اوسلو میں
یہ ہمارے لیجنڈ آرٹسٹ اسلم کمال کا سفرنامہ ہے۔ اس کے ٹائٹل پر جو ظاہر ہے کہ آرٹسٹ کے اپنے ہی موقلم کا نتیجہ ہے‘اسلم کمال کے سفرنامے کا نام یعنی ''اوسلو میں ‘‘اور شاید تاکید مزید کے لیے نیچے بھی اسلم کمال لکھا ہوا ہے؛ حالانکہ ہم جیسے ان کے نیاز مندوں کے لیے ان کا نام ایک ہی بار کافی تھا۔ ٹائٹل پر دوران سفر مصنف کی تصویر بھی ہے۔ آپ ایک معروف لکھاری بھی ہیں اور ان کی یہ دلچسپ تحریر یہاں ایک جریدے میں قسط وار شائع بھی ہوتی رہی ہے۔ اندرون سرورق ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحسینی رائے درج ہے اور پس سرورق مزید تصاویر ‘قیمت 800 روپے ہے۔
خاک میں پنہاں صورتیں
یہ کراچی کے مرحوم اہل قلم کے تذکرے پر پہلی کتاب ہے جو سید محمد قاسم نے لکھی ہے اور جس کا انتساب پروفیسر علی حیدر ملک اور انور جاوید ہاشمی کے نام ہے۔ اندرون سرورق ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘ اختر لکھنوی‘ علی حیدر ملک‘ شفیق احمد شفیق اور زاہد رشید کی کتاب کے بارے میں آرا درج ہیں۔ کوئی دو سو سے زائد اہل قلم کا مختصر تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے ۔یہ پہلی جلد ہے اور شاید مصنف اس تعداد کے مکمل ہونے کے انتظار میں ہیں۔ صفحات 768 ‘قیمت ایک ہزار روپے۔
معجزہ ...حاصل
یہ کتاب ممتاز شاعر منظر بھوپالی کے دو عدد مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ہے۔ پس سرورق مصنف کی نو مزید تصنیفات کے ٹائٹل چھاپے گئے ہیں ۔پیش لفظ ڈاکٹر اختر ہاشمی اور دیباچہ خود شاعر کے قلم سے ہے۔ دوسرے مجموعہ کا پیش لفظ ناشر شاعر علی شاعر جبکہ پروفیسر سحر انصاری اور ڈاکٹر انجم کے قلم سے دیباچے ہیں۔ ان میں زیادہ تر غزلیں ہیں اور چند نظمیں ۔غزلوں میں ان کا رنگ زیادہ نمایاں ہے ۔صفحات تقریباً اڑھائی سو ۔پس سرورق شاعر کی تصویر بھی ہے ۔قیمت 500 روپے۔
شاعرات ارض پاک
یہ تصنیف لطیف شبیر ناقد کی ہے جو اس کتاب کا حصہ چہارم ہے۔ ٹائٹل پر صدف غوری کی تصویر ہے جنہیں بُلبلِ بلوچستان کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ کتاب تنقیدی مضامین اور شاعرات کے منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ انتساب وطن عزیز کی ان خوش سخن عنادل کے نام ہے جن کی نوائے دلنشین لاکھوں دردمندوں کے دکھ کا درماں ثابت ہوئی۔ دیباچہ ابوالبیان ظہور احمد فاتح کے قلم سے ہے جبکہ 'جوئے شیر‘ کے عنوان سے تنقیدی پیش لفظ مصنف نے خود لکھا ہے۔ 34 شاعرات کا تذکرہ ہے اور قیمت 500 روپے ہے۔
قطعات البم
یہ ہمارے سینئر شاعر رفیع الدین راز کے قطعات کا مجموعہ ہے جس کا پس سرورق ممتاز نقاد اور شاعر سرور جاوید نے تحریر کیا ہے جبکہ اندرون سرورق تحریریں جاوید رسول‘ جوہر اشرفی اور شاعر علی شاعر کے قلم سے ہیں۔ دیباچہ معروف نقاد اور شاعر جاذب قریشی نے تحریر کیا ہے۔ اس مجموعہ میں سنجیدہ قطعات بھی ہیں اور غیر سنجیدہ بھی۔ کتاب کے آخر پر مصنف کا تعارف ‘مطبوعہ کتابوں اور غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل کتابوں کی تفصیل ہے۔ صفحات 191 اور قیمت 300 روپے ہے۔
عمر گزشتہ کی کتاب...اے دل آوارہ
شمائل احمد کا ناول ہے جو 27 1 صفحات پر مشتمل ہے۔ پیش لفظ‘ دیباچے اور انتساب کے تکلفات کے بغیر نسبتاً چھوٹا ناول ہے جو بجائے خود مطالعے کے لیے ایک ترغیب ہے جو مصنف کی تصویر سے بھی محروم ہے۔ لہٰذا موصوف کی شخصیت کا اندازہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے ۔پس سرورق کچھ دیگر مصنفین کی کتابوں کے ٹائٹل چھاپے گئے ہیں جو ادارے کی تازہ ترین مطبوعات ہیں۔ گیٹ اپ خوبصورت ‘سمارٹ کتاب ہے۔ قیمت 300 روپے ہے۔
لکھنئو سے کراچی تک
یہ انیس احمد کی یادداشتیں بھی ہیں اور سفرنامہ بھی۔ ٹائٹل پر مصنف کے علاوہ ایک عمارت کی تصویر شائع کی گئی ہے، اس عبارت کے ساتھ کہ ''صاحب خود نوشت انیس احمد کی آبائی قیام گاہ ''حفیظ منزل ‘‘اعظم گڑھ، بقول شمس الرحمن فاروقی ''افسانوی کوٹھی‘‘۔ پس سرورق قائداعظم ‘علامہ محمد اقبال‘ شبلی نعمانی ‘مولانا حالی ‘مرزا ابوالحسن اصفہانی‘ خمار بارہ بنکوی‘ فیض‘ فضا اعظمی‘ شوکت تھانوی‘ حسین شہید سہروردی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی تصاویر ‘نظم و نثر پر مشتمل 450 صفحات ‘قیمت 800 روپے۔
اُردو دوہے
ٹائٹل پر درج تحریر کے مطابق یہ صنف دوہا پر پہلی معلوماتی جامع اور مبسوط کتاب ہے جو بھارتی مصنف ظہیر غازی پوری کی تصنیف ہے۔ پس سرورق تحریر شاعر علی شاعر کی ہے۔ یہ ایک تنقیدی جائزہ ہے جس میں مختلف دو ہانگاروں کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور اس صنف سے دلچسپی رکھنے والوں کی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے ‘جس میں دوہا کے عروضی معاملات سے بھی بحث کی گئی ہے ۔ضخامت کوئی ڈیڑھ سو صفحات ‘دیدہ زیب سرورق اور قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔
عُروضِ آصفیہ
فن عروض پر اس کتاب کے مصنف بلکہ مولف سید آصف ہیں ۔ شروع میں عرض مولف، مقدمہ ‘ تجزیہ بقلم مولف اور تمہید بحوالہ فن شاعری ٔ مصنف علامہ اخلاق دہلوی کے قلم سے ۔انتساب خلیل بن احمد بصری کے نام ہے۔ ٹائٹل خوبصورت ۔فن عروض سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور مثالیں دے دے کر اس فن کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نو آموز شعراء کے بیحد کام کی چیز ہے۔ صفحات 127 اور قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔
اپنے تماشے کا ٹکٹ
یہ شارق کیفی کی نظموں کا مجموعہ ہے جو نئی دہلی سے شائع ہوا ہے اور جس کا دیباچہ نامور نقاد‘ شاعر ‘فکشن رائٹر اور ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے۔ اسی تحریر سے ایک اقتباس پس سرورق کی بھی زینت بنایا گیا ہے۔ پیش لفظ شارق کیفی نے خود لکھا ہے ۔ٹائٹل خوبصورت ہے اور کتاب سمارٹ ۔دوسری نظم کا عنوان ''کنیا‘‘ ہے جو خالد جاوید کے نام ہے ۔نظمیں مختصر ہیں اور خیال انگیز ۔انتساب بھی شمس الرحمن فاروقی کے نام ہے۔ صفحات 128 اور قیمت درج نہیں۔
لاہور کا ادبی منظرنامہ
یہ کتاب ڈاکٹر عامر شہزاد نے لکھی ہے جو حلقہ ارباب ذوق لاہور کی ہفتہ وار رودادوں پر مشتمل ہے جو 11 مئی 2014ء تا 26 اپریل 2016ء کو محیط ہیں۔ ٹائٹل پر ان مصنفین کی تصاویر ہیں جنہوں نے ان اجلاسوں میں حصہ لیا۔ پس سرورق مصنف کے ساتھ ساتھ مجلس عاملہ کے ارکان ڈاکٹر شاہدہ ‘دلاور شاہ ‘اعجاز رضوی اور زاہد مسعود کی تصاویر ہیں اور اس کے علاوہ ان کارروائیوں سے مزید معلومات۔انتساب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نام ہے۔ الفیصل ناشران لاہور نے چھاپی۔ضخامت 238 صفحات‘ قیمت 450 روپے۔
سردست
خالد خواجہ کا شعری مجموعہ ہے جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا اور قیمت 20 امریکی ڈالر رکھی ہے ۔کتاب کا انتساب امتیاز الحق امیتاز‘ باسط جلیل اور وصی الحسن نقاش کے نام ہے۔ ''خالد خواجہ ...میرا دوست‘‘ کے عنوان سے عامر سہیل نے دیباچہ لکھا ہے جن کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ پس سرورق پر مشتمل شاعر کی تصویر ‘ اندرون سرورق غزلیہ اشعار اور ایک نظم ۔صفحات 160 ٹائٹل دیدہ زیب‘ گٹ اپ عمدہ۔
آج کا مقطع
جو قاتلوں سے‘ ظفر‘ بچ رہیں گے وہ خوش بخت
محافظوں کی حفاظت میں مارے جائیں گے