تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-04-2016

پانامہ لیکس، پاجامہ لیکس اور کہانیاں

پانامہ پیپرز عرف پانامہ لیکس نے گزشتہ ہفتے عشرے سے کہرام مچایا ہوا ہے اور مخالفین کی ساری توپوں کا رُخ عزیزان حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف کی طرف ہے۔ میں نے قبلہ شاہ جی سے وجہ دریافت کی تو وہ فرمانے لگے‘ دراصل یہ سارے اعتراض اور الزامات وہ نالائق، نکمے اور نحوستی لوگ لگا رہے ہیں جو خود زندگی میں کچھ نہیں کر سکے‘ جنہوں نے اپنی ابتدائی عمر کا بیشتر حصہ کھیلنے کودنے میں، پتنگیں اڑانے میں، کالج کی لڑکیوں کے تانگوں کا پیچھا کرتے ہوئے اور میٹرک میں چار چار بار فیل ہوتے گزار دیا تھا۔ اب یہ ان دو ہونہار بچوں سے حسد، جلاپا اور جیلسی محسوس کر رہے ہیں۔ تم اگر آف شور کمپنیوں کے بننے کی تاریخیں دیکھو اور ان دو لڑکوں کی تب کی عمر کا حساب کرو تو تمہیں خود اندازہ ہو گا کہ ان لڑکوں نے اپنا بچپن کھیلنے کودنے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بے کار اور بند سٹیل مل خرید کر چلانے اور پھر اس سکریپ قسم کی مل کو کارآمد اور نفع بخش بنا کر بیچنے میں مصروف رکھا۔
پھر اس کو بیچ کر آف شور کمپنیاں بنانے، لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں پراپرٹی خریدنے، پلازے بنانے اور بزرگوں کے غیر ادا شدہ قرضے اتارنے جیسی قابل فخر اور قابل تقلید مثال قائم کی۔ تم کو اپنی اوائل عمری کے بے کار مشاغل سے فرصت نہیں تھی اور یہ دونوں لڑکے محنت شاقہ میں اپنا حسین بچپن اور لڑکپن کہیں کھو چکے ہیں۔ تم لوگوں کو ان کی ترقی سے تو حسد محسوس ہوتا ہے مگر تم لوگوں نے ان جیسی محنت کرنے کا نہ کبھی سوچا ہے اور نہ ہی یہ تمہارے بس کی بات تھی۔ میں نے کہا، شاہ جی! آپ سے ایک دو سوالات کرنے کی اجازت ہے؟ شاہ جی اچھے موڈ میں تھے‘ فرمانے لگے، پوچھو‘ دو چھوڑ دس پوچھو۔ میں نے کہا، شاہ جی! آپ کی بات کس طرح مان لیں؟ 
بیشک بے کار تھی اور بند پڑی تھی‘ سکریپ ہو چکی تھی مگر بہرحال سٹیل مل تھی‘ اسے خریدنے کے لیے ان کے پاس پردیس میں پیسے کہاں سے آئے؟ شاہ جی ہنس پڑے اور کہنے لگے، تم دراصل مجھے گھیر رہے ہو۔ میں نے چار چھ دن پہلے فرمایا تھا کہ میاں صاحب جاتے ہوئے جو سو صندوق لے کر گئے تھے ان میں دو چار صندوقوں میں ڈالر وغیرہ تھے‘ لیکن اب میں نے ان چار پانچ دنوں میں اپنے بیان سے رجوع کر لیا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ مجھے تمہارے دوست طارق محمود کی طرف سے دو عدد انکشاف بھرے ایس ایم ایس ملے ہیں‘ جن میں اس نے بتایا ہے کہ بچوں نے محلے میں کمیٹی ڈالی ہوئی تھی‘ وہ بھی نکلی تھی اور دوسرا یہ کہ حسین اور حسن نواز شریف ہمراہ کیپٹن صفدر بازار میں حاجیوں اور عمرے والوں کو ٹوپیاں اور دیگر اشیائے ضروریہ بیچتے تھے۔ میں تو یہ جان کر بڑا شرمندہ ہوا اور اپنے پہلے بیان پر اللہ سے معافی مانگی کہ خواہ مخواہ ان کے بارے میں افواہیں پھیلاتا رہا جبکہ بچے پردیس میں محنت کر رہے تھے۔ اللہ اجر دے تمہارے دوست طارق محمود کو‘ بڑے چشم کشا قسم کے ایس ایم ایس بھیجتا ہے۔
مجھے تو ان بچوں کی محنت اور کام سے لگن دیکھ کر وارن بفے (Warn Buffet) بھی بہت چھوٹا لگتا ہے۔ میں اس وارن بفے کو ہمیشہ وارن بفٹ کہتا اور پڑھتا تھا۔ یہ بھی مجھے طارق محمود نے بتایا کہ انگریزی میں بے شک بفٹ لکھتے ہیں مگر ''ٹی‘‘ سائیلنٹ ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی وارن بفے کی۔ وارن بفے نے بالکل چھوٹی عمر میں اپنے آبائی قصبے اوماہا میں اخبار بیچنے شروع کر دیے۔ ایک انٹرویو میں کسی نے وارن بفے سے سوال کیا کہ آپ کو اپنے کسی کام پر افسوس ہوا ہو؟ بفے نے جواب دیا‘ میں نے اپنی زندگی کا پہلا شیئر گیارہ سال کی عمر میں خریدا۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں نے یہ کام بڑی دیر سے کیا۔
تاہم ان بچوں نے تو حد ہی مکا دی ہے۔ بے کار مل خریدی، چلائی، قرضے اتارے، جائیدادیں خریدیں، آف شور کمپنیاں بنائیں، اب آپ جیسے حاسد اور نالائق لوگ جو خود آف شور کمپنیاں نہیں بنا سکتے‘ محض شور مچانے پر لگے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا، شاہ جی! آپ کی بات درست بھی مان لیں تو آپ یہ بتائیں کہ آخر ایک بند اور سکریپ مل کو چلا کر کتنا نفع کمایا جا سکتا ہے؟ دنیا بھر میں سٹیل کا کاروبار نفع بخش تو ضرور ہے مگر اس میں کوئی بے انداز نفع نہیں ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ڈاؤننگ ٹاؤن پنسلوینیا کے ساتھ متل کی بند سٹیل مل دیکھی ہے۔ لکشمی متل دنیا کا سب سے بڑا سٹیل کا کاروبار کرنے والا شخص ہے۔ اس کی سٹیل ملوں کی کل پیداواری استعداد گیارہ کروڑ چونسٹھ لاکھ ٹن ہے اور اس کے ملازمین کی تعداد دو لاکھ بائیس ہزار۔ دنیا کی گیارہویں بڑی کمپنی ٹاٹا سٹیل ہے‘ جس کی پیداوار دو کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن اور ملازمین کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہے۔ اسی طرح کئی سٹیل ملز اور کمپنیاں ہیں تاہم حسین نواز والی سٹیل ملز دنیا کی پہلی سو ملز میں تو ہرگز نہیں۔ اس کی سالانہ پیداواری استعداد پانچ لاکھ سے دس لاکھ ٹن اور ملازمین کی تعداد چار سو سے کم تھی۔ اب حساب جوڑیں۔ حسین نواز نے حسن نواز کو بارہ سو ملین ڈالر کاروبار کے لیے دیے۔ کم از کم پانچ چھ سو ملین ڈالر خود بھی رکھے ہوں گے۔ اس طرح کل دولت اٹھارہ سو ملین ڈالر بن گئی۔ اب دوستوں سے لیا قرضہ بھی واپس کیا۔ چند سال میں بینکوں کا قرضہ بھی چکتا کر دیا۔
دنیا کی بیسویں بڑی کمپنی کا پروفائل بتاتا ہے کہ اس نے سال 2014/15ء میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن پیداوار پر آٹھ سو ملین ڈالر کا منافع حاصل کیا یعنی فی دس لاکھ ٹن پچاس ملین ڈالر۔ یہ شاید زیادہ سے زیادہ نفع تھا جو کسی کمپنی نے ایک ملین ٹن سٹیل پر حاصل کیا وگرنہ دیگر کمپنیوں نے ایک ملین سٹیل کی پیداوار پر اس سے کہیں کم نفع حاصل کیا۔ لیکن حسین نواز شریف کی کمپنی نے چھ سال میں ہی دو ہزار ملین کے لگ بھگ نفع حاصل کر لیا۔ چھ سال میں اٹھارہ سو ملین کا مطلب ہے فی سال تین سو ملین ڈالر۔ ایک ملین ٹن سٹیل کی پیداوار پر سالانہ تین سو ملین ڈالر خالص نفع۔ دنیا کی بہترین سٹیل کمپنی سے بھی پانچ گنا زیادہ۔ سجان اللہ! شاہ جی، یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ اس نفع کے بارے میں آپ کو طارق نے کوئی ایس ایم ایس نہیں کیا؟ شاہ جی آپ بھی بھولے آدمی ہیں۔ آپ نے طارق کے ایس ایم ایس پر اعتبار کر لیا۔ وہ تو اور بھی بڑے شرپسندانہ ایس ایم ایس کرتا ہے۔ اگر آپ ان پر یقین کرتے رہے تو مارے جائیں گے کسی روز۔ شاہ جی‘ یہ پانامہ لیکس ہے۔ شاہ جی‘ ایک لطیفہ بھی سن لیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سمندر میں ایک جنگی جہاز جا رہا تھا۔ کپتان برج پر موجود تھا۔ اسے اوپر مستول پر بیٹھے دوربین والے او پی نے اطلاع دی کہ دشمن کا ایک جنگی جہاز ہماری جانب بڑھ رہا ہے اور حملے کی نیت سے پوزیشن لے رہا ہے۔ کپتان نے فوری طور پر سائرن بجوایا اور خود لاؤڈ سپیکر پر ہدایات جاری کرنے لگ گیا کہ فلاں توپ کو اس طرف موڑو‘ فلاں پلٹن دائیں رخ پر مورچہ زن ہو جائے اور فلاں پلٹن دنبالے پر چڑھ جائے۔ اسی دوران اس نے اپنے اردلی کو حکم دیا کہ اس کا سرخ کوٹ لایا جائے۔ کپتان نے عین جہاز کے وسط میں کھڑے ہو کر اپنا سرخ کوٹ زیب تن کیا اور جہاز کے اگلے سرے پر آ کر توپ داغنے کا حکم جاری کیا۔ معرکہ شروع ہوا۔ ایک زوردار حملے کے جواب میں کپتان نے اپنی بہترین کمانڈ کے باعث فتح حاصل کی۔ دشمن کا جہاز غرقاب ہوا۔ فاتح کپتان سے اس کے سپاہیوں نے پوچھا کہ عین جنگ کے دوران اسے اپنا سرخ کوٹ پہننے کی کیا سوجھی؟ کپتان نے جواب دیا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ دورانِ معرکہ اگر میں زخمی ہو جاؤں تو میرا خون کسی سپاہی کو نظر آئے اور پریشان ہو کر ہمت ہار دے۔ سب نے کپتان کی بہادری اور حکمت عملی کی تعریف کی اور اس کے جذبے کو بے حد سراہا۔ ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ مستول پر بیٹھے او پی نے پھر چلا کر بتایا کہ سامنے سے دور سمندر میں دشمن کے کم از کم دس جنگی جہاز ہماری سمت بڑھ رہے ہیں۔ یہ جہاز پہلے جہاز کی نسبت بہت بڑے ہیں اور ان پر بڑے دہانے کی توپیں لگی ہوئیں ہیں۔ کپتان کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ اس نے نیم مردہ آواز میں سپاہیوں کو دوبارہ تیاری کا حکم دیا۔ توپیں تیار کرنے کا فرمان جاری کیا اور اپنے اردلی کو کہا کہ کمرے سے میرا پیلا پاجامہ لے آؤ۔ شاہ جی، یہ پاجامہ لیکس ہے اور اس کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایس ایم ایس بس ایسے ہی یاد آ گیا‘کل ہی کرنل عابد نے بھجوایا تھا۔
ویسے کیا ایسا ممکن نہیں کہ حسین نواز شریف کو کراچی والی سٹیل ملز ٹھیکے پر دے دی جائے؟ والد صاحب بھی کاروبار سے متعلق رہے ہیں مگر ان سے تو خسارہ نفع میں تبدیل نہیں ہو رہا۔ شاید یہ ہونہار لڑکا ایسا کر دکھائے۔ اگر نہ کر سکا تو سعودی عرب والی مل کے نفع کی سب کہانیاں، بس کہانیاں ہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved