تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2016

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

وہ کم کوش بھی ہیں اور کم ذوق بھی۔ کوئی اعلیٰ مقصد ان کے سامنے نہیں۔ ہر ایک اپنی ذات کا اسیر۔ زیادہ سے زیادہ اپنے گروہ کا ۔ ؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
مجید امجد کا ایک مصرعہ ہے۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی۔ طوفان کیا، تند ہوا کا ایک جھونکا ہماری سیاسی جماعتیں بے نقاب کر دیتا ہے۔ پتہ چل جاتا ہے، کہ کتنے پانی میں وہ ہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تو ناچیز نے سوال کیا کہ جرم ابھی ثابت نہیں ہوا، وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ الگ ہو جائیں تو متبادل نظام کیا ہو گا۔ کیا اقتدار جناب زرداری کو سونپ دیا جائے گا‘ بمشکل جن سے نجات پائی گئی ہے یا جناب عمران خان کو جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ الیکشن کے دن پولنگ ایجنٹ مقرر کیے جاتے ہیں۔ جن کی جماعت میں ہر سطح پر مشکوک افراد مسلط ہیں۔ 
رہی خود حکمران پارٹی تو چار دن کے بعد ان کے برادر صغیر نے زبان کھولنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کی اہلیہ نے ایک سخت بیان جاری کیا۔ خاندان میں کسی کو وضاحت تک کی توفیق نہ ہو سکی کہ یہ ان کا ذاتی نقطۂ نظر ہے۔ وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے بھی خاموش رہے جو اپنے تایا جان کے پسندیدہ تھے اور کبھی ان کے جانشین سمجھے جاتے تھے۔ بات کرنے کا موقعہ وہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 
خاندان کے دوسرے افراد بھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ محترمہ کلثوم نواز اور ان کے دیور میں سرد مہری ہے۔ ممکن ہے اس میں کچھ مبالغہ ہو مگر ان سے منسوب کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی حد تک کاروبار پہلے ہی فرزندانِ شہباز کے ہاتھ میں ہے۔ کیا سیاست بھی ان کے حوالے کر دی جائے؟ برسوں پہلے کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے کسی عزیز کا داخلہ جنوبی پنجاب کے ایک میڈیکل کالج میں ہوا۔ لاہور کے کنگ ایڈورڈ کالج میں وہ اس کے تبادلے کی آرزو مند تھیں۔ مبینہ طور پر میاں محمد شہباز شریف سے انہوں نے فرمائش کی تو وہ ٹال گئے۔ کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو تیس پینتیس طلبہ کا استحقاق مجروح ہو گا۔ اس پر وہ ناخوش ہوئیں۔ بڑے میاں صاحب کو بتایا گیا۔ کہانی کے مطابق براہِ راست بات کرنے کی بجائے انور زاہد مرحوم کو انہوں نے بھیجا۔ انور زاہد کی اللہ مغفرت کرے، وہ ایک شائستہ کلام‘ محتاط اور درد مند آدمی تھے، سلیقہ شعار۔ انہوں نے بات کی تو وزیر اعلیٰ نے اپنے دلائل دہرا دئیے۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ اس واقعہ کی وجہ سے بھی وہ ان سے ناخوش ہیں۔ پھر یہ فطری ہے کہ ماں کے دل میں اولاد کی محبت زیادہ ہوتی ہے۔ کلثوم نواز ایک بہادر خاتون ہیں۔ 12اکتوبر 1999ء کا مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد جیسی جرأت کا مظاہرہ انہوں نے کیا، پارٹی لیڈروں میں سے دوسرا کوئی نہ کر سکا۔ سیف الرحمن زار و قطار رویا کرتے۔ دریائے سندھ کے کنارے شیر شاہ سوری کے بنائے ہوئے قلعے میں میاں نواز شریف کو سانپ اور بچھو دکھائی دیتے‘ جب وہ پرل کانٹی نینٹل سے منگوایا گیا کھانا تناول فرما رہے ہوتے۔ ابتدائی ایام سخت تھے اور ان کی توہین کی گئی۔ پھر وہ آسودہ رہے مگر ہمت ان کی ٹوٹ گئی۔ امریکہ کے صدر کلنٹن اور سعودی عرب کے ملک عبداللہ کی مدد سے جنرل مشرف کے ساتھ انہوں نے سمجھوتہ کیا۔ دس سال کے لیے سیاست کو خیرباد کہہ کر وہ حجاز تشریف لے گئے۔ ان کے وکیل عابد حسن منٹو روتے رہ گئے کہ اپنے ہاتھ کاٹ کر فوجی ڈکٹیٹر کے حوالے کیوں کرتے ہو مگر ان کی کسی نے سنی نہیں۔ خیر، یہ کہانی پھر کبھی۔ صرف ایک چھوٹا سا نکتہ۔ جدہ کے سرور پیلس میں شریف خاندان کا قیام تھا۔ سعودی حکومت ان کی کفیل تھی، جس کی عطا کردہ چھ عدد مرسڈیز گاڑیاں صحن میں کھڑی رہتیں، جہاں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں تھا، درآں حالیکہ ایک عشرے سے ساحلی شہر گلزار ہو چکا تھا۔ لاکھوں شجر سر اٹھائے کھڑے رہتے اور قدم قدم پر پھول کھلتے۔ شریف خاندان مگر ڈپریشن کا شکار تھا۔ رونق ہوتی تو فقط دسترخوان پر، جہاں طرح طرح کے پکوان خوشبو بکھیرتے اور پل بھر کو زندگی لوٹ آتی۔
انہی دنوں مجید نظامی مرحوم سعودی عرب تشریف لے گئے اور میاں محمد نواز شریف سے انہوں نے تبادلۂ خیال کیا۔ نہایت رنج کے ساتھ نظامی صاحب کہا کرتے تھے۔ میاں صاحب نے مجھ سے کہا: میں جیل نہیں کاٹ سکتا۔ شہباز شریف کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ 1993ء میں غلام اسحق خان نے ان کی حکومت برطرف کی تو نئے انتخاب کے نتیجے میں برادر خورد پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف ہو گئے۔ گرفتاری کے خوف سے وہ بیرون ملک تشریف لے گئے۔ بہانہ یہ کیا وہ کمر کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی ان کی جگہ اپوزیشن لیڈر بنے۔ جیل بھی ایک شان سے کاٹی اور اپوزیشن لیڈر کا کردار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ ادا کیا۔
جیسا کہ ذکر کیا کہ سرور پیلس میں قیام کے دوران مجید نظامی، شریف خاندان سے ملنے گئے، جن کے وہ ہمدم و ہم نفس تھے اور سرپرست بھی۔ کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف نے ان سے شکایت کی: خود تو محل میں براجمان ہیں، میرے اور میرے بچوں کے لئے انیکسی ہے۔ نظامی مرحوم کے قریبی ساتھیوں کے بیان کردہ واقعات میںممکن ہے کچھ مبالغہ بھی ہو۔پانامہ لیکس کے منظرِعام پر آنے کے بعد شہباز شریف کے خاندان نے جو طرزِ عمل اختیار کیا، اس سے یہ بہرحال آشکار ہو گیا کہ ایک دوسرے کے بارے میں ان کے حقیقی احساسات کیا ہیں۔ ایک بزرگ کا قول یاد آتا ہے: اگر تم ایک دوسرے کے دلوں میں جھانک سکو تو ایک دوسرے کے جنازے اٹھانے سے انکار کر دو۔
کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے آرزو مند ہیں۔ اس حد تک یہ بات درست ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کی تمنا میں ایک بار وہ کہیں تعویز لینے بھی گئے تھے۔ جن دنوں وہ اٹک کے قلعے میں تھے‘ کسی بات سے مجھے یہ گمان ہوا۔ کالم میں ذکر کیا تو ایک خط انہوں نے مجھے لکھا۔ چونکہ انہوں نے اسے آف دی ریکارڈ قرار دیا؛ چنانچہ اس کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔ 
شادمان اور سرفراز کبھی نہیں، اقتدار اور دولت کے پجاریوں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ خوف، اندیشوں، وسوسوں، درباری سازشوں، بدگمانیوں اور ڈرائونے خوابوں میں گھری ہوئی۔ آخری ایام میں، آدھی دنیا کے بادشاہ امیر المومنین ہارون الرشید شکایت کیا کرتے کہ صاحبزادوں نے ان پر جاسوس مقرر کر رکھے ہیں۔ 
خود وہ انہیں کوسا کرتے اور راتوں کو بھیانک سپنے دیکھتے۔ راحت فقیر کی گدڑی میں ہوتی ہے، علم کی جستجو میں، ایثار کی للک میں اور انکسار کی فراوانی میں، میاں محمد بخش سنائی دیتے ہیں ؎
خس خس جتنا قدر نہ میرا صاحب نوں وڈیائیاں
میں گلیاں دا روڑا کوڑا محل چڑھایا سائیاں
بارِدگران کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ؎
چٹی چادر لاہ سٹ کڑیے، پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ لگیسی، لوئی نوں داغ نہ کوئی
شیخ ہجویر سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ سے ایک بار ایک مولوی نے کہا: جو گدڑی آپ نے پہن رکھی تھی، وہ بدعت ہے۔ فرمایا: حلال کپڑا ہے، حلال روپے سے خریدا ہوا۔ اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، جس نے ریشم پہن رکھا ہے اور منصب قضا کا امیدوار ہے۔
بات دور نکل گئی۔ اپوزیشن پارٹیوں کے بارے میں عرض کرنا تھا۔ عمران خان نے ڈاکٹر سڈل کا نام تجویز کیا تو باقیوں نے شتابی سے مسترد کر دیا۔ پیپلز پارٹی تو تاب نہیں لا سکتی کہ ماری جائے گی۔ اے این پی اور جماعت اسلامی کا مسئلہ کیا ہے؟۔ ڈاکٹر سڈل کو چھوڑیے‘ انہوں نے کوئی درخواست نہیں کی۔ چین میں ایک عالمی کانفرنس کی صدارت کے بعد حکومت جاپان کی درخواست پر وہ ٹوکیو جانے والے ہیں، جس کی پولیس کے وہ مستقل مشیر ہیں (اور ترکی کے بھی)۔ اپوزیشن لیڈر کسی ایک لائحہ عمل پر کیوں متفق نہیں ہوتے؟ باہم وہ مشورہ کیوں نہیں کرتے۔ مختلف راگ کیوں الاپ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ کم کوش بھی ہیں اور کم ذوق بھی۔ کوئی اعلیٰ مقصد ان کے سامنے نہیں۔ ہر ایک اپنی ذات کا اسیر ‘زیادہ سے زیادہ اپنے گروہ کا۔ ؎ 
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved