تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2016

خدا حافظ

قارئینِ کرام آپ کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ تین ماہ بعد جولائی میں، جب امید ہے کہ میری کتاب چھپ چکی ہو گی، میں کالم نویسی کو خیر باد کہہ دوں گا۔ یوں آپ ایک نیم صحافی اور نیم دانشور کے عجیب و غریب مضامین دیکھنے کی اذیت سے چھٹکارا پا لیں گے۔ کتاب لکھتے ہوئے، ایسے بہت سے دلچسپ حقائق میرے سامنے آ رہے ہیں، جنہیں اگلے تین ماہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا۔ یہ امکان بہت کم ہے کہ مجھ ایسے Pseudo intellectual کا جانا آپ کی طبیعت پہ ناگوار گزرے۔ یہا ں کچھ اعترافات میں آپ کے سامنے کرنا چاہوں گا۔ 
صحافت میں میری آمد حادثاتی تھی۔ میری زندگی ہمیشہ حادثات ہی کے تحت بڑے موڑ مڑتی رہی ہے۔ کالم نویسی کی آمدن ہی سے میری گزر بسر ہوتی تھی۔ اس کے سوا اور کوئی بڑا مقصد میرے سامنے نہیں تھا۔ میں ایک سیدھے سادے سپاہی کا سا دماغ رکھتا تھا جو ''یس سر‘‘ اور ''نو سر‘‘ سے آگے کی نہیں سوچتا۔ جو صرف واضح احکامات بجا لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، خود سے سوچ نہیں سکتا۔ پھر زندگی میں ایک بڑے استاد سے پالا پڑا۔ ان کا نام پروفیسر احمد رفیق اختر ہے۔ میں ان کا نمائندہ (representative) تو ہرگز نہیں بلکہ جہاں تک مذہب پر رائے دینے کا تعلق ہے، میرا شمار استادوں کی بجائے لونڈوں کھونڈوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ انسانی عقل کو مخاطب کرتے ہیں۔ تناظر میں وسعت پیدا کرتے ہیں اور ذہن کو سوچنے پر، سوالات پر مجبور کر دیتے ہیں۔ عقیدت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اگر میرے کالموں کو آپ دیکھیں تو صحیح یا غلط، میں سوالات ہی اٹھاتا رہا ہوں۔ 
اس دوران بہت سی غلطیاں مجھ سے سرزد ہوئیں۔ میں نے لکھنا شروع کیا تو میری عمر صرف 26 برس تھی۔ شروع میں، حدیث نقل کرتے ہوئے جیسی احتیاط کرنی چاہیے، ویسی میں نہ کر سکا۔ ایک دو حدیثوں میں، میں نے فاش غلطی کی۔ ان کی تصحیح بھی جانے سے پہلے میں کر جائوں گا۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ 
کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عائد تھیں، اب میں ان سے سبکدوش ہو چکا ہوں۔ ہمیشہ سے کچھ خواہشات میرے سینے میں مچلتی رہی ہیں۔ میں زمین کو بلندی سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے پیراگلائیڈنگ کا شوق ہے۔ میں ہوا میں اڑنا چاہتا ہوں۔ مجھے انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جیسے مشرقی ممالک دیکھنے کا شوق ہے۔ اب تک مجھے کبھی فرصت ہی نہ مل سکی۔ اب اگرچہ میں شادی شدہ ہوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ روایتی بیویوں کے برعکس میری شریکِ حیات ہمیشہ میری خوشی میں خوش رہتی ہے۔ میں آزاد ہوں اور اب شاید اپنے شوق پورے کر سکوں۔ 
زندگی کی بہت ساری تکالیف کا حل علم میں پوشیدہ ہے۔ ایمان علم سے ہے اور صبر بھی۔ زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص میں نے نہیں دیکھا جسے آزمائش سے واسطہ نہ پڑا ہو۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے اور جب سے انسانی دماغ میں عقل کا نزول ہوا ہے، ہمیشہ ہر انسان آزمایا گیا ہے۔ زندگی ہماری خواہشات کی پیروی نہیں کرتی۔ ہمیں اپنے آپ کو اس کے مطالبات سے ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جزا کی نہیں، آزمائش (test) کی دنیا ہے۔ انسان اولاد سے آزمایا جاتا ہے اور بیماری سے۔ رزق کی تنگی سے اور فراخی سے۔ رشتے داروں کے برے روّیے سے۔ غصے، حسد اور ہر قسم کے جذبات سے۔ جذبات جب غالب آتے ہیں تو عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ انسان غلط فیصلے کرنے لگتا ہے اوران غلط فیصلوں کے نتیجے میں پھر اسے تکلیف پہنچتی ہے۔ 
آزمائش سے مبرّا کوئی نہیں۔ امیر اور غریب، رعایا اور حکمران، حسین اور بدصورت۔ زندگی آزمائش ہی آزمائش ہے۔ ایک سطر میں بیان کیا جائے تو آزمائش صرف یہ ہے کہ انسان عقل اور جذبات میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر وہ عقل کا انتخاب کرے گا تو لامحالہ اپنی پیدائش پر، زمین و آسمان پر غور کرے گا اور خدا تک پہنچ کر رہے گا۔ اگر وہ عقل کا انتخاب کرے گا تو جبلتوں کو غالب آنے نہیں دے گا۔ خلافِ شریعت اور ممنوعہ کاموں سے بچے گا۔ یوں وہ بدنامی سے، جھگڑوں سے بچے گا۔ اگر وہ جذبات کو غالب آنے دے گا تو ساری زندگی وہ جبلتوں کو دودھ پلا کر طاقتور سے طاقتور کرتا چلا جائے گا اور یوں ان کے ہاتھ کھلونا بن جائے گا۔ وہ ان کا غلام بن جائے گا۔ کسی صورت اسے تسکین نصیب نہیں ہو گی۔ اس دوران اس کی عمر گزرتی چلی جائے گی۔ بڑھاپا آئے گا اور اپنے ساتھ پچھتاوا لائے گا۔ اگر وہ جذبات کو غالب رکھے گا تو ناجائز رشتے پالے گا اور ہر ناجائز رشتہ تھوڑی سی تسکین کے بعد بہت ساری اذیت دیتا ہے۔ 
دنیاوی ترقی میں بھی عقل بند دروازے کھولتی ہے۔ کاروبار سبھی کرتے ہیں لیکن ایک شخص جو خدمات اور اشیا میں ایک نئی چیز کا اضافہ کرتا ہے، وہ آگے نکل جاتا ہے۔ جن قوموں نے عقل، تعلیم اور تحقیق کو پروان چڑھایا وہ نمایاں اور ممتاز ہیں۔ پاکستان کا دفاع اگر ناقابلِ تسخیر ہوا تو ایٹمی تحقیق کے باعث۔ شاہین تھری تعلیم اور تحقیق کے ذریعے بنا۔ آج بھارت جانتا ہے کہ اس کا چپہ چپہ شاہین تھری کی زد میں ہے۔ پاکستان نے چھوٹے ایٹم بم بنائے جو روایتی جنگ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس صورتِ حال نے بھارت کو مایوس کر دیا ہے۔ یہ اکثر و بیشتر جو بظاہر جارحانہ رویہ ہم دیکھتے ہیں، اس کی بنیاد گہری مایوسی ہی ہے۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے دفاع کے، ہم اور کہیں عقل اور تعلیم کا راستہ اختیار نہیں کر سکے۔ قوم کے قیمتی دو سال انتخابی دھاندلی کے جھگڑے میں صرف ہوئے۔ بھارت میں کرپشن پاکستان سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود اگر وہاں دھاندلی کا شور نہیں اٹھتا تو اس کا سبب بہتر ٹیکنالوجی ہے، جس میں گڑبڑ ممکن نہیں۔ 
سولہ برس جس تعلیمی نظام سے ہم گزرتے ہیں، اس میں عقل کا استعمال نہیں کرایا جاتا۔ امتحان صرف اور صرف یادداشت کا ہوتا ہے۔ یہ نظام اس دور میں رائج ہے، جب ایک انچ سے بھی چھوٹی چپ میں پوری لائبریری سما سکتی ہے۔ بطور ایک قوم ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved