تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-04-2016

’’کیا حکم ہے میرے آقا!‘‘

قومی سیاست کھیلتے کھیلتے ایک بار پھر کھلواڑ کی طرف چلی گئی ہے۔ پھر وہی نادیدہ و پراسرار قوتیں بیدار و فعال ہوگئی ہیں جن کے ہاتھوں ملک کے لیے بہت سے الجھنیں پہلے بھی کھڑی ہوتی رہی ہیں۔ عالمی اور علاقائی حالات ایک طرف، ملک کی مجموعی کیفیت اپنی جگہ اور اِن نادیدہ قوتوں کا کھیل اپنی جگہ۔ جس طور شکر خورے کو کسی نہ کسی ذریعے سے شکر مل ہی جاتی ہے بالکل اُسی طرح آرڈر پر مال تیار کرنے والی سیاسی مشینری کو بھی فعال رکھنے والے مل ہی جاتے ہیں۔ 
حالات کو پل بھر میں تلپٹ کرنے کے ''ماہرین‘‘ حکم کے غلام ہیں۔ اِن کی حیثیت داستانوں میں پائے جانے والے الٰہ دین کے چراغ میں قید جن کی سی ہے۔ چراغ رگڑیے، جن نکلے گا اور پوچھے کیا حکم ہے میرے آقا؟ اُسے کام بتائیے۔ کام نکل جانے (یعنی پے منٹ ہوچکنے) کے بعد جن کو دوبارہ چراغ میں بند کردیجیے۔ 
پاکستان میں ایک زمانے سے سیاست اور ریاستی مشینری آرڈر پر مال تیار کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ آرڈر پر مال تیار کرنے والے عموماً کامیاب ہی رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں کچھ مثبت تو کرنا نہیں ہوتا۔ یہ عقل مند ہیں یعنی اشارا کافی ہے۔ خط کو تار اور تھوڑے کو بہت سمجھنے والے یہ حکم کے غلام ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ پتا نہیں کب ''اوپر‘‘ سے اشارا یا حکم ہو اور معاملات کو خراب کرنے کا ٹاسک ملے۔ ''ٹاسک فورس‘‘ تیار رہتی ہے۔ حکم دیجیے اور اپنی مرضی کی گڑبڑ پھیلائیے۔ 
یہ نادیدہ قوتوں کا کھیل بھی خوب ہے۔ اسلام پردے کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ نادیدہ قوتیں اِس حکم کی مکمل پابند رہتی ہیں! کبھی سامنے نہیں آتیں۔ اِتنا اہتمام ضرور کرتی ہیں کہ کوئی اگر غور کرے تو الجھن ہی میں مبتلا رہے۔ گویا ؎ 
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں 
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں! 
کھیل واقعی بہت پراسرار ہے کہ جن سے کام لیا جاتا ہے خود انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کام لینے والا کون ہے اور کام کیوں لیا جارہا ہے! عوام حیران و پریشان ہیں کہ یہ تماشا کیا ہے۔ جنہیں پولنگ کے مرحلے میں کبھی درخورِ اعتناء نہیں گردانا وہ پوری قوم کا ناک میں دم کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ہزار منت مرادوں سے ہاتھ آنے والی جمہوریت کو کسی نہ کسی طور مصروفِ کار رکھنے کی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش قدم قدم پر جاری رہتی ہے۔ کیوں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ 
جمہوریت نواز اور جمہوریت مخالف قوتوں کے درمیان تناؤ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ملک کس طرف جارہا ہے، حالات کی خرابی قوم کے لیے کتنی پریشانی لائے گی اِس کی فکر بظاہر کسی کو نہیں۔ دھیان ہے تو بس اِس بات پر کہ میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا؟ حزیںؔ قریشی احمد آبادی نے خوب کہا ہے ؎ 
سلگ رہا ہے نشیمن کہ جل رہا ہے چمن؟ 
چلو، قریب سے دیکھیں یہ روشنی کیا ہے! 
یعنی اپنے نشیمن کے لیے سلگنے کا اندیشہ ... اور چمن کے لیے جل اٹھنے کی بات! بات سیدھی سی ہے۔ سب اپنے نشیمن کو بچانا چاہتے ہیں، چمن کا کچھ غم نہیں۔ قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا ایسا شدید فیشن شاید ہی اِس ملک میں کبھی رہا ہو! سب چاہتے ہیں کہ زندگی کے سمندر میں سفر پُرسکون ہو، پُرلطف ہو اور ہر نظارے سے فیض یاب ہوتے چلیں مگر اِس بات پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ جس کشتی میں سوار ہیں اگر وہی سلامت نہ رہی تو کیسا سفر اور کہاں کا سفر؟ تب غرقاب ہو رہنے کے سِوا آپشن نہ بچے گا! 
وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون کو ایک بار پھر ہدفِ تضحیک بنادیا گیا۔ ایسا کرنے کی غایت کیا تھی، یہ بات ناقابل فہم سی ہے۔ وہ کون سا مقصد تھا جس کے حصول کے لیے چہلم میں شریک ہونے والوں کا رخ اسلام آباد کی طرف کردیا گیا اور پھر اُن کی راہ میں کوئی دیوار بھی حائل نہیں ہونے دی گئی؟ آئیے، کچھ دن پہلے کی بات کرتے ہیں۔ 
''میری بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔‘‘ 
''میں نے کہا تھا نا کہ پرویز مشرف عدالتوں کا سامنا (!) کیے بغیر اِس ملک سے نہیں جائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔‘‘ 
یہ الفاظ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہیں۔ پرویز مشرف ... اور عدالت کا سامنا؟ آپ کو یہ پڑھ کر تھوڑی سی ہنسی ضرور آئی ہوگی۔ اور بعض تو شاید کھل کر ہنس بھی دیئے ہوں گے۔ خیر، یہ بحث پھر کبھی سہی کہ کس نے عدالتوں کا سامنا کیا اور کس نے نہیں کیا۔ سرِدست سوال یہ ہے کہ جس معاملے پر شرمندگی محسوس ہونی چاہیے تھی اُس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی۔ 
سابق صدر اور آرمی چیف کے خلاف ٹرائل کا ناٹک کئی سال تک چلتا رہا۔ وہ میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرکے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کرتے رہے۔ اب وہ ملک سے چلے گئے ہیں تو سپریم کورٹ نے منتخب حکومت کو اُن کے جانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ حکومت چاہتی تھی کہ سابق آرمی چیف کو ملک سے جانے کی اجازت دینے کا طوق سپریم کورٹ کے گلے میں ڈل جائے! 
یہ اور ایسے ہی بہت سے دوسرے تماشے جاری ہیں۔ قوم منتظر ہے کہ اُس کا جینا آسان کیا جائے مگر یہاں تو یاروں نے اُس کا ناطقہ بند کرنے کی ٹھان رکھی ہے! 
حکومت کی مجبوریاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس ملک میں کسی منتخب حکومت کے لیے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرنا اور اپنی بات منوانا کیا ہوا کرتا ہے یہ بات سیاست کے سنجیدہ طالب علم اچھی طرح جانتے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ احتساب صرف سیاست دانوں کا ہوا کرتا ہے۔ اوروں کی بات تو جانے ہی دیجیے، یہاں تو بیورو کریٹس بھی آسانی سے احتسابی جال میں نہیں پھنستے۔ اور اگر کبھی پھنس بھی جائیں تو نکلنے کے ہزار راستے تیار ملتے ہیں! 
قوم اپنا اور ملک کا بھلا چاہتی ہے۔ جمہوری قوتوں کے لیے بھی یہ سخت آزمائش کی گھڑی ہے۔ جنہیں قوم ٹھکرا چکی ہے وہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ مگر اُنہیں مسائل پیدا کرنے سے روکنا جمہوری قوتوں ہی کے کرنے کا کام ہے۔ جہاں ذرا سی گنجائش دکھائی دیتی ہے وہاں چراغ میں چھپی ہوئی غیر جمہوری قوتیں ''کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘ کہنے کی منتظر رہتی ہیں۔ یعنی اشارا ملے تو کام شروع کریں۔ دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ جمہوری قوتوں کو اپنا کام یاد رہے اور کسی کو چراغ رگڑ کر اُس میں چھپے جن سے کام لینے کا موقع نہ ملے اور جن چراغ ہی میں دم گھٹنے سے چل بسے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved