تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-04-2016

چند ایس ایم ایس‘ ٹویٹ اور آخری نعرہ

''آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی کام نہیں‘‘۔ یہ وہ بیان ہے جو حکومتی چمچے بلکہ کڑچھے مسلسل جاری فرما رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ بیان سو فیصد درست ہی ہو کہ اس عاجز کی نہ تو کوئی آف شور کمپنی ہے اور نہ ہی کوئی آن شور کمپنی ہے؛ تاہم اس آف شور پر دنیا بھر میں مچنے والا شور بتا رہا ہے کہ معاملہ صرف گڑبڑ ہی نہیں بہت زیادہ گڑبڑ ہے۔ ظاہر ہے‘ اگر آف شور کمپنی بنانا پاکستان کے سیاستدانوں کے لیے جائز اور قانونی ہے تو پھر آئس لینڈ اور یوکرائن میں بھی اسے قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ دنیا بھر کے کاروباری لوگوں نے‘ سیاستدانوں نے‘ راشی افسروں نے جو آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنی دولت کو تحفظ دیا ہے‘ تو آخر اس سارے نظام کو جسے ''ٹیکس ہیون‘‘ کا نام دیا گیا ہے‘ کسی نہ کسی طریقے سے خواہ گھما پھرا کر ہی سہی‘ مگر قانونی تحفظ تو بہرحال دیا ہی گیا ہو گا۔ جہاں جہاں دنیا بھر میں ''موزیک فونسیکا‘‘ اور اس جیسی اور لاء فرمز کام کر رہی ہیں‘ انہیں کہیں نہ کہیں تو قانون حفاظت فراہم کرتا ہو گا۔ وزیر صفائی پرویز رشید کا بیان بظاہر ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔
دنیا بھر بہت سی چیزیں قانوناً درست ہوتی ہیں۔ یا کم ازکم قابل اعتراض یا قابل تعزیر نہیں ہو تیں‘ مگر اس کے باوجود انہیں درست نہیں سمجھا جاتا۔ یورپ میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی قانوناً جائز ہے اور آئین اسے تحفظ دیتا ہے مگر معاشرہ بیک وقت اتنا لبرل ہے کہ ریفرنڈم میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس کے حق میں ووٹ دیتا ہے مگر کسی حکمران یا وزیر کے ساتھ یہ ''خوبی‘‘ چسپاں ہو جائے تو اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور اقتدار سے رخصتی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ دفتروں میں لیڈیز سیکرٹریز کے ساتھ معاشقوں کو اس حد تک قبول کیا جا چکا ہے کہ اب وہاں ایسے لطیفوں پر کوئی ہنستا بھی نہیں‘ جس میں باس اور لیڈی سیکرٹری کے تعلقات کا مذاق اڑایا گیا ہو کہ اب باس اور لیڈی سیکرٹری کا معاشقہ بالکل عام سی بات بن کر رہ گیا ہے‘ مگر کوئی حکومتی عہدیدار یا سیاستدان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مغرب میں قانون باہمی رضا مندی سے افیئر چلانے پر رتی بھر قدغن نہیں لگاتا‘ مگر معاشرہ اپنے حکمرانوں اور نمائندوں کو Extra Marital Relation کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ مغرب جیسے مادر پدر آزاد اور انسانی حقوق کے علمبردار معاشرے میں بھی لوگ اپنے حکمرانوں کو بہت سی قانونی رعایتوں اور اجازتوں کے باوجود عام پبلک اور عام شہری سے بالکل ہٹ کر اور مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران اور زورآور طبقہ بھی قانون سے ہٹ کر دیکھے جاتے ہیں کہ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہ قانون سے ماورا ہوتے ہیں۔ مغرب میں بھی حکمران طبقے کو ملکی قانون کے تحت حاصل بہت سی آزادیوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اور وہ اپنے ملکی قانون سے ہٹ کر ہی دیکھا جاتا ہے اور اس سے سلوک بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران قانون کی گرفت سے آزاد ہیں اور مغرب میں حکمران قانون کی آزادی سے محروم ہیں۔
برسوں ہوتے ہیں‘ مجھے ایک دوست نے ایک واقعہ سنایا کہ وہ ایک بین الاقوامی کورس کے سلسلے میں یورپ کے ایک ملک میں گیا اور تین چار ماہ کے بعد جب اس کورس کے آخری دو تین دن رہ گئے تو اس کورس کے شرکا کے ساتھ کورس کے حوالے سے منتظمین نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سوال و جواب کی ایک ایسی ہی نشست کے دوران میرے اس دوست نے منتظمین سے سوال کیا کہ یہاں اخبارات میں ایک وزیر کے اپنی لیڈی سیکرٹری سے تعلقات کے حوالے سے خبر چھپنے پر بڑا رولا پڑا اور بالآخر اس وزیر کو نہ صرف مستعفی ہونا پڑا بلکہ اس کا سارا سیاسی مستقبل ختم ہو گیا ہے۔ کیا یہ آپ کے معاشرے کی دہری پالیسی نہیں کہ آپ کا قانون جس بات کو تحفظ دیتا ہے آپ اسے شخصی آزادی اور ذاتی زندگی میں حاصل قانونی تحفظات کے باوجود معاشرے میں ذلیل و رسوا کر رہے ہیں؟ قانون اسے جن باتوں میں تحفظ دینے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے آپ اسے انہی معاملات میں خوار کر رہے ہیں۔آپ قانون کا یکساں اطلاق کیوں نہیںکر رہے؟
منتظم نے کہا: آپ کا اعتراض درست ہے مگر جو لوگ ہمارے نظام میں ملکی سلامتی سے وابستہ ہیں اور جہاں ہمارا قومی مفاد آڑے آتا ہے‘ ملکی سلامتی اور قومی مفاد سے وابستہ افراد پر بہت سی ایسی ان کہی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں جو قانوناً نہ تو جرم ہیں اور نہ ہی ناجائز۔ ان افراد کو ہم عام آدمی سے کہیں زیادہ طاقت‘ عزت‘ اختیار اور سہولتیں دیتے ہیں اور اس کے عوض ان سے عام آدمی سے زیادہ ذمہ داری اور جواب دہی کی امید رکھتے ہیں۔ ہم جن لوگوں کو اپنے ملکی مفادات اور سلامتی کا نگران بناتے ہیں انہیں عام آدمی سے بلند تر اخلاقی معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کو عام بشری کمزوریوں سے ماورا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملکی سلامتی اور رازوں کا امین ہے‘ اسے ایسے کمزور لمحوں سے دور ہونا چاہیے جہاں ملکی مفاد اور قومی سلامتی کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس میں دو بنیادی چیزیں ہیں جن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے‘ ایک مالی معاملات اور دوسرے اخلاقی معاملات‘ جن میں عورت سرفہرست ہے کہ ان دو چیزوں کی لالچ میں آپ بعض اوقات اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں آپ کی لالچ یا ہوس آپ کے فرائض منصبی پر غالب آ جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ ملکی مفاد یا سلامتی کے لیے رسک بن جاتے ہیں۔ ہم آپ کو اس چیز کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔ قانون کی عمومی رعایتوں کا اطلاق عام آدمی کے لیے تو بالکل جائز ہے مگر اس کی بہت سے رعایتوں سے وہ شخص بہرحال مستفید نہیں ہو سکتا جو قومی مفاد اور ملکی مفاد کا امانت دار ہے۔
آف شور کمپنیاں بنانا عین ممکن ہے کہ جائز ہوں مگر کیا حکمرانوں کے لیے بھی؟ ٹیکس سے بچنے کے ہر حربے عام آدمی کی حد تک تو جائز سمجھے جا سکتے ہیں (حالانکہ یہ ملکی اقتصادی حوالوں سے عائد اخلاقی اصولوں کے لحاظ سے کسی طور پر بھی جائز نہیں) لیکن ملک میں ٹیکس کلچر کے نمائندے اور اس کے نگران پر تو کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ وہ خود ٹیکس سے بچنے کے حربے استعمال کرے۔ حالت یہ ہے کہ ہم پوری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں کہ ہمیں خیرات دیں۔ ساری دنیا میں لوگوں کے ترلے منتیں کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کریں۔ ملکی خزانے میں زر مبادلہ کی سطح بلند کرنے کی غرض سے مہنگے ترین یورو بانڈ بیچتے پھر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو یقین دلاتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا ملک ان کی سرمایہ کاری کے لئے بہترین اور محفوظ ترین ملک ہے اور خود یہ حالت ہے کہ وزیر اعظم کے اپنے بچے پاکستان سے باہر کاروبار کر رہے ہیں اور جائدادیں خرید رہے ہیں۔ چلیں لولا لنگڑا ہی سہی مگر یہ جواز پیش کیا جا سکتا تھا کہ تب پاکستان میں ہماری فیملی محفوظ نہیں تھی مگر اب جبکہ ''جمہوریت‘‘ بحال ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں‘ خاندانی حکومت قائم ہوئے تین سال ہو چکے ہیں‘ برخورداران نے چار دن بھی ٹک کر پاکستان میں نہیں گزارے اور دو پیسوں کا کاروبار اس ملک میں نہیں کیا۔ اس دوران والد محترم ہر چوتھے دن سرکاری دورے پر برطانیہ جا کر بچوں کے کاروبار کو دن دس گنا رات بیس گنا ترقی کرتے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے رہے۔ برطانیہ سے ایک دوست نے ای میل کر کے بتایا کہ ایسی آف شورکمپنیاں ایک بار رقم کی منتقلی کا کام کرکے فارغ نہیں ہو جاتیں بلکہ کمیشن‘ کک بیکس اور میگا پروجیکٹس سے بنائے جانے والے مال پانی کو ٹھکانے لگانے کے کام آتی رہتی ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنی تین سالہ وزارت عظمیٰ کے دوران برطانیہ کے اٹھارہ دورے کیے ہیں۔ ظاہر ہے ڈیوڈ کیمرون وغیرہ کے پاس تو اتنا وقت نہیں کہ وہ ہر دو ماہ بعد ہمارے محترم وزیر اعظم کو شرف ملاقات بخشیں‘ لہٰذا مجبوراً میاں نواز شریف صاحب اپنے لندن والے برخوردار سے جائدادوں کا حال اور آف شور کمپنیوں کی کارکردگی بارے پوچھ پاچھ لیتے ہوں گے۔ آخر بزرگ ہوتے کس لیے ہیں؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ووٹر بے حس ہیں اور حکمران ڈھیٹ‘ لہٰذا یہاں نہ کوئی استعفیٰ دے گا اور نہ ہی کوئی سڑکوں پر نکلے گا۔ بیرک والے بھی جمہوریت کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت اور لوٹ مار‘ آئین اور کرپشن اور قانون اور اخلاقی گراوٹ ایک دوسرے کی ضد ہیں یا ایک دوسرے کے محافظ؟ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا دو تین ایس ایم ایس اور ٹویٹ حاضر ہیں۔ فی الحال ان برے ترین حالات میں انہی سے کام چلائیں۔
٭ آزادی سے پہلے ہندو بنیے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنیے اور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد للہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔۔۔ ابن انشاء
٭ فلاں وزیر اس لیے زیادہ برا نہیں لگتا کہ جھوٹ بہت بولتا ہے مگر ساتھ الحمد للہ نہیں کہتا۔ انور مقصود 
٭ پانامہ لیکس نواز شریف کے سامنے ایک پہاڑ کی مانند آن کھڑا ہوا ہے۔ آگے چٹان پیچھے پٹھان (عمران خان)۔۔۔ انیتا ہاشوانی
٭ آف شور کمپنیاں عمران خان کی ایجاد ہیں۔۔۔ دانیال عزیز
٭ موٹر کار اور ایٹم بم میرے ماموں کی ایجاد ہیں۔۔۔ طاہر احد
٭ پانامہ لیکس میرے اور میرے خاندان کے خلاف سازش ہے۔۔۔ میاں نواز شریف
٭ دوسری جنگ عظیم میرے لوٹے اور گھڑے توڑنے کے لیے کی گئی تھی۔۔۔ گاما کمہار بذریعہ طاہر احد
٭ پانامہ لیکس عالمی سازش ہے۔۔۔ مولانا فضل الرحمن
صرف نواز شریف پر دبائو بڑھانے کی غرض سے آئس لینڈ اور یوکرائن کے وزرائے اعظم نے استعفے دیے ہیں اور صرف میاں نواز شریف کو انڈر پریشر لانے کے لیے ڈیڑھ کروڑ دستاویزات جاری کی گئی ہیں۔ 
آخری نعرہ: نواز شریف رقم بڑھائو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں (ڈیزل کی قیمتوں میں کمی نے ہمارا بُرا حال کر رکھا ہے) نعرہ لگانے والے کا نام فی الحال معلوم نہیں ہو سکا‘ جیسے ہی پتہ چلے گا آپ کو بتا دیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved