تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     12-04-2016

میاں صاحب سے سابق چیف جسٹس کا گلہ

جناب افتخار محمد چودھری کا دعویٰ تھا، چیف جسٹس کے طور پر اِن کے 6برسوں میں پاکستان کی عدلیہ نے Assertکرنا شروع کیا۔ یہاں آئین کی حکمرانی اور جمہوری اِداروں کی بالادستی کا تصور مستحکم ہوا اور یوں ملک میں کسی نئے مارشل لاء کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ ''یہی بات 1999ء میں بھی کہی جاتی تھی لیکن 12اکتوبر کی فوجی کارروائی کے خلاف کچھ بھی نہ ہوا، کوئی سیاسی احتجاج ، نہ عدلیہ کی طرف سے مزاحمت ، نہ میڈیا کی طرف سے مخالفت‘‘، بے لحاظ اینکر پرسن کا تُرت جواب تھا... ''لیکن میاں صاحب خود ہی مفاہمت کر کے بیرونِ ملک چلے گئے تو مزاحمت کون کرتا؟‘‘ سابق چیف جسٹس نے اپنی مثال کے ساتھ بات کو آگے بڑھایا، ''استعفیٰ دینے سے میرا انکار عدلیہ کی آزادی کی ملک گیر تحریک کا نقطۂ آغاز بن گیاتھا‘‘۔
9مارچ 2007ء کو ڈکٹیٹر کے سامنے(اور تین چار باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں) چیف جسٹس کا حرفِ انکار بلاشبہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک نئے باب کاآغاز تھا۔ ملک بھر کی وکلاء برادری اُن کی حمایت میں اُٹھ کھڑی ہوئی، مایوس اور نااُمید سیاسی جماعتوں اور اُن کے کارکنوں میں نئی ہمت اور حوصلہ پیدا ہوا، سول سوسائٹی بھی متحرک ہوگئی۔ عام آدمی کا جوش و خروش بھی اس تحریک کا سرمایہ بن گیا۔ 20جولائی کو چیف جسٹس کی بحالی کے عدالتی حکم پر پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ 
3نومبر 2007ء کو''ایمرجنسی پلس‘‘ کا نفاذ عدلیہ پر ڈکٹیٹر کا دوسرا کاری وار تھا۔ اس بار افتخار چودھری اور اُن کے درجنوں رفقاء کے علاوہ آزاد و سرکش میڈیا بھی ہدف تھا۔ مارچ2009ء میں افتخار چودھری والی 2نومبر2007ء کی عدلیہ دوبارہ بحال ہوگئی۔ (اس میں میاں نوازشریف کی زیرقیادت 15مارچ کا لانگ مارچ اور دیگر سیاسی جماعتوں ، وکلا ء برادری اور عدلیہ کی آزادی میں یقین رکھنے والے طبقات کا کردار ایک الگ موضوع ہے)۔ چیف صاحب کے اس دعوے سے انکار بھی ممکن نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب خودشناس اور خود آگاہ عدلیہ نے Assert کرنا، اپنا آپ منوانا شروع کیا۔ ملک کے طاقتور ترین اِداروں کو طلب کرنے میں بھی اِسے کوئی جھجک ، کوئی گریز نہ ہوتا۔ سیاسی حکومت کے خلاف اسکینڈلز کا بے رحمانہ جائزہ لیتے ہوئے وہ یہ یاددِہانی بھی ضروری سمجھتے کہ نظریۂ ضرورت دفن ہوچکا۔ اب کسی کو طالع آزمائی کی، آئین کی پامالی کی اِجازت نہیں دی جائے گی لیکن چیف صاحب کی اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ 12اکتوبر1999ء کی فوجی کارروائی کے خلاف مزاحمت اس لیے نہ ہوئی کہ خودمعزول وزیراعظم نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہ کیا تھا اور وہ ڈکٹیٹر کے ساتھ مفاہمت کر کے بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔ 
12اکتوبر کی سہ پہر وزیراعظم کو پرائم منسٹر ہاؤس سے حراست میں لے کر ایک کمرے میں ڈال دیا گیا۔ کور کمانڈر جنرل محمود اس آپریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ نصف شب کو وہ اپنے تین چار باوردی رفقاء کے ساتھ دوبارہ تشریف لائے اور معزول وزیراعظم کے سامنے تین چار کاغذات رکھتے ہوئے کہا کہ وہ اِن پر دستخط کر کے خود بھی آرام سے رہیں اور انہیں بھی مشکل میں نہ ڈالیں۔ اِن کاغذات میں جنرل پرویز مشرف کی معزولی کا فیصلہ واپس لینے ، وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ، پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات کے لیے ''ایڈوائس‘‘ شامل تھی۔ وزیراعظم کے دستخط حاصل کرنے کے لیے کیرٹ اینڈ اسٹک کے سبھی حربے اختیار کئے گئے۔ ''Over my dead body‘‘ وزیراعظم کے اِن الفاظ کے ساتھ، سخت ناخوشگوار ماحول میں یہ ''ملاقات‘‘ اختتام کو پہنچی۔ اب اگلے 40روز وزیراعظم کو ایسی قیدِتنہائی کا سامنا تھا جس میں بیرونی دُنیا سے اِن کا کوئی رابطہ نہ تھا۔ انہیں اپنے اہلِ خانہ کے حال احوال کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔ پانچ ہفتے بعد انہیں طیارہ اغوا کیس میں پیشی کے لیے اس حالت میں کراچی لے جایا گیا کہ جہاز میں اِن کے ہاتھ نشست کے ساتھ باندھ دیئے گئے تھے۔ رن وے سے عدالت تک وہ بکتر بند گاڑی میں تھے۔ کراچی میں لانڈھی جیل اِن کا مسکن تھی۔ 16اپریل کو عدالت نے انہیں عمر قید اور5لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔ شہبازشریف ، شاہد خاقان عباسی ، غوث علی شاہ، سیف الرحمن، سعید مہدی اور رانا مقبول کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا تھا (امین اللہ چودھری وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے)۔ بس ایک معزول وزیراعظم تھا، جو پرویز مشرف کو کولمبو سے لانے والے جہاز کے ''اغوا‘‘ کا مجرم قرار پایا تھا۔اُس نے یہ فیصلہ بڑے اطمینان کے ساتھ سنا ۔ پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب میں اس کا کچھ احوال لکھا ہے، ''سزا کا حکم سن کر بیگم کلثوم نواز کی آنکھوں میں آنسو آگئے، شہباز شریف صاحب کی اہلیہ نصرت بے ہوش ہوگئیںلیکن سزایافتہ ''مجرم‘‘ پُراعتماد تھا، وہ کہہ رہا تھا، اللہ رحم کرے گا۔ اپنے ساتھیوں کی بریّت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ، وہ اس یقین کا اظہار کر رہا تھا کہ میں بھی جلد رہا ہوجاؤں گا۔ سزا کے بعد7اپریل کا پہلا دِن اس نے لانڈھی جیل میں خاموشی سے گزارا، کھانا کھایا، نماز پڑھی اور حسین نواز کے نام پیغام میں لکھا، بچانے والا مارنے والے سے بڑا ہے‘‘۔
اٹک قلعہ میں قید و بند کے باقی مہینے آزمائش کا بدترین عرصہ تھا جو اس نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ گزارا۔خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف حکومت اپیل میں چلی گئی تھی، اس کے خیال میں مجرم عمر قید کا نہیں، سزائے موت کا مستحق تھا۔ اِدھر ڈکٹیٹر کے حواری اِسے سمجھا رہے تھے، گزشتہ (ضیاالحق کے) مارشل لاء میں سندھی وزیراعظم کی لاش گئی تھی جس سے چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت کو ہَوا ملی۔ اب پنجابی وزیراعظم کو اسی انجام سے دوچار کرکے چھوٹے صوبوں کی شکایت کا اِزالہ کیا جاسکتا ہے اور یوں یہ اقدام قومی یکجہتی کے فروغ کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ ایسے میں معزول وزیراعظم کے بیرونی دوست بروئے کار آئے۔ اس میں سعودی عرب کے شاہ فہد اور ولی عہد شہزادہ عبداللہ کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ اِدھر بیگم کلثوم نواز میدان میں نکل آئی تھیں۔ البتہ میاں صاحب کی اپنی جماعت کا حال بہت پتلا تھا۔ ''ہم خیالوں‘‘ کا ایک گروپ تو12اکتوبر کے ساتھ ہی پرانے بدلے چکانے کے لیے میدان میں آگیا تھا۔ باقیوں میں سے بھی بیشتر رفتہ رفتہ گوشۂ عافیت کا رُخ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ گجرات کے وضعدار چودھری بھی ساتھ چھوڑ گئے ۔ میاں صاحب
ابھی اٹک قلعے میں تھے، جب مسلم لیگ ہاؤسوں پر قبضے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چودھری برادران اس مہم کی قیادت کر رہے تھے۔ آغاز اسلام آباد سے ہوا۔ اخبارات میں تصویر شائع ہوئی۔ مسلم لیگ ہاؤس پر قبضے کے بعد نوازشریف کی تصاویر فرش پر پڑی تھیں اور میاں صاحب کے (سابق) جانثار vکا نشان بنائے ہوئے تھے۔ خورشید ندیم کو ابوالکلام آزاد یاد آئے،''سیاست کے پہلو میں دِل نہیں ہوتا‘‘، ندیم نے اضافہ کیا، مولانا زندہ ہوتے تو دیکھتے، سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ متوالوں اور متوالیوں کا ایک مختصر سا گروہ بیگم صاحبہ کی زیرقیادت عہدِ وفا نبھا رہا تھا۔ اِدھر معزول وزیراعظم کو، ''بھٹو بنانے ‘‘ کے عزائم پختہ تر ہورہے تھے، اُدھر میاں صاحب کے بیرونی دوستوں کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ ''جلاوطنی کی پیشکش‘‘ کے ساتھ سرگرم ہوئے۔ بیگم صاحبہ کے ذریعے یہ پیشکش میاں صاحب تک پہنچی تو اُنہوں نے ابا جی کو فیصلے کا اختیار دے دیا جس کے لیے لاہور کے بزرگ ایڈیٹر سے (جنہیں اباجی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت دیتے تھے) مشورہ ہوا تو اُن کا کہنا تھا، کل جاتے جاتے، آج ہی چلے جائیں۔ یہ نہایت مشکل فیصلہ تھا جو میاں صاحب نے کرلیا۔ ڈکٹیٹر خود کو کمانڈو کہتا تھا۔ اس کے سیاسی حریف نے(جسے ڈکٹیٹر اپنا دُشمن نمبر ایک قرار دیتا تھا) بھی کمانڈو والا فیصلہ کیا، جان بچا کر نکل جانے اور موقع پاکر ، پلٹ کر آنے اور دوبارہ وار کرنے کا فیصلہ۔
10دسمبر کو میاں صاحب اپنی مسلم لیگ کا پرچم جاوید ہاشمی کو تھماکر جدّہ روانہ ہوگئے۔ ایڈیٹروں اور سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات میں ڈکٹیٹر کا کہنا تھا، ملک سے باہر سعودی دوستوں کا اصرار تھا، اندرونِ ملک بیگم صاحبہ (کلثوم نواز) سرگرم تھیں جس سے عدم استحکام کا تاثر پیدا ہورہا تھا۔ ایسے میں ہم نے انہیں باہر بھیجنا ہی مناسب سمجھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved