نہ جانے کیوں؟ مجھے یوں لگا جیسے ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف امتحان کے ان دنوں میں اپنی جنگ‘ اکیلے لڑ رہے ہیں۔ کسی بڑے وزیریا جماعت کے لیڈر نے‘ ان کے حق میں کوئی معقول بیان نہیں دیا۔ان کی ٹیم کے رنگیلا‘ منور ظریف بڑھ چڑھ کر ‘ میاں صاحب کے ساتھ اظہار وفا کر رہے ہیں۔ لیکن وہ میاں صاحب کے دفاع میں جو بوکھلائی ہوئی باتیں کرتے ہیں‘ وہ مرکزی کہانی کے درمیان میں کامیڈی کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ اب تو یہ وقفے ہی اصلی کہانی کی جگہ لے رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ خود میاں صاحب بھی اپنی اصل کہانی کو بھول بھال کے‘ مزاحیہ اداکارو ں کی پرفارمنس سے محظوظ ہونے لگے ہیں۔ اپنے والدمحترم کی یہ حالت دیکھ کر‘ ان کے دونوںلائق بیٹے فوری طور سے وطن واپس آ گئے ہیں یا آنے والے ہیں تاکہ اپنے والد کی مدد کر سکیں۔ لیکن انہوں نے زندگی میں دولت سے کھیلنے اور دولت کمانے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں سیکھا۔ ایسے حالات میں وہ کرپشن کے الزامات کی زد پر آئے ہوئے سیاستدانوں پر عالمی حملے کے جواب میں کیا خدمات انجام دے سکتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ وہ پاکستان میں قیام کے دوران فنی مہارت سے کام لیتے ہوئے ‘ دونوں ہاتھوں سے دولت کمانے کا مظاہرہ کر کے دکھا سکتے ہیں اور اس دوران کمائی ہوئی دولت یہیں سے پاناما منتقل کر لیں گے۔
دونوں فرزندان عزیز کی مدد کے لئے پاناما لاء کمپنی موساک فونسیکا کے شریک بانی کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی ہیکنگ کا نشانہ بنی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ بیان بھی نوجوان شریفوں کی مدد کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ کمپنی کے شریک بانی رامون فونسیکا کا کہنا ہے کہ معلومات افشا ہونے میں اندرونی ہاتھ نہیں ہے۔ ان کی کمپنی کو بیرون ملک قائم سرورز کے ذریعے ہیک کیا گیا ہے۔ اس ہیکنگ کی شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔ پاناما لیکس کے نتیجے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم استعفیٰ دے چکے ہیں۔ کروڑوں دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد‘ متعدد ممالک کے طاقتور اور امیر افراد کی ممکنہ مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کمپنی کے ایک بانی شراکت دار نے کہا ''کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہاں جرم ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا ''دنیا پہلے ہی اس بات کو قبول کر رہی ہے کہ رازداری انسانی حق نہیں ہے۔‘‘ کمپنی نے صارفین کو ایک ای میل بھیجی ہے ''ہمارے ای میل سرورمیں غیرقانونی طریقے سے خلل اندازی کی گئی ہے۔‘‘ ''گارڈین‘‘ میں ایک خط شائع ہوا ہے جس میںکمپنی کے تعلقات عامہ کے سربراہ نے ''حاصل کی جانے والی معلومات کے استعمال پر ممکنہ قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔‘‘ متعدد ممالک میں‘ جہاں کی اہم شخصیات‘ ان میں ملوث ہیں‘ خفیہ معلومات کے افشاء ہونے پر سیاسی ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاناما لیکس اس وقت پاکستانی عوام کے لئے ایک اچھی خبر بن سکتی تھیں۔ یہاں کی اپوزیشن چاہتی‘ تو وہ موقع کا فائدہ اٹھا کر‘ تیزرفتاری سے ایک متحدہ محاذ بنا سکتی تھی اور فوری طور پر وزیراعظم کے خلاف منظم مہم شروع کر کے‘ انہیں دفاعی پوزیشن میں ڈالا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ اپوزیشن بھی دولت کے نشے میں دھت ہے۔ ان سب کی اوقات وزیراعظم کو اچھی طرح معلوم ہے۔ میرا خیال ہے‘ عمران خان کے سوا‘ سارے لیڈروں کو وزیراعظم ہائوس سے فون جا چکے ہوں گے‘ جس میں بتایا گیا ہو گا کہ آپ انتظار فرمایئے۔ پرائم منسٹر آپ سے بات کریں گے۔ ان کی اکثریت پرائم منسٹر کے ٹیلیفون کے انتظار میں خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ اس لئے کرپشن کے الزام کے خلاف وہ کوئی آواز ہی نہیں نکال پائے۔ جس کسی کی آواز نکلی‘ وہ ایک چھوٹی سی چوں کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔ اکثریت کا اصول ''نو نقد‘ نہ تیرہ ادھار ‘‘ ہے۔ لیکن ان ''منتظر سیاستدانوں‘‘ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کبھی کبھی وقت تیزی سے نکل جاتا ہے اور انتظار کرنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
حزب اختلاف میںرہنے کا بہترین طریقہ ہمارے چند معروف سیاستدانوں کا ہے۔ جب بھی حکمران ذرا مشکل میں آتے ہیں‘ وہ غراتے ہوئے بیانات جاری کرنے لگتے ہیں۔ پورا دن ٹیلیفون کا انتظار کرتے ہیں اور جب نہیں آتا‘ تو اس سے زیادہ غراتا ہوا بیان جاری کر کے‘ ٹیلیفون کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلی نہیں تو اگلی شام مراد بر آتی ہے اور اپوزیشن میں رہنے کی راحت سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔
دنیا کی جدید ترین اپوزیشن کا تجربہ ہمارے مولانا فضل الرحمن کر رہے ہیں۔ وہ حکومت میں کئی وزارتوں پر بھی قابض ہیں اور اپوزیشن کی دلجوئی بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اثرورسوخ کا یہ عالم ہے کہ بعض حکومتی وزیر بھی اپنے کام کرانے کے لئے‘ مولانا کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ مجھے تو شک ہے کہ شریف صاحبزادگان‘ برطانیہ سے ہنگامی طور پر پاکستان واپس آ کر اپنے والد محترم کی مدد کے لئے سیدھے مولانا کی بارگاہ میں حاضری دیں اور مراد پانے کے بعد والدمحترم کی زیارت کریں۔عوام کرپشن کے ذمہ داری حکومت پر ڈال کر احتجاجی جلسے جلوسوں میں شامل ہوتے ہیں۔ شاید انہیں خبر نہیں کہ حکمرانوں کو خود بھی کرپشن کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ امتحان کے اس موقع پر بڑے بڑے وزیر‘ وزیراعظم کی حمایت میں کیوں باہر نہیں نکلے؟ اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمن کے سوا‘ کوئی سامنے کیوں نہیں آیا؟ انہوں نے پاناما لیکس کا ذکر اتنی حقارت سے کیا‘ جس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے پاناما لیکس کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ وہ یہ کہنے والے تھے کہ پاناما کیا چیز ہے؟ مگر کچھ سوچ کر رک گئے۔ شاید سوچا ہو کہ وہاں کے حکمران ناراض نہ ہو جائیں۔
کوئی سبب ضرور ہے اس احتیاط کا
3جنوری 2014ء کو ''ڈان‘‘ میں اثاثہ جات کے انتخابی ڈیکلیریشنز کی بنیاد پر ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ جس سے پتہ چلا کہ شریف برادران کا شمار پاکستان کے امیرترین افراد میں نہیں ہوتا۔ حقیقت جان کر مجھے فخر محسوس ہوا کہ جو چیز پاکستان کے وزیراعظم کے پاس نہیں‘ خدا نے مجھے اس سے نواز رکھا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔ شاید دنیا میں اور بھی کہیں نہیں۔ لندن کے رہائشی فلیٹس میں بھی وزیراعظم کا اپنا کوئی فلیٹ نہیں۔ وہ اپنے بیٹوں کے گھر میں مہمانوں کی طرح رہتے ہیں۔ عین ممکن ہے ہمارے وزیرخزانہ‘ وزیراعظم سے زیادہ مالدار ہوں۔ انہوں نے پاکستانی عوام کے ناک میں جس طرح دم کر رکھا ہے‘ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم ان کے سامنے بے بس ہیں۔ وہ عوام کے سامنے بھی بے بس ہیں۔ عوام کا خون نچوڑنے کی سکیمیں ان کے وزیرخزانہ بناتے ہیں اور عوام کے سامنے جوابدہی کے امتحان سے وزیراعظم کو گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنے ووٹروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ یہ بات ڈار صاحب کو معلوم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لئے انہیں عوام کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا انتخاب پنجاب اسمبلی کرتی ہے‘ جو وزیراعظم کی گود میں ہے۔ جتنے ووٹ وہ چاہیں لے کر ‘ سینٹ میں آ جاتے ہیں۔ ان کے ووٹروں میں کسی کو عوام کا خیال نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ منتخب کرنے کے بعد اپنے سینیٹر یعنی ڈار صاحب کے سامنے عوام کے مسائل رکھ سکیں یا ایوان میں عوام کے مسائل بیان کر کے‘ گزارش کریں کہ ڈار صاحب! یہ سنگدلی چھوڑ کر‘ عوام پر رحم کریں اور تیل کی عالمی منڈی کے نرخوں میں جو اتار چڑھائو ہوتا ہے‘ کم از کم اسی کا فائدہ عوام تک پہنچنے دیں۔ ملکی معیشت میں جہاں بھی کوئی ایسی گنجائش نکلتی ہے‘ جس سے عوام کو فائدہ پہنچ سکے‘ ڈار صاحب راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی سنگدلی کا عالم تو یہ ہے کہ باپ کی حیثیت میں‘ بیٹوں کو پیسے دینے کے بجائے‘ انہیں قرض دیتے ہیں اور پھر واپس بھی لیتے ہیں۔ یہ نابغہ روزگار ‘ خدا جانے میاں صاحب کہاں سے ڈھونڈ کر لائے؟ ان دنوں عالمی سرمایہ داروں کا نیٹ ورک اس کام میں مصروف ہے کہ آف شورسرمایہ کاری کو جائز قرار دلایا جائے۔ دنیا بھر کے انسان دوست عالموں‘ دانشوروں اور انسانی حقوق کے ترجمانوں نے 40برس زور لگا کر آف شور بزنس کے خلاف مہم چلائی اور پاناما لیکس کا معرکہ انجام دینے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن میں بار بار اطلاع دے رہا ہوں کہ پاناما لیکس کے متاثرین کا ہم کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ ساری دنیا پر ان کی حکومت ہے۔ آف شور کمپنیز میں سرمایہ کاری کرنے والا ہر شخص‘ ان کی حفاظت میں ہے۔ اس وقت بھی عالمی سرمایہ دار کلب کے تمام اراکین اپنے ممبروں کو بچانے کے لئے سرگرم ہوں گے۔ہمارے میاں صاحب اس کلب کے سرکردہ ممبر ہیں۔