تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     11-04-2016

پاکستان اور بنگلہ دیش

جب 1971ء میں بنگلہ دیش بنا تو اس کی آبادی پاکستان سے زیادہ تھی۔ چونکہ بنگلہ دیش کا رقبہ بہت ہی محدود ہے‘ لہٰذا عام خیال یہ تھا کہ وہاں ہمیشہ غربت اور بیماری کا راج ہو گا۔ ہنری کسنجر نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ میں بنگلہ دیش کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔ ایک زمانے میں برصغیر میں عام تصور یہ تھا کہ بنگالی مارشل ریس نہیں‘ یہ جنگ نہیں لڑ سکتے‘ پھر ہم نے دیکھا کہ یہ بات بھی محض پروپیگنڈا تھی۔ ہماری1971ء سے پہلے کی کرکٹ ٹیسٹ ٹیم میں ایسٹ پاکستان کے کھلاڑی نہ ہونے کے برابر تھے۔ آج بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنے متعلق بہت سے مایوس کن اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔ دوسری جانب پاکستان جو 1960ء کی دہائی میں ترقی پذیر ممالک کے لیے مثال سمجھا جاتا تھا ‘آج بنگلہ دیش کے مقابلے میں کم اقتصادی ترقی کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں اس وقت اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد ہے‘ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی کامیابی کے اسرار و رموز کیا ہیں۔
مجھے بنگلہ دیش کی لیڈر شپ نے کبھی متاثر نہیں کیا ۔دو بیگمات برسوں سے سوتنوں کی طرح لڑتی آ رہی ہیں۔ میرے خیال میں بنگلہ دیش کی ترقی کی بڑی وجہ وہاں کے پڑھے لکھے عوام ہیں۔ تعلیم کی شرح ساٹھ فیصد اور حکومت تعلیم پر پاکستان کے مقابلے میںاپنے بجٹ کا وافر حصہ خرچ کرتی ہے‘ لہٰذا وہاں گورننس خاصی بہتر ہے‘ قومی ادارے مثلاً سول سروس بہتر حالت میں ہیں۔ پُورے ملک میں ایک ہی لسانی گروپ ہے‘ تمام بنگلہ زبان بولتے ہیں۔ لہٰذا لسانی گروہوں کی مسابقت اور چپقلش جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں‘ وہاں موجود ہی نہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ بنگلہ دیش نے آزاد ہونے کے بعد پہلا کام کیا کیا؟حکومت نے مکتی باہنی والوں سے ہتھیار واپس لیے۔ اس وجہ سے وہاں اندرونی سکیورٹی کی صورت حال نسبتاً بہتر رہی۔
بنگلہ دیش نے تین چار شعبوں میں شاندار ترقی کی ہے اور ان میں فیملی پلاننگ ‘مائیکرو فنانس‘ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے حوصلہ افزا ماحول اور برآمدات میں اضافہ‘ شامل ہیں۔ آئیے سب سے پہلے بنگلہ دیش کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو دیکھتے ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی سولہ کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی انیس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اپنے کامیاب فیملی پلاننگ پروگرام کی بدولت بنگلہ دیش میں ماں اور بچہ دونوں کی صحت بہتر ہے۔1980ئسے پہلے وہاں ایک فیملی کے اوسطاً سات بچے ہوتے تھے‘ اب یہ عدد دو سے ذرا سا زیادہ ہے‘ یعنی بچے دو ہی اچھے کا نعرہ ہم لگاتے ہیں جبکہ اس پر عمل بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے۔
بہتر اور سود مند صحت کی پالیسیوں کی وجہ سے 2000ء سے لے کر 2010ء تک ڈلیوری کے دوران مائوں کی شرح اموات میں چالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے علماء نے فیملی پلاننگ کی مخالفت نہیں کی۔ علماء کو بتایا گیا کہ اسلام رزق میں کمی کے خوف سے بچوں کے قتل سے منع کرتا ہے جبکہ فیملی پلاننگ کی بدولت ماں اور بچہ دونوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور اسی وجہ سے نومولود بچوں کی اموات بھی کم ہوتی ہیں۔ علماء کی سمجھ میں بات آ گئی اور وہ خاندانی منصوبہ بندی کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔ پاکستان میں آبادی کی شرح نمو دو فیصد سے ذرا اوپر ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ایک اعشاریہ دو فیصد ہے۔ وہاں حکومت کے علاوہ این جی اوز بھی اس سلسلہ میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس خان نے مائیکرو فنانس کے شعبہ میں خوب اچھا کام کیا۔ ان کی بین الاقوامی سطح تک پذیرائی ہوئی۔ نوبل انعام ملا۔ ان کا گرامین بینک دیہی علاقوں میں زیادہ تر خواتین کو چھوٹے چھوٹے قرضے دیتا تھا۔ خواتین کی مالی حالت بہتر ہونے سے بھی فیملی پلاننگ میں مدد ملی۔ ایک کمانے والی ماں میں اتنی خود اعتمادی آ جاتی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے خاندان کے چھوٹے سائز کے بارے میں بات کر سکے۔ اسی طرح گارمنٹ انڈسٹری نے بنگلہ دیش میں بہت ترقی کی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش گارمنٹس کی ایکسپورٹ سے بیس ارب روپے سالانہ کما رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بیرونی سرمایہ کار خوشی سے آتا ہے جبکہ پاکستان میں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار آنے سے گھبراتا ہے ۔ وہاں گارمنٹ فیکٹریوں میں زیادہ لیبر صنف نازک سے تعلق رکھتی ہے‘ آپ خود اندازہ لگائیں کہ سات بچوں کی ماں کے لیے فیکٹری میں کام کرنا آسان ہو گا یا دو بچوں کی ماں کے لیے۔
پاکستان میں ترقی کے امکانات بنگلہ سے کہیں زیادہ ہیں مثلاً گوادر اور کراچی کے علاوہ مکران کوسٹ پر کئی اور بندرگاہیں بن سکتی ہیں ۔کالا باغ ڈیم جب بھی بنا تو ڈیرہ اسماعیل خان سرسبز ہو سکتا ہے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے جبکہ چھوٹے سے بنگلہ دیش میں غربت کم ہوتی صاف نظر آ رہی ہے۔ گو کہ وہاں بھی غربت کے مکمل خاتمہ میں بڑا عرصہ لگے گا لیکن ان کا قبلہ درست ہے‘ وہ صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ لہٰذا ان کا ڈیفنس بجٹ پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم ہے اور اسی وجہ سے بجٹ خسارہ بھی کم ہے۔ بنگلہ دیش کا ٹوٹل ڈیفنس بجٹ محض دو اعشاریہ بارہ ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کے دفاعی اخراجات چھ ارب ڈالر کے آس پاس ہیں۔ اپنے اندرونی اور اردگرد کے حالات کی وجہ سے پاکستان فی الحال اپنا ڈیفنس بجٹ کم نہیں کر سکتا۔
بنگلہ دیش کا شمار کئی سال تک دنیا کے کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا رہا ہے اور غربت کے ناتے ہی بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل کوٹہ حاصل کیا اور آج بھی اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔2012ء میں بنگلہ دیش کی برآمدات پچیس ارب ڈالر کو چھونے لگی تھیں جبکہ پاکستانی ایکسپورٹ پونے پچیس ارب ڈالر تھیں یعنی بنگلہ دیش ہم سے برآمدات میں بھی آگے نکل گیا تھا۔ بنگلہ دیشی حکومت صحت اور تعلیم کے شعبوں کوخاص اہمیت دے رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں بجٹ کا 3.7فیصد صحت پر صرف ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 2.5 فیصد۔ سچ پوچھیے تو بنگال کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔
بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ پالیسی درست ہو‘ قبلہ صحیح ہو اور ارادہ قومی ہو تو ترقی کرنا مشکل نہیں ۔آج پاکستانی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ وہاں بجلی اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپ پاکستان میں ٹھیک کر دیں تو دنیا بھر کے سرمایہ کار پاکستان آنے لگیں گے۔ ہمارے ہاں اقتصادی شرح نمو زیادہ ہو جائے گی۔ لوگوں کو روزگار ملے گا تو انتہا پسندی کم ہو گی۔ تعلیم بہتر ہو گی تو روشنی پھیلے گی۔ صحت اچھی ہو گی تو ہماری کرکٹ ٹیم میچ ہارنے کی بجائے جیتنے لگ جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved