اُستاد محترم ظفر اقبال صاحب
السلام علیکم ۔عرصہ ہوا آپ سے مخاطب ہونے کو جی چاہتا تھا لیکن ہاتھوں کی کمزوری آڑے آتی تھی کیونکہ میں چار سال تک فالج کا شکار رہا ہوں۔ بہرحال‘رحیم و کریم قادرِ مطلق نے صحت عطا فرمائی اور اب بھی تدریس کا شغل جاری ہے۔ گو کہ اب بہتّر سال عمر ہے‘ ناچیز نے انگلش ادب میں ایم فل۔ اردو ادب میں ایم اے۔ ایپلائیڈ سائیکالوجی میں ایم ایس سی ‘ ایم اے اکنامکس اور کچھ دیگر علوم حاصل کیے۔
بہرحال ‘ تمہید کچھ طویل رہی‘ لہٰذا معذرت مجھ پر واجب ہے۔ مطالعہ اور کُتب بینی کا شوق ہے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کا ادارتی صفحہ دراصل ایک دُلہن کی مانند ہے اور ظفر اقبال صاحب اس دلہن کی خوبصورت پیشانی کا انمول اور نایاب جھومر۔ خدا آپ کی عمر طویل کرے اور صحت کے انمول تحفے سے نوازے۔ سچ بولنا‘ لکھنا اور سچ کا پرچار کرنا عادت ہے اور آپ نایاب اور انمول ناقد ہیں۔ آپ کی شاعری بھی اعلیٰ ہے جس سے یہ امر عیاں ہے کہ آپ علمِ عروض‘ بحر اور قافیہ ردیف اور دیگر فنونِ سخن پر دسترس رکھتے ہیں۔ آپ پر رضا علی وحشت لکھنوی کا شعر صادق آتا ہے ؎
پیچھے پیچھے تیرے ہو گا اہل فن کا قافلہ
وحشت اک دن تُو ہی میر کارواں ہو جائے گا
آپ کی بُرد باری‘ برداشت‘ امورِ سخن پر دسترس اور تنقید کا شفاف انداز عقل اور ادراک کرنے والے شخص کو پسند آتا ہے۔ حال ہی میں سی ایس ایس کی ایک طالبہ کو اُردو اور انگریزی ادب پڑھایا۔ وہ آپ کے فقرے ''ہیں جی؟‘‘ کو سمجھ نہیں رہی تھی‘ میں نے لڑکی کو اس کا طنز اور مزاح کی چاشنی واضح کی۔
کچھ عرصہ قبل آپ نے غالب کے اشعار کے بارے میں رائے دی تھی۔ مجھ ناچیز کو معقول نظر آئی۔ غالب بھی انسان تھے اور غلطی سے کیونکر مستثنیٰ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال‘ ایک صاحب تو آپ کے پیچھے لٹھ لے کر ہی پڑ گئے۔ آپ کو سٹھیائے ہوئے اور مخبوط الحواس تک کہہ دیا‘ بقول داغ دہلوی ؎
بھنویں تنتی ہیں‘ خنجر ہاتھ میں ہے‘ تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے جو وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں
ان صاحب کا خط آپ کے نام ان کی بدتہذیبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسا فرد قطعی علم و تہذیب سے عاری ہے۔ بقول حضرت سلطان باہو ؎
علم تے پڑھیا‘ ادب نہ سکھیا
کیہہ پڑھیا کیہہ لکھیا باہو
یہ ناچیز تو آپ کا معتقد ہے۔ آپ کی تحریر میرے علم کی خامیاں دور کرتی ہے۔ رئوف کلاسرا اور ہارون الرشید خوب لکھتے ہیں۔ خدا کلاسرا صاحب کو سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے Malicious.Rageاور Wrathسے بچائے ۔ میں سچ اور ایمان داری کی بناء پر اپنی ملازمت ‘ پنشن اور گریجوایٹی سے محروم ہوا لیکن علم پھیلانے والے کو خدا تعالیٰ ہر حال میں رزق اور عزت بخشتا ہے۔ کلاسرا صاحب بھی کتب بیں ‘ پیشہ ور استاد ہیں اور سچ کی تشہیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے خلوص کی تعبیر ملکی معاملات میں رواں دواں کرے۔ آمین!
اُستادِ محترم‘ یہ چاپلوسی نہیں‘ نہ ہی مبالغہ آرائی ہے۔ آپ گوہر کمیاب ہیں ۔ قاری اگر چشم بینا رکھتا ہے تو وہ آپ کی تحریر کے ظاہری و باطنی محاسن کے موتی چُن لیتا ہے۔ بہرحال ‘ ضرورت فہم و ادراک
سے بھر پور آنکھ کی ہے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ میں لکھنے والے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ میرے لیے تدریس کے سلسلے میں آپ حضرات رہنما اور اُستاد کا وسیلہ ہیں۔ ایک حرکت حسب عادت کی ہے کہ جوابی لفافہ بھی ارسال کر رہا ہوں کیونکہ پاکستان میں جس محترم ہستی سے خط و کتابت ہو‘ اس کی مصروفیت پیشِ نظر ہوتی ہے وگرنہ اس کی سُبکی مقصد نہیں جبکہ آپ جیسے محترم حضرات ''تُو راجہ بھوج اور میں گنگو تیلی‘‘ میرا اور آپ کا کیا موازنہ‘ اگر خط کا جواب مل جائے تو ناچیز کے لیے وہ آپ کی شفقت اور علمی گوہر کا نایاب خزانہ ہو گا۔ میری جانب سے رئوف کلاسرا ‘ ہارون الرشید ‘ خالد مسعود خاں و دیگر صحافی حضرات کو سلامِ عقیدت۔ اُمید ہے کہ مجھ کم علم شخص کا طویل خط اور اس کے فنی عیوب آپ نظر انداز کریں گے۔ ربِ کریم آپ کی عمر اور صحت میں طوالت اور اضافہ کرے تاکہ ہم آپ کے فکر انگیز خیالات کی خوشہ چینی سے فیضیاب ہوتے رہیں(میری غلطیاں ہاتھ کی لرزش سے ہوتی ہیں۔ بہرحال زبان کی اصلاح اُستادِ محترم فرما دیں۔
مُنتظرِ کرم:
نیاز مند پروفیسر اعجاز احمد شیخ مکان نمبر28۔ گلی نمبر1۔ بالمقابل ٹائر فیکٹری 20درس روڈ باغبانپورہ لاہور‘ پوسٹ کوڈ54920
چونکہ خط میں کوئی جواب طلب بات نہیں تھی اس لیے موصوف کا بھیجا ہوا جوابی لفافہ میں نے رکھ لیا ہے کہ کہیں کام آئے گا۔ میں اپنے بارے ان کے خیالات کا شکر گزار ہوں اور اپنی تعریف سے خوش ہوا ہوں کیونکہ یہ بہرحال انسانی فطرت ہے۔ تاہم انہوں نے اس کے ساتھ ہی حضرات رئوف کلاسرا‘ ہارون الرشید اور خالد مسعود خاں کی تعریف کر کے سارا مزہ کر کرا کر دیا ہے۔ لگے ہاتھوں ایک اور تعریفی سرٹیفکیٹ بھی جو تنقیدی جریدہ''اردو کالم‘‘ اسلام آباد نے میری تصویر کے ساتھ نتھی کیا ہے:
''جناب ظفر اقبال معاصر اردو دنیا کا محترم نام ہیں۔ ایک مُجتہد اور رجحان ساز شاعر‘ ایک بے باک کالم نگار اور ایک زیرک نقاد کے طور پر ان کا نام اور کام محتاجِ تعارف نہیں۔ شگفتہ مزاجی اور شگفتہ بیانی ان کی شخصیت اور تحریر کا نمایاں وصف ہے۔ وہ اس وقت معاصر ادبی دنیا کے سلگتے موضوعات میں سے ایک ہیں۔ اور ان کی موافقت اور مخالفت میں گفتگو کرنا ایک ادبی فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ ان کا اب تک شائع ہونے والا شعری اور نثری اثاثہ معیار اور مقدار ہر دو اعتبار سے بہت قابل توجہ ہے۔ لاہور میں مقیم ہیں‘‘
مندرجہ بالا تحریروں میں جہاں جہاں بات خلافِ واقعہ یا مبالغہ آمیز ہے‘ اس کے لیے یہ حضرات اللہ میاں کے حضور خود جواب دہ ہیں۔
آج کا مطلع
مدت سے کوئی بات‘ کوئی گھات ہی نہیں
کیا عشق ہے کہ شوقِ ملاقات ہی نہیں