تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-04-2016

کمیشن سے کمشن تک

آپ جو مرضی سمجھیں میں تو اسے لازوال دوستی کی با کما ل مثال ہی کہوں گا۔
بھارتی وزیراعظم مودی اور وزیراعظم نواز شریف نے کرہ ٔارض کی تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ یا معاشی دہشتگردی کی واردات پرکمشن بنایا۔اسے ''اتفاق ‘‘ کے علاوہ اور کیا کہا جائے، پڑوسی ملکوں کے دوست وزرائے اعظم نے ایک ہی وقت میںکمشن قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ویسے آپس کی بات ہے کمیشن 2 طرح کے ہوتے ہیں۔پہلا وہ جس کا نام آتے ہی دل ودماغ کو'' کِک بیک‘‘ لگ جا ئے اور جس کو سوچ کرمیگا پراجیکٹ نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔جہاںپر بھی میگا پراجیکٹ ،کُھلا سریا اور بے شمار جنگلہ ہو وہاں کمیشن کے ذکرپر کئی متبرک ہستیوں کی رال ٹپک جانا تاجرانہ فطرت کے عین مطابق ہے۔
جس دن سے پانامہ لِیکس کا سیلاب آیا ہے ‘جنہوں نے کبھی کمیشن لیا نہ دیا‘ ان بیچاروں کو سوشل،الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیانے خوامخواہ لمبا ڈال لیا ہے۔ حالانکہ پانامہ لیکس کی فہرست میں شامل شرفاء کا کیس بڑا مضبوط ہے۔اس کیس کے حق میں چیدہ چید ہ دفاعی دلائل یوں ہیں۔
پہلا دفاع،سیاست کے ایک مہمان اداکار جو اس ایٹمی اور اسلامی ملک کی خوش قسمتی کی وجہ سے وفاقی وزیر کے عہدے تک پہنچا‘ نے اپنے دفاع کی ابتداکی ۔موصوف نے کہا ،پانامہ لیکس میرے خلاف بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی ''را‘‘ کی سازش ہے۔دفاع کا دوسرا نکتہ اس سے بھی شاندار ہے۔فرمایا،میں نے عراق میں اقوامِ متحدہ کے اصولوں سے ہٹ کر کوئی کمیشن نہیں دیا۔کتنا کھلا دفاع ہے کالا دھن کمانے کے لیے جو کمیشن ایجنٹوں کو دیا گیا‘ وہ اقوامِ متحدہ کے عراقی اصولوں کے عین مطابق تھا۔
دوسرا دفاع ،دفاعی امور کے ا یڈہاک وزیر کی جانب سے سامنے آیا۔جو اردو کی تازہ ترین پارلیمانی اصطلاح کا موجد بھی ہے۔یہ اصطلاح آپ کوبعد میں بتاتے ہیں ‘پہلے دفاع دیکھ لیجئے۔کہا ‘پانامہ لیکس سازش ہے۔ ساتھ ہی سازش والاکام شیطان کے نام لگا دیا گیا۔ 
تیسرا دفاع،بیرونِ ملک مقیم دو معصوم بچوں کی طرف سے سامنے آیا جو کم سنی میں ٹین ایجر کی حیثیت سے ماڈل ٹاؤن سے ہجرت کرکے لندن پہنچے‘جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان کا کاروبارحسبِ منشاء خوب چمکا۔اب دنیا بھر کے ارب پتی اس جوڑی کے سامنے دودھ پتی جتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔انہوں نے فرمایا،ہمارے پیسے جائز ہیں اور قانونی بھی۔وہ صرف یہ بتانا بھول گئے کہ اتنی آف شور کمپنیاں،اتنے ڈالر اور اتنے پاؤنڈانکے ذاتی اکاوئنٹس میں آئے کہاں سے؟
چوتھا دفاع ،ہمارے پیارے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے سامنے آیا‘جس کو ابھی پتا نہیں لگ سکاکہ پاکستان کا ایک آئین بھی ہے‘جبکہ اس آئین میں حکومتی اور عوامی عہدوں پر بیٹھنے والوں کے لیے راست باز،صادق و امین ہونااہلیت کی ضروری شرط ہے۔یادش بخیریہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس کو نیب کے ایک سابق چیئر مین نے2013ء کے عام انتخابات سے پہلے مشہور کرپٹ لوگوں اور عادی قرض خوروں کی فہرست بھیجی تھی‘تا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل62اور63کومتحرک کیا جا سکے۔ 
سُنا ہے اس فہرست میںآج کل مولا بخش اپنے پان لپیٹ کر بیچتا ہے۔
پانچواںدفاع،تہمینہ درّانی صاحبہ کا تازہ چھکا ہے۔اس سے پہلے تہمینہ درّانی کو ''مائی فیوڈل لارڈ‘‘ نے عالمی شناخت دی۔تہمینہ صاحبہ کی ہمشیرہ'' مینو‘‘ امریکہ میں رہتی ہیں۔ مانچسٹر کے میرے دوست انیل صاحب کے گھر ان سے کئی ملاقاتیں اور پھر ہلکا پھلکا رابطہ ہوا۔سوشل میڈیا پر تہمینہ درّانی نے جس جرأت سے اپنا مافی الضمیر کھول کر قوم کے سامنے رکھا‘مجھے اسی کی توقع تھی۔ پاکستان کے سرمایہ دار حکمران جو دور دیس کے مُلکوں کے لیے سرمایہ کار ہیں ‘ا ن کو اس سے اچھا دفاع اور کوئی نہیں مل سکتا ۔ تہمینہ درّانی نے جس دفاع کا آغاز اپنے شریکِ حیات سے کیا‘اس لائف ٹائم پارٹنر شپ کا آغاز تب ہوا جب خادمِ اعلیٰ صاحب جلا وطن تھے، بے اختیار تھے اور سیاسی طور پرخالی ہاتھ۔ اس لیے جو روڈ میپ تہمینہ درّانی نے 15 سالہ رفاقت کے تجربے کے بعد اپنے ٹوئیٹر پر منکشف کیا وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ رسوائی سے بچا کر سُرخرو کرنے کا فارمولا ہے۔
چھٹا دفاع، وہی ہے جو سیاستِ پاکستان کے تین قوانین میں صاف لکھا گیا ہے۔ پہلا قانون ہے انسدادِ بد عنوانی کا ایکٹ مجریہ 1947 (P.C.A 1947) جس میں معلوم ذرائع کے علاوہ ، دولت، سہولت یا شاہانہ طرزِ زندگی کو کرپشن قرار دیا گیا ۔ مشرّف دور میں بنایا گیا احتساب آرڈیننس مجریہ 1999ء "Living Beyond Means" کہہ کر دفعہ 9 اور دفعہ 10 کے تحت قابلِ دست اندازیِ جرم قرار دیتا ہے۔ منی لانڈرنگ کا قانون اور FIA ایکٹ مجریہ 1975ء تیسرا دفاع ہے۔ جس کے ہاتھ صاف ہیں ، جس کی کمپنیاں قانونی اور اربوں کھربوں ڈالر اور پائونڈ حلال کی کمائی ہے ‘اسے نہ ڈرنا چاہیے‘ نہ چھپنا چاہیے اور نہ کوئی ڈرنے سے بچنے کا مصنوعی راستہ اپنانا چاہیے۔
ساتویں دفاع کا راستہ ،آئس لینڈ کے وزیراعظم نے چن لیا۔عوام کے وزیراعظم کو عوام نے کہا ''گو وزیراعظم گو‘‘ اور وزیراعظم استعفیٰ دے کر چل پڑا۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا دنیا میں یہ تازہ ترین مظاہرہ ہے۔بہت دن پہلے کسی مجلس میں ایک صاحب بولے کہ فلاں نمبردار کی بڑی بے عزتی ہو گئی۔نمبر دار صاحب کا بھتیجا ساتھ بیٹھا تھا۔بھتیجے نے چچا کا نام آتے ہی گفتگو میں فوراََ مداخلت کی،اور زوردار آواز میں کہا... پھر بولو۔چچا کا نام لینے والے صاحب پہلے تو سہم گئے۔لیکن جب ساری مجلس نے ان کا حوصلہ بندھایا تو انہوں نے جملہ دہرادیا ، نمبر دار کی بڑی بے عزتی ہوئی۔اس پر بھتیجا بولا آپ کیا سمجھتے ہیں ان کی کوئی عزت بھی تھی؟کہ ان کی بے عزتی ہو گئی۔عزت اور ذلت دینے کا اختیار رب دو جہاں کے پاس ہے۔لیکن عزت اور ذلت کی تعریف اورا نتخاب کا راستہ انسان خود چن سکتے ہیں۔پانامہ لیکس کا پاکستانی چیپٹر کو ن سا راستہ چن رہا ہے۔یہ کالم چھپنے تک آپ جان لیں گے۔یہی کہ کوئی شرم ہوتی ہے ۔کوئی حیا ہوتی ہے۔
آٹھواںدفاع،بہت دلچسپ ہے۔بیٹا ملزم ،باپ منصف۔ بچوں پر الزام، عدالت ابّا جی سرکار کی مرضی کے عین مطابق۔ محسنِ انسانیتﷺ کی خدمت میںسفارش آئی۔چوری کی ملزمہ کے ہاتھ کاٹنے سے درگزر فرمایا جائے۔آپﷺ نے تمام جہانوں اور سب انسانوں کے لیے قانون بنا دیا۔ آپﷺ نے فرمایا'' تم سے پہلے امتوں کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ طاقتور کو دیکھ کر قانون منہ پھیر لیتا۔جبکہ کمزور کو دیکھ کر قانون پورے جبروت سے لاگو ہوتا‘‘۔
یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے سب جانتے ہیں...طاقتور ملزموں کو دیکھ کر آنکھیں چرانے والی قومیں برباد بھی ہوئیں، فنا بھی۔ پسماندہ اورذلیل بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved