تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     10-04-2016

ٹیکس Haven اور Heaven

پاناما لیکس نے دنیا بھر میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ کئی ملکوں میں تو اس کے اثرات نے وہ کمال دکھائے کہ بادشاہتیں اور حکومتیں خطرے میں دکھائی دینے لگیں۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم اپنی حکومت سے گئے۔ اگرچہ ان کا براہِ راست تعلق اس دولت سے نہیں تھا جو ٹیکس سے بچانے کے لیے آف شور کمپنی میں رکھی گئی۔ جن ملکوں میں احتساب کا نظام ہے‘ جہاں قانون کی نظر میں حکمران اور عام شہری برابر ہیں، وہاں اس دستاویز کے آنے سے صحیح معنوں میں ایک طوفان مچا ہے۔ ارجنٹائن کے صدر کا نام آیا تو ان کا احتساب شروع ہوگیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی ساتھی اس میں ملوث پائے گئے جس پر انہیں اپنے مخالفین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
پاناما لیکس میں دنیا کے 12سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ کچھ حکمران اگر براہِ راست ملوث نہیں تو ان کے قریبی ساتھیوں‘ رشتہ داروں کے نام سے آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ گارڈین نے ان بارہ سابقہ اور موجود حکمرانوں کے بارے میں رپورٹ چھاپتے ہوئے اسے Dirty Dozen کا نام دیا۔ خیر سے ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی ڈرٹی ڈزن کی اس فہرست میں شامل ہیں۔ براہ راست اُن کا نام نہیں مگر ان کے تینوں بچے حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز شریف آف شور کمپنی کے مالک نکلے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد قوم سے خطاب کر کے اپنی بے گناہی 
ثابت کرنے کی کوشش کی‘ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ۔ اگر آپ کے بچے دولت کو بیرون ملک لے جا کر رکھتے ہیں، جہاں ٹیکس سے بچا جا سکے‘ تو آپ کسی بھی طرح اس سارے معاملے سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ حکومت نے جس کمیشن کا اعلان کیا ہے اس سے بھی بالآخر کچھ نہیں نکلے گا۔ دوسرے ملکوں میں جہاں قانون اور احتساب کا نظام موجودہے‘ وہاں پاناما لیکس نے حکومتوں کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور دولت مند اور طاقتور خود کو کٹہرے میں کھڑا محسوس کر رہے ہیں۔ دو مثالیں بڑی اہم ہیں ۔ایک تو آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ میری اہلیہ کی آف شور کمپنی کے حوالے سے میرا نام اس میں لیا جا رہا ہے ‘مجھ پر کرپشن اور غیر قانونی دولت جمع کرنے کا کوئی الزام نہیں‘ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ شفافیت اور اخلاقیات کے اعلیٰ اصولوں کا تقاضا یہ ہے کہ عوام پر وہی شخص حکمران ہو جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے‘ اور عوام کا اعتماد اسے حاصل ہو۔ اس مثال کو اپنے ملک کو سامنے رکھ کر دیکھیں اور سوچیں۔ اس سکینڈل میں وزیر اعظم کے تین ہونہار کاروباری بچے آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں۔ دنیا بھر میں پاناما کی ان دستاویزات نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور یہاں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار پاناما لیکس کو پاجاما لیکس کہہ کر اس میگا سکینڈل کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک سینئر کالم نگار نے جو بہت دبنگ انداز میں لکھتے ہیں اور جن پر مایوسی پھیلانے کا الزام بھی لگتا ہے‘ اپنے کل کے کالم میں ٹھیک ہی فرمایا کہ پاناما لیکس کے سکینڈل سے پاکستان میں کچھ نہیں ہونے والا‘ بس ایک ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے عوام کو لگا دیا گیا ہے۔
خبروں میں بار بار 'ٹیکس ہیون‘ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس ہیون ہے کیا؟ یہ دولت مند اور ہوس زدہ طبقہ اپنی دولت کو بچانے کے لیے ٹیکس ہیون ملکوں کا انتخاب کیوں کرتا ہے؟ دراصل ٹیکس ہیون ایسے ملک ہیں جو کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ٹیکس ہیون ملک ہوس زدہ دولت مندوں کی دولت کو اپنے بینکوں میں تحفظ دیتے ہیں۔ اس دولت پر انہیں ٹیکس نہیں دینا پڑتا۔ اگر وہ اپنے ملک میں اس دولت کو ظاہر کرتے تو یقیناً انہیں بھاری ٹیکس دینا پڑتا۔ پھر ٹیکس ہیون میں ایسے دولت کے پجاریوں کو اپنی شناخت چھپانے کی آزادی ہوتی ہے۔ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ اس کا اصل مالک کون ہے؟ سب صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ شیل کمپنی یا آف شور کمپنی صرف نام کی حد تک ایک بزنس کمپنی ہوتی ہے، حقیقت میں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ کاغذات کی حد تک اس میں قانونی مشیر اکائونٹنٹ ٹائپ کے کچھ لوگ ہو سکتے ہیں جو لیٹر ہیڈ پر دستخط کرتے ہیں‘ اور اس دولت مند شخص کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہیں جو اپنی شناخت چھپانا چاہتا ہے۔ یہ فرنٹ مین اس سارے کام کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ حقیقت میں ایسی شیل کمپنیوں یا آف شور کمپنیوں میں کوئی کاروبار نہیں ہو رہا ہوتا۔ بس بینک کی ٹرانزیکشن دکھا کر پیسے کو گھمایا جاتا ہے تاکہ بڑی کاروباری کمپنی کا تاثر ملے۔
پاناما لیکس نے ایسے ایسے چہروں سے نقاب اٹھایا ہے کہ انسان حیرت زدہ رہ جائے۔ پاناما لیکس کی دستاویزات کے مطابق لیبیا کے کرنل قذافی اور سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالرحمان بھی اس ٹیکس ہیون میں آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں۔ حسنی مبارک ‘ اردن کے سابق صدر اور یو اے ای کے امیر۔۔۔۔۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اس میں دنیا کی بڑی بڑی کاروباری کمپنیاں بھی شامل ہیں‘ سپورٹس کے سٹارز بھی ہیں اور دنیا کے دوسرے نامور لوگ بھی جو دولت کے نشے میں سرشار ہیں اور اپنی دولت کو محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچا کر خود کو دنیا میں محفوظ تصور کرتے ہیں۔
پاناما لیکس سے ایک چیز ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ دولت کے پجاریوں اور ہوس کے مارے ہوئوں کا کوئی مذہب ‘ کوئی مسلک‘ کوئی ملک‘ کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ ان کااصل ایمان ‘ اصل مذہب ان کی دولت ہوتی ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے نظام کے لیے کام کرنے والے سر پیٹ رہے ہیں کہ دنیا کے مسائل کی وجہ دولت کی عدم مساوات پر مبنی تقسیم ہے۔ دنیا کی آدھی دولت صرف ایک فیصد دولت مندوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وہ دولت مند ہیں جو پس پردہ رہ کراپنی دولت کو شیل اور آف شور کمپنیوں میں رکھتے ہیں‘ اپنے ملک کو چھوڑ کسی ٹیکس ہیون کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے بچوں‘ بیوی اور رشتہ داروں کے نام پر اپنی دولت ٹیکس ہیون میں محفوظ سمجھتے ہیں اور پھر کسی غربت زدہ‘ دہشت گردی کے مارے ہوئے، مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ ‘جعلی دوائوں کا عذاب سہتے ملک میں حکمرانی کرتے ہیں۔ جہاں لوگ روٹی اور دوا کو ترس رہے ہوں وہاں ایسے ایشوز پر عوام کہاں سوچتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے جنہیں ایک طرف اپنی دولت کے لیے ٹیکس Haven میسر ہیں تو دوسری طرف ان کا ملک بھی ان کے لیے کسی Heaven سے کم نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved