تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     09-04-2016

متفرقات

پاناما لیکس: وکی لیکس کے بعد اب پاناما لیکس کا شوروغوغا ہے، غلغلہ ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔اِسی طرح کی کیفیت وکی لیکس کے انکشافات کے موقع پربرپا ہوئی تھی، لگتا تھا کہ جنابِ آصف علی زرداری کے لیے :''دل کا جانا ٹھہر گیا ہے ،صبح گیا یا شام گیا‘‘، لیکن وہ اس صدمے کو سہہ گئے اور اپنے اقتدار کا دورانیہ پورا کرلیا ۔ اب اُن کی جماعت اور وہ اِسے اپنا افتخار واعزاز قرار دے رہے ہیں۔کچھ اسی طرح کی صورتِ حال پاناما لیکس کی ہے ،میڈیا پر حد درجے شور شرابا ہے ،وزیرِ اعظم نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کا اعلان بھی کیا ہے،لیکن اپوزیشن نے بلا تاخیر وتردُّد اُسے رد کردیا ۔باخبرحلقے کہتے ہیں کہ وکی لیکس کی طرح اس کے بطن سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوگا ،کیونکہ کمیشن کوقانون کے دائرے میں رہ کر کام کرناہوتا ہے اور وہ محض قانونی ضابطوں اور Terms of Referenceیعنی حکومتِ وقت کی طے کردہ حدود وقیود کا پابند ہوتا ہے ۔لہٰذا خدانخواستہ کسی دوسرے سانحے یا حادثۂ فاجعہ یا سکینڈل کے رونما ہونے تک یہ شورشرابا چلتا رہے گا ،کیونکہ بحیثیتِ مجموعی یہ ہمارے میڈیا کی ضرورت ہے اور ماہرین کے لیے نکتہ آفرینیوں کا سنہری موقع۔یہ بات تقریباً طے ہے کہ قانونی بحث کے بعد اس کے بطن سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا، البتہ وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کی اخلاقی حیثیت یقینا مجروح ہوچکی ہے اور اس میں دو آراء نہیں ہیں۔اس سوال میں بھی کافی وزن ہے کہ جب وزیر اعظم نواز شریف غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں ،تو اس دعوت میں اُن سرمایہ کاروں کے لیے کوئی اپیل ،کشش اور ترغیب کا سامان نہیں ہوتا، کیونکہ اُن کا اپنا عمل اس کے برعکس ہے ،سو رول ماڈل بننے کے لیے اُن پر لازم ہے کہ اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کریں تاکہ اُن کی اخلاقی حیثیت مستحکم ہو۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے ،اُن میں وحدتِ فکر اور اشتراکِ عمل کی کیفیت عارضی ہے ،اس لیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دامن بھی صاف نہیں ہے اور اس طرح کی کسی بھی تحقیقاتی فورم پر اُن کا حوالہ آنا ناگزیر ہے ۔انہیں لینے کی بجائے دینے بھی پڑ سکتے ہیںاور دوسرے کی عزت لوٹنے کی بجائے چوراہے کے بیچ اپنی عزت برباد کرنے کی نوبت بھی آسکتی ہے،شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
گر کند میل بہ خُوباں دلِ مَن ،عیب مَکُن
کاین گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
ترجمہ:''اگر میرا دل محبوب کے عشق میں گرفتار ہے ،تو اس پر طعن وتشنیع نہ کرو ،کیونکہ یہ وہ گناہ ہے کہ جو( آئے دن) آپ سے بھی سرزد ہوتا رہتا ہے ‘‘، یعنی اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کسی کا دامن بھی پاک نہیں ہے ۔
سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے خفیہ اکائونٹس اور آف شور کمپنیوں کی بات تو چھوڑیے ! دوبئی اور امارات میں پاکستانیوں کا جو اربوں ڈالر کا سرمایہ اور کاروبار کا نیٹ ورک ہے ،کیا یہ دولت وہاں قانونی ذرائع سے منتقل ہوئی ہے ۔وہاں تو سابق صدور آصف علی زرداری اورجنرل (ر)پرویز مشرف سمیت سب کے جوعالی شان محلّات اور جائیدادیںہیں ،اُن کی مالیت ناقابلِ تصور ہے ۔کاش کہ ہم کسی صبح بیدار ہوں تو اچانک یہ خبر سننے کو ملے کہ اِن سب موجودہ اور سابق مقتدرین اور دیگر اہلِ ثروت کا ضمیر بیدار ہوگیا ہے اور وہ اپنا سب سرمایہ منافع سمیت پاکستان منتقل کر رہے ہیں ،لیکن اس کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے ،حقیقت کی دنیا میں اس خواب کی تعبیر اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی بہت کم لوگ ہوں گے جو سو فیصد شفافیت کے معیار پر پورا اترتے ہوں ،سو :ایں ہمہ خانہ آفتاب است۔ ہمارے نزدیک سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف اور موجودہ حکمران حدودِ الٰہی کو پامال کرنے کے باعث اللہ کی گرفت میں آئے۔ عالَمِ اسباب کے تانے بانے تو سب کونظر آتے ہیں ،لیکن ماورائے اسباب قدرت کے فیصلوں اور ان کی حکمتوں کو سمجھنے کے لیے دیدۂ دل اور چشمِ بصیرت کا وا ہونا ضروری ہے۔
جنابِ عمران خان کا دردِدل سب سے جدا ہے ،وہ 2011ء میں مینارِ پاکستان پر جلسۂ عام کے دن سے اپنے آپ کو وزیرِ اعظم پاکستان دیکھ رہے ہیں۔لیکن یہ حقیقت عالم الغیب اللہ عزوجل ہی کو معلوم ہے کہ اُن کا یہ خواب کبھی اپنی تعبیر پاسکے گا یا نہیں؟،بہرحال اُن کی طلب اور اضطراب دیدنی ہے۔ انہوں نے قوم کویہ بشارت سنائی ہے کہ ڈی چوک کی قسمت جاگنے والی ہے،ایک بار پھر وہاں بزمِ خوباں سجے گی اور قوم کو وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے کچھ فلسفیانہ خطابات سننے کا موقع پھر نصیب ہوگا۔ اگرچہ چوہدری صاحب نے کہا ہے کہ اب وہ ڈی چوک کو آہنی فصیلوں سے محفوظ کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں تاکہ کوئی سکندرِ اعظم آئندہ اسے فتح نہ کرسکے۔لیکن ہمیں انتظار کرنا پڑے گا کہ آیا متوقع دھرنے سے پہلے یہ آہنی فصیلیں تیار ہوسکیں گی یا نہیںاوریہ فصیلیں نصب ہونے کی صورت میں کوئی فاتحِ عالَم انہیں عبور کرپائے گایا نہیں؟۔جنابِ عمران خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کو کوئی قبول نہیں کرے گا ،تو سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے قومی انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور حاضر سروس ججوں کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو کبھی دل وجان سے قبول کیا ہے ۔
بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن بھی متحرک نظر آئے ،لیکن اُن کاحرکت میں آنا صرف اپنی حریف جماعت کے لیے ہے ، اپنی جماعت کے بارے میں تو شاید وہ خواب میں بھی نہ سوچ سکیں ،کیونکہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں اردو محاورے کے مطابق فرشتوں کے بھی پَرجلتے ہیں ،یعنی اُن کے لیے اس وادی میں قدم رکھنا اپنی سیاسی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔البتہ تھانیدار والا پنجابی لطیفہ شاید انہیں پارلیمنٹ میں پھر سنانا پڑے ،کیونکہ وزیرِ اعظم اور اُن کی کابینہ کے وزراء عام حالات میں پارلیمنٹ کو پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے ،لیکن جب کوئی اُفتاد آپڑتی ہے تو اِسی پارلیمنٹ کی چھتری تلے پناہ لینے چلے آتے ہیں ۔ہم نے 2002ء سے اب تک آئینی ترامیم سمیت کسی قومی مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی سنجیدہ اور ذہن کے دریچوں کو کھولنے والی فکری بحث نہیں سنی ،ہماری پارلیمنٹ بس ایک ڈبیٹنگ کلَب ہے ،مگر اُس کے مظاہر بھی خال خال دیکھنے کو ملتے ہیں ،عام حالات میں تو سینیٹ اور قومی اسمبلی کا کورم بھی پورا نہیں ہوتا ۔
زبان وبیان:ہماراالیکٹرانک میڈیا سپر سانک رفتار سے چل رہا ہے ،اُس کے پاس رُک کر سوچنے اور غوروفکر کرنے کے لیے مہلت نہیں ہے ۔ اس تیز رفتاری میں زبان وبیان پر غور کرنے کا وقت کس کے پاس ہے ۔حال ہی میں انڈین انٹیلی جنس ادارے راکا ایجنٹ پکڑا گیا،اس ادارے کا اصل نام Research and Analysis Wingیعنی ''شعبۂ تحقیق وتجزیہ ‘‘ہے اور اس کا اس کامُخَفَّف RAWہے۔ را کا ایجنٹ انڈین نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ''کلبھوشن یادو‘‘بلوچستان میں پکڑا گیا ہے۔اس نام کو ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں جدا کر کے ''کَل بھوشن ‘‘لکھا گیا، حالانکہ اِسے ملا کر لکھا جانا چاہیے تھا،اِسی طرح اُس کے نام کا حصہ ''یادو‘‘ہے ،اِسے ہمارے ہاں ''یادیو‘‘لکھا جاتا ہے ،جیسے انڈیا کے ایک سیاسی رہنما ''لالوپرساد یادو‘‘کو ہمارے ہاں ''لالوپرشاد یادیو‘‘لکھا جاتا ہے، یہ غلط فہمی اس لیے لاحق ہوجاتی ہے کہ یادو کوانگریزی حروفِ تہجی میں Yadavلکھاجاتا ہے اور اُسے ہمارے حضرات یادیو تلفظ کر کے پڑھتے ہیں۔سری لنکا کے ایک کرکٹ کھلاڑی کا نام ''دلیپ ونگ سارکر‘‘تھا ،کرکٹ پر رواں تبصرہ کرنے والے ہمارے مُبَصِّر ''سارکر‘‘ کا تلفظ ''سرکار‘‘ کرتے تھے اوراسی طرح سری لنکا کے عالمی ریکارڈ کے حامل بولرمُتیّہ مورالی دھرن تھے، انہیں یہ حضرات مُرلی دھرن کے نام سے پکارتے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا میں تراجم اور زبان وبیان کی تصحیح وتنقیح کے لیے کوئی شعبہ نہیں ہے ۔
زبان وبیان کی چاشنی کے لیے جب بھی موقع ملتا ہے،میں جناب عبداللہ طارق سہیل کا کالم ضرور پڑھتا ہوں ،انہیں ہندومت کے اُسطوری اور افسانوی مذہبی شخصیات وروایات (Mythology) پر پورا عبور ہے۔انہوں نے لکھا :چند روز پہلے مصر کے جزیرۂ سینا میں کسی جگہ عوامی مزاحمتی گروپ نے پولیس چوکی پرحملہ کیا اور اٹھارہ افراد مارے گئے،جزیرہ نما کو انگریزی میں ''Peninsula‘‘کہتے ہیں ۔فاضل مترجم نے ''Peninsula‘‘ کا ترجمہ جزیرہ نما سینا کرنے کی بجائے لکھا :مصر کے مقام ''پینن سولا‘‘پر مقبول مزاحمتی گروپ کا حملہ‘‘۔مترجم نے ''Papular‘‘کا ترجمہ بھی عوامی کی بجائے مقبول کیا۔ٹیلی ویژن اسکرین پرتُرکی کے ایک معروف شہر ''دیارِبکر‘‘میں بم حملے کی بابت ٹِکر چل رہا تھا ،اُس میں ''دیارِ بقر‘‘لکھا ہواتھا۔ سو ہمارے ہاں اب صحافت اور ابلاغ کا معیار اِس حد تک انحطاط کا شکار ہے۔
کرکٹ کا زوال: ہمارے ہاں کرکٹ کبھی ایک مقبول ترین کھیل تھا، اب یہ زوال کا شکار ہے ۔اس زوال کے مِن جملہ اسباب میں ہمارا میڈیا بھی شامل ہے ۔اگر برسوں میں کبھی کسی ایک میچ میں کوئی بلے باز یا گیند بازکھلاڑی کوئی کارنامہ انجام دے دے ،تومیڈیا اُس کی تعریف اور شان بیان کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے اوروہ سماں باندھتا ہے کہ ''الامان والحفیظ‘‘۔یہ شاید میڈیا کی مجبوری اور کاروباری ضرورت ہوتی ہے ، لیکن اس کا منفی اثریہ پڑتا ہے کہ کھلاڑی خوش فہمی اور تعلّی کا شکار ہوجاتا ہے ،پھر وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ یا ٹیم مینجمنٹ یا کوچ یا کپتان کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں رہتا، ''پدرم سلطان بود‘‘ کی بھی اُسے ضرورت نہیں رہتی ۔در اصل کرکٹ ایک صنعت کا روپ دھار چکی ہے، اس کو پروموٹ کرنے میں میڈیا، صنعت کاروں اورسرمایہ داروں کا بڑا حصہ ہے ،دونوں کا کاروباری مفاد انہیں آپس میں اشتراکِ عمل پرابھارتا ہے۔بڑی آبادی کا ملک ہونے کی وجہ سے انڈیاکرکٹ کی سلطنت کا سلطان بنا ہوا ہے ۔در حقیقت اصل چیز سکرین ویلیو ہے ، کرکٹ کے کھلاڑی کو سکرین پر پورے ٹھہرائو ،ادائوں اورنازوانداز کے ساتھ سب سے زیادہ نمود کا موقع ملتا ہے،جب کہ دوسری کھیلوں کے کھلاڑی محدود وقت کے لیے ہانپتے کانپتے اور پسینے میں شرابور نظر آتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved