کو صیقل کرتے ہیں اور کس طرح ان کی یہ حرکتیں افراد، اداروں اور ملکوں پہ منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
ریمنڈ بیکر نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ 1988ء میں بے نظیر بھٹو نے اپنی پارٹی کے 26000 کارکنوں کو سرکاری نوکریاں دلائی تھیں۔ ان نوکریوں میں سرکاری بینکوں کی ملازمتیں بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد ناکافی ضمانتوں پر قرضوں کی فراہمی کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ فرسٹ کپل کی جانب سے پچاس بڑے منصوبوں کے لئے اربوں روپے کی فراہمی کے احکامات جاری ہوئے۔ یہ پیسہ منظور تو ان کے اپنے ہی لوگوں کے نام ہوتا تھا لیکن جاتا بے نظیر بھٹو اور زرداری کے ہاتھو ں میں تھا۔ 421 ملین روپے (جو اس وقت دس ملین پائونڈز بنتے تھے) تین نئی شوگر ملوں کے حصص خریدنے میں استعمال ہوئے اور یہ ساری کارروائی دیگر افراد کے ذریعے انجام پائی۔ جہاں تک کِک بیکس کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ایک الگ صفحے پر تمام اعداد و شمار کے ساتھ تفصیلات دی گئی ہیں۔ 
یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں، ہم نے ہزار بار یہ سب باتیں پڑھی ہوںگی۔ ریمنڈ بیکر کہتے ہیں، نواز شریف کے دور میں بینکوں سے قرضہ لے کر واپس نہ کرنا اور بڑے بڑے ٹیکسوں کی چوری کرنا امیر ہونے کا آسان طریقہ بن گیا تھا۔ جب نواز شریف کو بر طرف کیا گیا توتین سو بائیس بڑے بڑے قرض نادہندگان کی ایک فہرست حکومت نے شائع کی تھی جس میں بینکوں کے دیے گئے چار ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر ان نادہندگان ہی کے ذمے واجب الادا تھے۔ نواز شریف اور ان کے اہلِ خاندان کے ذمہ 60 ملین ڈالر واجب الادا بتائے گئے تھے۔ یہ سب گیارہ سال پہلے کی بات ہے، ذرا سوچئے،ان برسوں میں شریفوں اور زرداریوں کی دولت میں دن دگنی اور رات چگنی کے حساب سے کس قدر اضافہ ہو چکا ہوگا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved