تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-04-2016

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور اشتہار

آئی ایم ایف کے اشتراک سے پاکستان 
ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ نواز شریف
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ''آئی ایم ایف کے اشتراک سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘۔ البتہ ملک عزیز میرے اشتراک اور کوششوں سے آخری دموں پر لگتا ہے ‘اور جو پیدا ہو گا اسے ایک دن مرنا بھی ہو گا اور خدا کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا‘ اور‘ جہاں تک آئی ایم ایف کے اشتراک کا تعلق ہے تو اس کے قرضوں کی وجہ سے اب ہر بچہ لاکھوں کا مقروض پیدا ہو رہا ہے کیونکہ قرضے کا سارا پیسہ دیگر نیک کمائیوں کے ساتھ مل کر آف شور کمپنیوں میں جا رہا ہے جس سے عوام کو قناعت پسندی کی ترغیب حاصل ہو رہی ہے جبکہ آف شور کمپنیاں بھی اللہ کے حکم کے بغیر نہیں بنائی جا سکتیں اور اس کی مرضی کے بغیر اگر پتہ تک نہیں ہل سکتا تو اتنی بڑی کمپنیاں کیسے بن سکتی ہیں‘ کوئی بنا کر دکھا دے‘ ہیں جی؟آپ اگلے روز اسلام آباد میں کینیڈین ہائی کمشنر سے گفتگو کر رہے تھے۔
مخالفین قیامت تک بھی کرپشن ثابت کر دیں 
تو قبر سے نکال کر اُلٹا لٹکا دیں:شہباز شریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مخالفین قیامت تک بھی کرپشن ثابت کر دیں تو مجھے قبر سے نکال کر اُلٹا لٹکا دیں‘‘ بلکہ یہ کام اگر قیامت والے دن ہی کریں تو اور بھی اچھا ہے‘ بیشک ان کا اپنا حساب کتاب بھی شروع ہو چکا ہو گا لیکن ضروری کاموں کے لیے آدمی پھر بھی وقت نکال ہی لیتا ہے۔ نیز قبر سے ہڈیوں کو نکال کر لٹکانے سے مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا جبکہ اپنی اس مصروفیت میں انہیں کرپشن بھی ثابت کرنی ہو گی جبکہ ملک عزیز میں یہ واحد جرم ہے جو آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ ''جان دے دوں گا‘ اورنج لائن ٹرین میں کسی کو رکاوٹ نہیں ڈالنے دوں گا‘‘ کیونکہ خاکسار کی بھی تو گزر اوقات انہی منصوبوں پر ہے‘ ہم نے بھائی صاحب کی طرح کون سی آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ بس برخوردار حمزہ شہباز کی حلال کی کمائی پر گزارہ ہے کیونکہ حسین نواز وغیرہ نے حلال کی کمائی کا کوئی ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا‘ ہمارے بھی دو ہاتھ ہیں‘ اگرچہ حلال کی کمائی بائیں ہاتھ کاکرتب ہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر اعظم استعفیٰ نہ دیں‘ عالمی کمپنیوں سے الزامات کی تحقیقات کروائیں۔ خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وزیر اعظم استعفیٰ نہ دیں‘ عالمی کمپنیوں سے الزامات کی تحقیقات کرائیں‘‘ کیونکہ اس کا نتیجہ بھی حکومت کی مرضی کے مطابق ہی نکلے گا جیسا کہ بینظیر قتل کیس میں اقوام متحدہ کی ٹیم نے بھی اپنا پورا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن اس کا نتیجہ ہماری توقعات کے مطابق ہی نکلا کیونکہ زرداری صاحب نے بھی خدا کی رضا سمجھ کر اس پر صبر کا گھونٹ بھر لیا تھا جسے شک و شبہ کی نظر سے بھی دیکھا گیا حالانکہ صبر تو اللہ میاں کو بھی بہت پسند ہے اور اسی صبر و ضبط کے نتیجے میں پارٹی کو حکومت کا کانٹوں بھرا تاج بھی اپنے سر پر رکھنا پڑا جس کی وجہ سے صاحب موصوف سمیت جملہ معززین نے بے حد مالی نقصان بھی اُٹھایا جس کی تلافی آج تک نہیں ہو سکی ہے جبکہ ویسے بھی میاں صاحب کو تسلی رکھنی چاہیے کیونکہ اس تنظیم کے کار پردازان خود اس کے محافظ ہیں اور اتنے طاقتور کہ کسی کا بال بیکا نہیں ہونے دیں گے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
تبادلہ!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق کرنسی سمگلنگ کی ملزمہ ماڈل ایان علی کو ساڑھے پانچ کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنانے والے کسٹمز کلکٹر کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کسٹمز کلکٹر محمد علی رضا نے کیس میں ماڈل ایان علی کو جرمانے کے علاوہ برآمد ہونے والے پانچ لاکھ سے زائد امریکی ڈالر ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ کارخیر اس فیصلے سے دوسرے روز ہی سرانجام دے دیا گیا۔ ہماری بیورو کریسی دیگر معاملات میں اس قدر عقلمند ہونے کے باوجود بعض باتوں کا ادراک ہی نہیں رکھتی حالانکہ یہ بات بچے بچے کو معلوم ہے کہ موصوفہ پیپلز پارٹی کے ایک اہم بلکہ اہم ترین رہنما کی منظور نظر ہونے کی وجہ سے ہی اپنے انجام سے دور رکھی جا رہی تھیں اور اسے پریشان کر کے حکومت اس شخصیت کو ناراض اور مایوس کرنا افورڈہی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ زبانی کلامی تیرو تفنگ بازی کے باوجود مفاہمتی فارمولہ اب بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہے۔ اسے حکومت کی طرف 
سے تلافی ٔ مافات کی کوشش ہی سمجھا جائے گا ۔ ہیں جی؟
اپیل!
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا شیخ رشید صاحب سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ براہِ کرم حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینا بند کر دیں کیونکہ ایک تو موصوف ویسے بھی سیہ زبان ہیں‘ اور دوسرے میاں صاحب بھی کمزور دل کے مالک ہیں اور آج کل کچھ زیادہ ہی کمزوری محسوس کرنے لگے ہیں اور اسی پریشانی میں کھانا بھی معمول سے کچھ زیادہ ہی کھانا شروع کر دیا ہے‘ اگرچہ ان کا معمول کا کھانا بھی ماشاء اللہ غیر معمولی ہی ہوا کرتا ہے‘اور ‘اگر ان کے لیے تاریخ دینا ضروری بھی ہو تو کوئی لمبی تاریخ تو دیا کریں اور اس طرح تراہ ہی نہ نکال دیا کریں‘ اور‘ اگرچہ تراہ نکالنا آف شور کمپنیوں کی طرح غیر قانونی تو نہیں‘ تاہم آخر اخلاق بھی کوئی چیز ہے‘ علاوہ ازیں پنجاب میں آپریشن ہی جان کے لیے کوئی کم عذاب نہیں تھا کہ اوپر سے آپ نے یہ یرکانا شروع کر دیا ہے‘ لہٰذا کچھ تو خوفِ خدا کا مظاہرہ کریں‘ ہیں جی؟
المشتہر: وزیر اعظم سیکرٹریٹ عفی عنہ
آج کا مقطع
ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved