تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     09-04-2016

کالی کمائی کے کارندوں سے امید

بیرونی ممالک میں چھپے کالے دھن کے بارے میں ''پاناما پیپرز‘‘ نے ایسا تہلکہ مچایا ہے کہ اس نے 'وکی لیکس‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ یہ بڑا بھانڈا پھوڑ کام کسی سرکار نے نہیں کیا ہے۔ یہ بھارت سرکار کے لیے تو اور بھی بے شرمی کی بات ہے‘ کیونکہ چناؤ کے دوران بھاجپا کے لئے کالا دھن کافی بڑا مُدّا تھا۔ سرکار نے بیرونی ممالک میں چھپے کالے دھن کو پکڑنے کے لیے کئی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں‘ اور وزارت خزانہ کے سیکڑوں ملازم اسی کام میں لگے ہوئے ہیں‘ لیکن کالے دھن کے اس چھپے خزانے کو اجاگر کیا ہے 'انڈیا ایکسپریس‘ اور دنیا کے دیگر 370 صحافیوں نے۔ ہمارے ملک میں دفاتر میں رہنے والے ملازمین سے خبر دینے والے صحافی زیادہ کارآمد ثابت ہو رہے ہیں‘ لیکن بھارت ہی نہیں دیگر عظیم طاقتیں اور بڑی جمہوریت کہلوانے والے ملکوں میں بھی وہاں کے اخباروں نے وہاں کی سرکاروں کو مات دے دی ہے۔
جو کالی فہرست سامنے آئی ہے‘ اس میں بھارت کے پانچ سو سے بھی زیادہ نام ہیں لیکن تعجب ہے کہ کسی بڑے لیڈر یا پارٹی کا نام کیوں نہیں ہے؟ ایسا اس لئے تو نہیں کہ لیڈر حضرات کافی چالاک ہوتے ہیں۔ وہ اپنا پیسہ دوسروں کے نام سے چھپا رکھتے ہیں۔ دوسرے صرف پیسہ چھپاتے ہیں‘ یہ لیڈر پیسہ اور نام دونوں چھپاتے 
ہیں۔ ہمارے لیڈروں کے مقابلے روس‘ چین‘ برطانیہ‘ پاکستان‘ مصر اور آئس لینڈ وغیرہ کے لیڈر ذرا کچے کھلاڑی معلوم پڑتے ہیں۔ ان کے نام ساری دنیا میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ وہ سب ان خبروں کو بے بنیاد بتا رہے ہیں۔ کچھ لیڈروں اور ہمارے کچھ تاجروں نے اپنی فیور میں دوٹوک دلائل بھی دیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ پاناما میں کھلے ان کے کھاتے پُر اعتراض نہ ہوں۔ پچھلی سرکار نے بیرونی کھاتوں کے لیے طرح طرح کی چھوٹیں بھی دے رکھی تھیں۔ اس لئے یہ اچھا ہوا کہ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو کریڈٹ دیتے ہوئے فوراً جانچ کمیٹی بٹھا دی ہے۔ امید ہے یہ کمیٹی کام کر کے دکھائے گی۔ صرف رپورٹ آنا ہی کافی نہیں ہو گا۔ بیرونی کھاتے صرف انہیں لوگوں کے نہیں ہوتے جنہوں نے تجارت یا صنعت سے سچ مچ پیسے کمائے ہیں‘ بلکہ ان لیڈروں‘ مجرموں‘ دہشت گردوں اور دلالوں کے بھی ہوتے ہیں‘ جن کی کمائی سچ مچ کالی ہوتی ہے۔ یہ کالی کمائی وطن سے غداری سے کم نہیں۔ اس کی سزا میں صرف پیسہ ضبط کرنا کافی نہیں بلکہ ان مجرموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ان کی اور ان کے خاندان کی ساری ملکیت کو ضبط کیا جانا چاہیے اور ان کے گناہ کے بدلے انہیں عمر قید کی سزا دینی چاہیے۔ کالے دھن سے چلنے والے سیاست دانوں کے کارندے پتا نہیں ایسے معاملات میں کچھ کر پائیں گے یا نہیں؟
نتیش کمار کا شراب بندی مشن
آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو میں پٹنہ میں ہوں۔ بہار ہندی اجلاس کا (73واں اجلاس) ہو رہا ہے لیکن میرا دھیان آج یہاں جس بات نے کھینچا ہے‘ وہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی شراب بندی ہے۔ یہ عجیب کام ہے‘ بھارت کی تاریخ میں ایسا زبردست کام شاید پہلی بار ہو رہا ہے۔ شہنشاہ اشوک‘ چندر گپت موریہ اور ہرش وردھن کے دور میں بھی ایسی شراب بندی کی بات میں نے نہیں پڑھی۔ اسلام میں تو مکمل شراب بندی ہے لیکن کسی ترک مغل یا پٹھان بادشاہ نے بھی ایسی ہمت نہیں دکھائی‘ جیسی نتیش دکھا رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے دوست سونام دھنیہ کپوری ٹھاکر جی نے بھی ایسی کوشش کی تھی‘ اس بہار میں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔ نتیش کی کوشش بھی کامیاب ہو گی یا نہیں‘ یہ کہنا ذرا مشکل ہے لیکن جس ہمت سے انہوں نے یہ شراب بندی مشن چلایا ہے‘ وہ ملک کے وزیر اعظم اور سبھی وزرائے اعلیٰ کے لیے مثال ہے۔ ملک کے سبھی شرابیوں کی بیویاں نتیش کمار کی حمایت کریں گی۔ یہ عورتوں کی طاقت کا زبردست آغاز ہو گا۔
یکم اپریل اس مشن کا پہلا دن تھا۔ سات لاکھ لٹر شراب کو نالے میں بہایا گیا۔ سارے ایم ایل ایز اور وزرا نے شراب نہ پینے کا عزم کیا ہے۔ اس طرح کا عزم سبھی سرکاری ملازم بھی کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس عزم یا وعدے کا پالن بھی اس طرح سے ہو گا‘ جس طرح سے وزراء کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ جو بھی ہو‘ کم از کم ظاہری طور پر ایک ماحول تو بنا ہی ہے۔ ماحول تو ایسا بنا ہے کہ بہار کے گائوں میں شرابی لوگ اپنی زندگی میں پہلی بار بے بس ہو گئے۔ کسی بھی گائوںمیں کل ایک بھی بوتل نہیں بکی۔ ہزاروں لوگوں نے شراب کے خلاف صبح سویرے ریلیاں نکالیں‘ جلوس نکالے اور تقاریر کیں۔ شہروں میں انگریزی شراب کی اجازت تھی لیکن وہاں بھی ان کی ہڑتال سی ہو گئی۔ نتیش نے قانون بنایا ہے کہ دیسی شراب یعنی ٹھرا بنانے والے‘ بیچنے والے اور پینے والے کو سزا ہو گی۔ لیکن یہ قانون ابھی ادھورا ہے۔ ابھی انگریزی شراب کی شہروں میں خرید و فروخت ہو گی۔ گائوں میں اس پر پابندی ہے۔ یہ پابندی لاگو کیسے ہو گی‘ سمجھ میں نہیں آتا اور یہ بھی سمجھنا مشکل ہے کہ انگریزی شراب کی فروخت دگنی یا چوگنی کیوں ہو جائے گی؟ وہ مہنگی ہے تو لوگ کم پیئیں گے لیکن پیئیں گے ضرور۔ شاید آہستہ آہستہ نتیش انگریزی شراب پر بھی پابندی لگا دیں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انگریزی شراب کی‘ لابی اتنی طاقتور ہے کہ وہ کپوری جی کی طرح نتیش کے مشن کو بھی ناکام کرنے کی کوشش کریں۔ یوں بھی ابھی شراب بندی کے سبب بہار سرکار کو تقریباً 35 ہزار کروڑ روپیہ کا نقصان ہو گا۔ اسی ٹیکس کے نقصان کے ڈر سے دیگر صوبے بھی نشہ پر پابندی جم کر لاگو نہیں کرتے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر شراب بندی ہو جائے تو صوبوں کو لاکھوں کروڑ روپیہ کا فائدہ ہونے لگے گا۔ ملک کی کی صحت‘ تعلیم اور تربیت کی صلاحیتوں میں کافی زبردست ترقی ہو گی لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک میں شراب بندی کے لیے بہتر ماحول تیار کیا جائے۔ نتیش کو شاباشی اس بات میں ہے کہ وہ یہ دونوں کام ایک ساتھ کر رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved