پاکستانی سیاست کا یوم نجات وہ ہو گا جب ہم شعبدہ بازوں سے نجات پائیں گے۔ اقتدار جب درد مندوں کے سپرد کیا جائے گا۔گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
پانامہ لیکس کی بحث اپنی جگہ لیکن بیس بائیس کروڑ درماندہ انسان اس ملک میں بستے ہیں۔ کسی کو ان کی فکر بھی ہے یا نہیں، جو انصاف کو ترستے ہیں اور بہت سے تین وقت کی روٹی کو بھی۔ دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ نوکری کے لیے تعلیم یافتہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ عام آدمی بیمار ہو جائے تو علاج کا کوئی بندوبست نہیں۔ اکثر ان میں سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ پولیس خون آشام ہے اور پٹوار اس سے زیادہ۔ سرکاری دفتر میں کام آپڑے تو ایک عام پاکستانی بھکاریوں کی طرح دھتکار دیا جاتا ہے۔
دو تازہ ترین مثالیں ہیں۔ گلشن اقبال پارک کے زخمیوں کی اکثریت جناح ہسپتال میں داخل کرائی گئی۔ وزیر اعلیٰ نے حکم دیا کہ ہر زخمی کا مفت اور مکمل علاج کیا جائے۔ مکمل علاج سے مراد یہ ہے کہ دوا دارو کے علاوہ اگر آپریشن درکار ہو تو اس کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ اگر کسی بدقسمت کا گردہ ضائع ہو گیا ہے تو نیا گردہ ٹرانسپلانٹ کیا جائے۔ اگر جسم کا کوئی عضو ضائع ہو چکا، تو مصنوعی عضو کا بندوبست کیا جائے۔ ہسپتال کی انتظامیہ حیرت زدہ تھی کہ کیا کرے۔ پورے کا پورا بجٹ فروری کے آخر تک ختم ہو چکا تھا۔ ایک بڑا حصّہ وزیر اعلیٰ اور مشیرِ صحت کی فرمائشیں پوری کرنے پر۔ ان مفلسوں اور مجبوروں کے سوا، جن کے معاملات ٹی وی چینل نمایاں کر دیتے ہیں، بارسوخ افراد ان میں شامل ہوتے ہیں۔ شاہی خاندان، وزراء اور ارکان اسمبلی تک جو رسائی حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹروں نے ایک فنڈ قائم کیا۔ ہر اس شخص سے رابطہ کیا جو عطیات دے سکتا تھا۔ اس کالم میں فلاحی تنظیم کا پتہ اور اکائونٹ نمبر نقل کیا گیا۔ کالم کے آخر میں آج دوبارہ درج کر دیا جائے گا۔
ایک انگریزی اخبار کے صفحۂ اول پر مظفر گڑھ کی ایک خاتون کو پیش آنے والے درد ناک حادثے کی رپورٹ چھپی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مظفر گڑھ کی ایک سکیورٹی ایجنسی میں اس نے ملازمت اختیار کی۔ کمپنی کا سربراہ ایک دن اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اسے بتایا گیا کہ فرائض منصبی کے سلسلے میں ایک مادام اسے کچھ ہدایات دیں گی۔ وہاں اس کی آبرو ریزی کی گئی اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ خاتون کا الزام ہے کہ آٹھ ماہ سے جاری اس عمل میں پولیس افسر بھی شامل تھے۔ اس کی برہنہ تصاویر بنائی گئیں۔ مقامی پولیس سے گہرے مراسم رکھنے والے کمپنی کے سربراہ نے اسے بتایا کہ اگر اس نے کسی کو مطلع کرنے کی کوشش کی تو یہ تصاویر انٹرنیٹ پر جاری کر دی جائیں گی تا کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔علاقے کے تھانیدار نے بھی مبینہ طور پر اسے دھمکی دی کہ اگر اس نے زبان کھولی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔ اسی طرح کا ایک پیغام اسے فون پر بھی دیا گیا۔ دھمکانے والے نے بتایا کہ وہ مظفر گڑھ کا ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ درندگی کا شکار ہونے والی وہ تنہا نہیں۔ حوا کی اور بیٹیاں بھی ہیں جنہیں روندا اور برباد کیا گیا۔ چھپ چھپ کر وہ روتی ہیں اور کسی کو کچھ بتا نہیں سکتیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا کہ خدااس بستی کی حفاظت کا ذمہ دار نہیں، جہاں کوئی بھوکا سو رہا۔ پھر وہ بستیاں جہاں دن کی روشنی اور شبوں کی تاریکی میں درندے دندناتے ہوں؟۔ اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس صورتِ حال کے ذمہ دار نہیں تو بہت سی طبائع کو ناگوار ہو گا۔ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم سب ظلم گوارا کرتے ہیں۔
جب جب اسے سوچا ہے دل تھام لیا میں نے
انسان کے ہاتھوں سے انسان پہ کیا گزری
عام آدمی کا مسئلہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ امن و امان۔ ایسی پولیس جو اس کا تحفظ کرے۔ ایسی عدالت جو انصاف دے سکے۔ سرکاری دفتر میں اس کی تذلیل نہ کی جائے۔ پٹواری اس کے اوپر سے پائوں رکھ کر نہ گزر سکے۔ قدم قدم پر اسے ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے، 2002ء کا پولیس آرڈر بڑی حد تک اس کی ضمانت فراہم کرتا تھا۔ ملک کے بہترین پولیس افسروں نے برسوں کی عرق ریزی سے یہ قانون مرتب کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف اسے نافذ نہ کر سکے کہ 2002ء کے الیکشن سر پہ آ پہنچے تھے۔ اس قانون کے تحت پولیس افسروں کے تقرّر کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا تھا، جس میں میرٹ کو پامال نہ کیا جا سکے۔ کسی معقول وجہ کے بغیر تین سال تک وہ اپنے فرائض انجام دیتا رہے، بلا وجہ اس کا تبادلہ نہ کیا جا سکے۔ تحصیل سے لے کر صوبے کی سطح تک شہریوں کی نگران کمیٹیاں بنائی جائیں جو زیادتی کی ہر شکل کا سدّباب کریں۔ پولیس ایکٹ کی منظوری کے بعد پانچ برس تک چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ توخیر مارشل لاء کے نمائندے تھے۔ آٹھ برس سے اب عصر حاضر کے شیر شاہ سوری جناب شہباز شریف سریر آرائے سلطنت ہیں۔ اس قانون کو وہ اپنی روح کے ساتھ نافذ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟۔ گوجر خان کی تاریخ کے بہترین افسر کو دوماہ قبل اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ ایک ایم پی اے کی فرمائش پر جس پر دس بارہ سنگین مقدمات قائم ہیں۔ جعلی ڈگری کی وجہ سے جس کی رکنیت معطل ہے۔ جس پر الزام ہے کہ قصاص کے پچاس ساٹھ لاکھ روپے وہ ہضم کر گیا۔ وہ پولیس افسر جناب شہباز شریف کو گوارا نہیں، جس نے 20سے زیادہ خطرناک قاتلوں کو مار ڈالا۔ جس کے طفیل ایک پوری تحصیل میں جرائم کی شرح نصف سے بھی کم رہ گئی تھی۔ جس کا تبادلہ ہوا تو نون لیگ سمیت تمام سیاسی پارٹیوں، ساری سول سوسائٹی، تمام تجارتی انجمنوں اور بلدیاتی نمائندوں نے احتجاج کیا۔ انہیں وہ ایم پی اے عزیز ہے، جس نے بلدیاتی الیکشن میں نون لیگ کا علم بلند کرنے کا چکمہ دیا تھا، حالانکہ شہر کا شہر اب اس سے بیزار ہے۔
آٹھ برس ہونے کو آئے ‘وزیر اعلیٰ نے عدالتوں کو سدھارنے کے لیے کیا کیا؟ ہر چند ماہ بعد وہ اعلان کرتے ہیں کہ تھانہ کلچر بدل دیا جائے گا۔ ہر چند ماہ بعد وہ خوشخبری سناتے ہیں کہ پٹواری کے ظلم کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ چند ایک کمپیوٹر سنٹر ضرور قائم ہوئے ہیں۔ نتیجہ ان کا یہ ہے کہ رشوت کا کم از کم نرخ پانچ سو سے بڑھ کر پانچ ہزار ہو گیا ہے۔ کابینہ کو کبھی درخوراعتنانہ سمجھنے والے شہباز شریف کمپیوٹرائزیشن نہیں بلکہDigitilizationکر رہے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: مزدور کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی۔ پٹواری سے جب تک نجات نہیں ملے گی، کوئی فائدہ نہ ہو گا، ہرگز کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ مشینیں انصاف فراہم نہیں کیا کرتیں، آدمی کیا کرتے ہیں، اگر وہ کرنا چاہیں۔ پتھر کی بجائے اگر ان کے سینوں میں دل ہوں۔شعبدہ باز نہیں، اگر وہ جواب دہی کا احساس رکھنے اور خدا کی مخلوق سے محبت کرنے والے حاکم ہوں۔
20کروڑ کی ریاست بہار، بھارت میں غنڈوں کی سب سے بڑی آماجگاہ تھی۔ سینکڑوں فلمیں اس پر بنیں۔بدترین پولیس، نا اہل عدالتیں، کرپٹ افسر شاہی۔ دس برس پہلے نتیش کمار اقتدار میں آئے تو چند ماہ میں انہوں نے اسے بدل ڈالا۔ پولیس، عدالت، افسر شاہی، ہر ایک بہتر ہوئی اور بہت ہی بہتر۔ چھ برس میں ریاست کا بجٹ 4000کروڑ سے بڑھ کر 28000کروڑ ہو گیا۔ شہباز شریف صاحب کو کتنے برس درکار ہیں؟ کتنی صدیاں؟
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنار کریں
پینے کا صاف پانی حضور! پینے کا صاف پانی۔ یرقان سے خلقت مری جا رہی ہے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کی نگرانی، اچھی پولیس، اچھی عدالت، سرکاری دفاتر میں جوابدہی کا نظام۔ ٹیکس وصولی۔ ایسے ترقیاتی منصوبے جو قومی ضروریات کے مطابق ہوں۔ جن میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوں۔ دو طرح کے حاکم ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنا گھر بھرتے اور اپنی انا کو گنے کا رس پلاتے رہتے ہیں۔ ایک وہ جو خلقِ خدا کے لیے جیتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یوم نجات وہ ہو گا جب ہم شعبدہ بازوں سے نجات پائیں گے۔ اقتدار جب درد مندوں کے سپرد کیا جائے گا۔گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
پس تحریر:عطیات کے لیے ایڈریس:
Patients welfare society. Jinnah Hospital Lahore, Account Number: 12447900406301 Habib Bank Limited,Allama Iqbal Medical College Lahore
پیشنٹس ویلفیئر سوسائٹی۔ جناح ہسپتال لاہور
(اکائونٹ نمبر:1244790040630حبیب بنک لمیٹڈ۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور۔