کل سارے ٹی وی چینلوں پر قومی اسمبلی کا وہی حصہ دیکھنے کو ملا‘ جو اصل میں حاصل محفل تھا۔ دوسری جتنی بھی تقریریں ہوئیں‘ ان میں یا تو شامل باجے تھے یا وہ رکن اسمبلی‘ جنہیں سننے کے لئے لوگ بے تاب تھے۔ یہ دونوں کام تو ہو گئے۔ مگر جس انتظار میں لوگ کام چھوڑ کر ٹیلیویژنوں کے سامنے دم بخود بیٹھے تھے‘ وہ تقریر انہیں دیکھنے کو نہ ملی۔ ایسا نہیں کہ تقریر نہیں ہوئی۔ تقریر ہوئی اور سپیکر صاحب نے بھی اپنی کرسی کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ یہ ثابت کر دیا کہ وہ پارٹی سے تعلق کی بنا پر محض تابع مہمل نہیں۔ آئین نے انہیں اختیارات اور عزت دی ہے اور یہ محض پارٹی سے وفاداریاں نبھانے کے لئے نہیں ہوتی‘ عوام کے منتخب ایوان کو اس عزت و وقار کے ساتھ چلانے کے لئے ہوتی ہے‘ جس کے لئے ایوان منتخب ہے۔ کل سپیکر صاحب اپنے منصب کے تقاضوں کے عین مطابق پوری آن بان کے ساتھ فرائض منصبی ادا کر رہے تھے۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی قیادت کی پسند اور جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ آئین کو ترجیح دی۔ ان کی قیادت کی پسند کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان کو اسی طرح بار بار مداخلت کر کے‘ حق تقریر سے محروم رکھا جائے‘ لیکن سپیکر صاحب نے اس کے برعکس وہ کیا‘ جو ان کے پروقار منصب کے عین مطابق تھا۔ حکمران پارٹی کے تمام اراکین لنگرلنگوٹ کس کے آئے ہوئے تھے۔ ایک ''پُرجوش‘‘ اجلاس حکمران پارٹی کے اراکین کا منعقد کیا گیا تھا‘ جنہیں اس قسم کے پیغام کے ساتھ طلب کیا گیا ‘ جس کا اصل میں مطلب یہ تھا ''جیہڑا ناں آیا‘ اپنے کماں توں ہتھ دھو لوے۔‘‘
کافی عرصے سے ہماری اسمبلیاں اپنا اصل کام بھول چکی ہیں۔ وہ قائد ایوان اور وہ اراکین اسمبلی‘ ماضی کی خوراک بن کر مدتوں پہلے اپنی آخری آرام گاہوں میں آسودہ ہیں۔
اب دیکھنے کو ان کے آنکھیں ترستیاں ہیں
کہاں میاں افتخار الدین کی پرمغز ‘ بامعنی اور پرجوش تقاریر؟ حسین شہید سہروردی کاایک ایک نپے تلے الفاظ سے آراستہ خطاب؟ میاں ممتاز دولتانہ کا فلسفیانہ اظہار خیال؟کہاں ذوالفقار علی بھٹوکی ذہن کو نکھارنے اور لہو کو گرمانے والی تقریریں؟ کہاں خان عبدالقیوم خان کا ٹھہرا ہوا اور ستھرا لہجہ؟ کہاں خان عبدالولی خان کی درد اور جذبے سے پُر تقاریر؟ کہاں تک یاد کروں؟ ہر رکن اسمبلی کا اپنا لہجہ اور اپنا انداز ہوتا تھا۔ ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو‘ جو اپنی تقریر قائد ایوان کو سنانے کے لئے کرتا ہو اور جس کے ہر جملے میں کسی قومی یا علاقائی مسئلے کی نشاندہی کے سوا‘ صرف ایک التجا بار بار دہرائی جاتی ہو کہ''عالم پناہ! میرے کم نہ بھل جانا۔‘‘ اس دور میں ایسی التجائیہ تقاریر کا رواج نہیں تھا۔ ماحول ہی ایسا تھا کہ خوشامدی تقریر کرنے والا مرکز نگاہ بن جاتا اور اراکین کے علاوہ گیلریوں میں بیٹھے حاضرین بھی ‘ایسی بے تکی تقریروں پر مضحکہ اڑانے میں کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ یہ درست ہے کہ پرانے زمانوں کو یاد کرنا بھی ایک رومانس ہوتا ہے‘ لیکن دور حاضر کی اسمبلیوں میں کوشش کے باوجود کوئی رومانس نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ حتیٰ کہ قائد عوام تو ایوان کے اندر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ وہ رواج ہی ختم ہو گیا‘ جب قائد ایوان جوابدہی کے لئے اراکین اسمبلی کے سامنے آتے۔ آج کل کے قائد ایوان صرف اس دن ایوان میں آتے ہیں‘ جس دن ان کی خطرے میں آئی ہوئی کرسی کو بچانے کا سوال ہو۔ ایسے مواقع پر ممبروں کو گھروں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جاتا ہے اور اگر مطلوبہ رکن کے گائوں میں تیزرفتار ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ ہو‘ تو خصوصی طیارہ بھیج کر اسے بلا لیا جاتا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہر ممبر درخواستوں سے بھری فائلیں بریف کیس میں ڈال کر‘ دوچار دن پہلے ہی اسلام آباد آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ قائد ایوان سے کسی طرح ملاقات کا وقت مل جائے‘ تو وہ گھر یا دفتر کے اندر ہی چپکے سے تخلیے میں اپنے کام کرا لے‘ورنہ اسمبلی چیمبر میںدرخواست پر دستخط کرائے جائیں‘ تو اسے سرگوشی میں حکم دیا جاتا ہے کہ فائلیں بریف کیس کے اندر بند کر کے نکلنا‘ ورنہ فلاں ممبر باہر کھڑا ہے اور اگر اس نے تمہاری درخواست پر لکھا ہوا حکم دیکھ لیا‘ تو پھر وہ میری جان کو آ جائے گا۔ آج کل کی اسمبلی کے مناظر ہی اور طرح کے ہوتے ہیں۔ جس نے میری طرح پرانے زمانے کی اسمبلیاں دیکھی ہوں‘ اسے آج کی اسمبلیاں دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے ہر پرانے رپورٹر کی نگاہ ایک ایک رکن پر ہوتی ہے اور جیسے ہی وہ موقع پا کر بولنے کا وقت لیتا ہے‘ تو بعض پرانے رپورٹر یہ تک بتا دیتے ہیں کہ فلاں دفتر میں اسے یہ کام ہے اور یہ صاحب کو خوش کرنے کے لئے انتہائی عرق ریزی سے چنے ہوئے خوشامدانہ الفاظ میں درحقیقت یہ التجا کر رہا ہے کہ اس کا کام کر دیا جائے‘ ورنہ ہو سکتا ہے اس کی روح ابھی قفس عنصری سے پرواز کر جائے۔ لبوں پر الفاظ کچھ بھی ہوں‘ اس کے چہرے پر یہی لکھا ہوتا ہے ''حضور والا! اگر میرا کام نہ ہوا‘ تو میں آج رات فوت ہو جائوں گا۔‘‘ قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کے درمیان عمدہ تقریروں کا آخری مقابلہ محترمہ بے نظیر شہید اور نوازشریف کے درمیان دیکھنے کو ملا تھا۔ جب دونوں طرف کے اہل فہم اور اہل ذوق کو لطف آیا تھا اور لیڈروں سے لے کر عام اراکین تک‘ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے۔ جی ہاں! تب ایسا ہوتا تھا۔ لیڈر باہمی تعلقات میں تمام تر تلخیوں کے باوجود‘ ایک دوسرے کو خوش اخلاقی سے ملتے اور اسی طرح دونوں طرف کے بنچوںپر بیٹھنے والے بھی اپنے اپنے لیڈروں کے سامنے معانقے کرتے۔ حزب اختلاف کا رکن‘ قائد ایوان کی تقریر کی تحسین کر دیتا اور قائد ایوان کاحامی قائد حزب اختلاف کی تقریر کے متاثر کن حصوں کی تحسین کرتا۔ تمام اراکین اپنا وقت آنے پر دوران تقریر‘ دوسرے فریق کے اراکین کی تقریروں کے اچھے نکات کو دہرا کر‘ ان کی تعریف بھی کر دیتے اور انہیں اپنے لیڈر کی طرف سے کسی غم و غصے کا اندیشہ نہ ہوتا۔
گزشتہ روز سپیکر کے مہذب اور شائستہ انتباہ کے بعد بھی قائد ایوان کے پرستار‘عمران خان کی تقریر میں مخل ہونے کی فدایانہ کوشش کرتے‘ جنہیں سپیکر کو سختی سے منع کرنا پڑا۔ ایوان کا یہ اجلاس کسی خاص موضوع پر نہیں تھا۔یہ ایک عام اجلاس تھا‘ جس میں تحریک انصاف نے تحریک التوا پیش کر رکھی تھی۔یہ سپیکر کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ چاہتے تو اس تحریک التوا پر بحث کرنے کی اجازت دیتے ورنہ کسی بھی اور تحریک التوا پر بحث شروع کرا سکتے تھے۔ لیکن سپیکر ایک سمجھ دار انسان ہیں اور سیاسی ماحول کی گرماگرمی کا انہیں اچھی طرح احساس تھا۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ بھاپ کو بند رکھنے کی کوشش کرتے‘ انہوں نے پہلے ہی ڈھکنا اٹھا دیا‘ تاکہ جس کا جو غبار ہے‘ دل کھول کر نکال لے اور کل کا غبار ‘ پاناما لیکس کے حوالے سے تھا۔ جن میں ہمارے وزیراعظم کے خاندان کا تذکرہ تھا اور حزب اقتدار کے ''وفادار اراکین‘‘ بے تاب تھے کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘ عمران خان کے خلاف بڑھ چڑھ کراپنے کینے کا یوں اظہار کریں کہ قائد ایوان کا دل ٹھنڈا ہو جائے۔ وہ بہت تیاریاں کر کے آئے تھے۔ افسوس کہ سپیکر نے کسی کے جذبات کا خیال نہ کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ہر کسی کو بے لگام نہیں چھوڑیں گے۔ جو رکن بھی بولنا چاہے‘ اسے موقع محل کی نسبت سے‘ ایوان کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے بولنا ہو گا۔ عمران خان کی تقریر میں بے موقع مداخلت کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔ بس پھر کیا تھا؟ عمران خان ایک ماہر پارلیمنٹیرین کی طرح اپنے نوٹس کی مدد سے بڑھ چڑھ کر بولے اور خوب بولے۔ پاناما لیکس کا پنڈورا بکس ابھی صرف کھلا ہے اور ساری دنیا کے حکمران طبقے پریشان ہیں۔ اس پنڈورا بکس میں سے ہر روز کوئی نہ کوئی نیا سکینڈل باہر نکلے گا اور ہم ایسے ہی دن دیکھا کریں گے۔ تو خواتین و حضرات! دیکھتے رہیے!