تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     12-04-2016

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

اس بیزاری کی وجہ کیا ہے؟ وہ اقبال نے ساقی نامہ میں شعر کے پہلے مصرع میں بیان کی ہے ع 
پرانی سیاست گری خوار ہے 
ہماری بوسیدہ، گلی سڑی، خستہ حال سیاست کی خواری (روزمرہ کی زبان میں خوار کے ساتھ اور اس سے پہلے ذلیل کا لفظ بھی لگایا جاتا ہے) اب کوئی ایٹمی راز نہیں رہی، زبان زد عام ہے۔ یہ خواری دو خبروں اور ایک بڑی تصویر (جو برطانوی روزنامہ گارڈین کے دو اندرونی صفحوں پر پھیلی ہوئی تھی) کا روپ دھار کر وسط فروری میں عالمی پریس میں نمایاں طور پر پیش کی گئی۔ پہلی خبر کا تعلق سلمان تاثیر کے پانچ سال پہلے اغوا ہو جانے والے بیٹے شہباز تاثیر کی بازیابی کے بارے میں تھی۔ 33 سالہ شہباز بلوچستان کی ایک مفلوک الحال بستی کچلاک کے ایک ڈھابے (جسے برطانوی اخباروں نے مبالغہ آرائی اور شائستہ زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریستوران لکھا) سے برآمد کیا گیا۔ ڈھابے کا نام السلیم ہے جو روایتی بلوچ کھانوں کے لئے مشہور ہے۔ برطانوی اخباروں کے مطابق بلوچستان کی حکومت نے شہباز تاثیرکو اغوا کرنے والوں سے مُک مکا کر لیا‘ اور یہ شریفانہ سمجھوتہ ہو جانے کی وجہ سے اغوا کرنے والوں نے مغوی کو رہا کر دیا۔ ڈھابے کے مالک محمد سلیم نے بھی اس بیانیہ کی تصدیق کی۔ شہباز نہ جانے کب سے بھوکا تھا کہ اُس نے رہائی ملنے کے فوراً بعد اسی ڈھابے میں 340 روپے خرچ کرکے ایک من پسند چکن ڈش کھائی۔ جان میں جان آئی تو اُس نے ایک راہگیر کا موبائل فون مانگ کر اپنے گھر والوں کو اپنا حدود اربعہ بتایا۔ سکیورٹی حکام وہاں بہت جلد پہنچ گئے اور اُسے اپنی حفاظت میں کوئٹہ لے گئے۔ وہاں سے کراچی اور کراچی سے لاہور۔ برطانوی اخباروں کے مطابق شہباز تاثیر کو لشکر جھنگوی نے اغوا کیا، جس نے اُسے القاعدہ کے ارکان کے حوالہ کر دیا اور اس کے بعد پاکستانی طالبان کی تحویل میں رہنے کا تیسرا اور آخری مرحلہ آیا۔ چند مسلح افراد نے 26 اگست 2011ء کو شہباز کو گلبرگ (لاہور) میں اپنے دفتر کے قرب و جوار میں اُس کی مرسڈیز کار سے زبردستی نکالا اور اغوا کر لیا تھا۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا اغوا ہو جانے والے بیٹا ابھی تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ جب سے پاکستان میں ریاستی عمل دخل اور سرکاری نظم و نسق مفلوج ہوا ہے، اغوا کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ دن دہاڑے بھرے بازاروں سے اغوا کی واردات اب کوئی انوکھی خبر نہیں رہی۔ شہباز کی بازیابی کے بعد قدرتی امر ہے کہ گیلانی خاندان اپنے ایک اغوا ہو جانے والے فرد کی بازیابی کے بارے میں زیادہ پُراُمید ہو گیا ہے۔ ادھر برطانوی اور یورپی ممالک کے میڈیا کا تجسس اور دلچسپی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ 
دوسری خبر دُنیا کے دوسرے سرے سے آئی۔۔۔ کیوبا سے‘ جہاں امریکی عقوبت خانے کا نام گوانتانامو بے(GuanTanamo Bay) ہے۔ وہاں کئی بے گناہ لوگ برسوں اس جرم میں تشدد کا نشانہ بنائے جاتے کہ ان پر دہشت گرد ہونے یا دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا شبہ ہے۔ وہ مجرم ہوں یا نہ ہوں، مشکوک ہونا ہی انہیں اس عقوبت خانے میں غیر معینہ عرصہ تک بدترین عذاب کا شکار بنانے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے۔ وہاں جتنے بھی قیدی ہیں، ان میں سب سے بڑی عمر کے قیدی کی عمر 68 سال ہے اور وہ پاکستانی ہے۔ نام ہے سیف اللہ پراچہ۔ اس رسوائے زمانہ عقوبت خانے میں اس کا قیام بارہ سال سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ گرفتاری سے پہلے یہ شخص پاکستان میں بڑے پیمانے پر کاروبار کرتا تھا۔ اب وہ اپنی رہائی کے لئے اپنا مقدمہ بڑی شد و مد سے پیش کر رہا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق پراچہ کا جرم اس لئے سنگین ہے کہ اُس کا رابطہ القاعدہ کے چوٹی کے قائدین کے ساتھ تھا اور اُس نے القاعدہ کی کئی طریقوں سے مدد کر کے اُس کی دہشت گرد کی وارداتوں کو کامیاب بنایا۔ پراچہ کا وکیل ڈیوڈ ریمی (David Remei ) بہت پُرامید ہے کہ اس کا موکل جلد رہا ہو جائے گا‘ کیونکہ وہ امریکی سکیورٹی کے لئے مزید خطرے کا باعث نہیں رہا۔ وہ ذیابیطس کا بدترین مریض ہے، اب یہ وہ شخص نہیں رہا جسے امریکی جاسوسوں نے 12 سال پہلے گرفتار کیا تھا۔
یہ تو تھا تذکرہ دو خبروں کا، اب ہم اس تصویر کی طرف آتے ہیں جو روزنامہ گارڈین کے پورے دو صفحات پر Spread Sheet کی صورت میں شائع ہوئی۔ یہ لیاقت باغ میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ کی تصویر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ لیاقت باغ میں نماز جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اور اس باغ سے ملحقہ سڑکوں پر بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ اس نماز جنازہ میں شریک تھے۔ شرکا کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان میں شاید ہی کوئی نماز جنازہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نے پڑھی ہو‘ اور وہ بھی ایک دن کے نوٹس پر۔ تصویر میں حد نگاہ تک سبز پگڑیاں لیے ہوئے لوگ نظر آرہے تھے‘ جن کا تعلق نچلے متوسط اور محنت کش طبقہ سے تھا اور یقیناً وابستگی مذہبی جماعتوں سے تھی۔ پاکستانی معاشرہ جس طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے، اس میں یہ لوگ خلیج کے اس پار رہتے ہیں۔ ان کی دُنیا الگ ہے اور سوچ بھی۔ نماز جنازہ پڑھنے والے اور ممتاز قادری کو شہید سمجھنے والے لوگوں کا طبقاتی محل وقوع تو بیان کیا جا چکا ہے، ان کا ذہنی حدود اربعہ کیا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں (اور وہ کروڑوں میں ہیں) جو ہمارے مراعات یافتہ طبقہ کی اندھا دُھند لوٹ مار، ہر قانون کی خلاف ورزی، آئین کی ہر ممکن پامالی اور ہر قسم کی زیادتی کی وجہ سے میر و سلطاں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ آپ صرف اُن کے سر کے اوپر لپٹی ہوئی دستار کا سبز رنگ نہ دیکھیں، یہ ایک سطحی تجزیہ ہو گا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اُن کے سر کے اندر جھانک کر اُن کے خیالات اور نظریات کا مطالعہ کریں۔ اُن کا رد عمل اُس وقت سمجھ میں آئے گا جب آپ اپنی توجہ اُس عمل پر مرکوز کریں گے جو منطقی طور پر جوابی کارروائی یعنی رد عمل کے طور پر سامنے آیا۔ جب تک عمل نہیں بدلے گا، رد عمل بھی جوں کا توں رہے گا۔۔۔۔ نہلے پر دہلا۔ علامتوں پر واویلا کرنے والوں کو اسباب پر غور کرنا چاہئے۔ میں دعاگو ہوں کہ ان سطور کو پڑھنے والوں کا ایک فیصد بھی میری درخواست کو قبول کرکے ان سنگین برائیوں پر نظر ڈالے‘ جنہوں نے ہمارے اُوپر بڑے بڑے عذاب مسلط کئے ہیں تو غنیمت ہو گا۔ اُن عذابوں کی فہرست یوں بنتی ہے: اغواء برائے تاون، بھتہ خوری، لینڈ مافیا (بلکہ ہر قسم کا مافیا)، پولیس مقابلے، ٹارگٹ کلنگ، ہر سطح پر کرپشن، خط افلاس کے نیچے تقریباً ڈھائی کروڑ افراد، ہر میدان میں استحصال، پُرامن بقائے باہم اور رواداری کا خاتمہ، بنیاد پرستی اور شدت پسندی میں اضافہ، دہشت گردی، بڑے لوگوں (سیاست دانوں اور چوٹی کے سرکاری افسروں اور ارب پتی سرمایہ داروں) کے خلاف لڑنے والوں (اور خصوصاً مارے جانے والوں) اور قانون شکنی کرنے والوں کی عوامی پذیرائی۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ممتاز قادری کی نماز جنازہ پڑھنے والوں میں ایک شخص بھی کراچی اور لاہور میں حالیہ منعقد ہونے والے کتاب میلوں میں شریک نہ ہوا تھا۔ کتاب میلوں میں جانے والوں اور اچھی کتابوں کو پڑھنے والوں اور مذکورہ نماز جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد تقریباً برابر ہے، مگر وہ ایک قوم کا فرد ہوتے ہوئے بھی ایک دُوسرے سے اتنے ہی دُور ہیں جتنا قطب شمالی سے قطب جنوبی۔ یہ دراڑ پڑ چکی ہے اور بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اصحاب فکر و دانش کا اہم ترین فریضہ اس خلیج کو پاٹنا ہے، اس دراڑ کو مٹانا ہے۔ اگر ہم اس دراڑ کو نہ مٹا سکے تو (خاکم بدہن) خود مٹ جائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارا وہ عبرتناک حشر ہو جو اِن دنوں اہل شام کا ہو رہا ہے۔ تقریباً نصف صدی سے شام پر پہلے حافظ الاسد اور پھر اُس کے بیٹے بشارالاسد کی سربراہی میں ایک سفاک غیر جمہوری، غیر نمائندہ اور انتہائی ظالم اقلیت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ عوام اس نظام کو بدلنے کی بار بار کوشش کرتے رہے اور ہمیشہ ناکام رہے۔ آخر نوبت خانہ جنگی تک جا پہنچی۔ ڈھائی لاکھ (ڈھائی ہزار نہیں ڈھائی لاکھ) شامی لڑتے لڑتے ہلاک ہو چکے ہیں اور ساڑھے سات لاکھ مرد، عورتیں اور بچے مہاجر بن کر ملک سے بھاگ کر یورپ پہنچ گئے ہیں یا پڑوسی ملکوں کے مہاجر کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ 
میرے مندرجہ بالا موقف کی تائید ایک بہت اچھی کتاب نے بھی کی ہے۔ نام ہے Blood Year: Islamic State and the Failure of the war on Terror مصنف کا نام ہے David Kilcullen۔ وہ برٹش آرمی سے کرنل کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر مغربی ممالک کے دفاعی مشیر بن گیا ہے۔ اُس نے مشرق وُسطیٰ کی موجودہ صورت حال کا مغربی طاقتوں کو اور خصوصاً عراق اور افغانستان پر بے جواز اور غیر قانونی جارحیت کرنے والے ممالک کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ماہ فروری میں یہ کتاب لندن میں اُسی ناشر یعنی Hurst نے شائع کی جس نے دو سال پہلے میرے ایک بیٹے (ڈاکٹر فاروق باجوہ) کی 1965ء میں لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ پر کتاب شائع کی تھی۔ فاضل مصنف کی رائے میں مشرق وسطیٰ کے حالات کو نارمل ہونے میں ابھی پندرہ برس لگیں گے۔ وجہ صرف ایک ہے۔ جو تین چوتھائی صدی پہلے اقبال نے بیان کی تھی ؎
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved