چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی37 ویں برسی کے موقع پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی ماں بینظیر بھٹو اور اپنے ماموں مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار نہ کرنے اور ان میں سے کچھ کو ملک سے باہر بھگانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان قاتلوں کو کون پکڑے گا؟ جنرل مشرف جو بقول بلاول آئین کا غدار اور ان کی ماں کا قاتل ہے، اسے تو ملک سے باہر جانے دیا گیا لیکن ایان علی کو روکا جا رہا ہے، جو انصاف کا دہرا معیار ہے۔ افسوس کہ لاڑکانہ کے اجتماع میں شامل کسی ایک نے فرد نے بھی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ گزشتہ 8 برسوں سے مسلسل آپ کی پارٹی سندھ پر بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے اور 2008 ء سے2013ء تک مرکز میں آپ کے والد محترم کی ون مین حکومت رہی ہے، اس دوران وہ نہ تو اپنی اہلیہ کے قاتلوں کا کچھ کر سکے اور نہ ہی اپنے برادر نسبتی اور آپ کے ماموں مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کو پکڑ سکے۔ اب یہ تو کسی طور بھی مناسب نہیں کہ آپ کی ہی حکومت ہو اور آپ اپنی ماما اور ماموں کے قاتلوں کو ملک سے باہر بھجوانے کا الزام کسی دوسرے پر لگانا شروع کردیں۔ بلاول بھٹو نے درست کہا کہ ان کی ماں اور ماموں کے قاتلوں کو کوئی بھی پکڑنے کی کوشش نہیں کر رہا، مگر کیا کیا جائے کہ بلاول نے ان لوگوں کے نام لینے سے گریز کیا ہے اور صرف جنرل مشرف کی جانب اشارہ کرنے پرہی اکتفا کیا ہے۔ لیکن انہیں کوئی کیا کہے کہ اس وقت بھی سندھ میں آپ کی حکومت ہے اور جنرل مشرف یہیں آپ کے قریب ہی رہتا رہا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مشرف آپ
کی ماں کا قاتل ہے تو سندھ حکومت نے اسے گرفتار کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ بزدل ہیں یا آپ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کم ہمت ہیں جنہیں محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل بھول چکا ہے۔ جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ماں اور ماموں کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کا شکوہ کیا، اسی طرح آج سے کوئی پندرہ سال پہلے ایک انگریزی اخبار میں مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ قتل کئے جانے والے عاشق حسین جتوئی کی صاحبزادی کا خط شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے عدل و انصاف کے تمام دروازوں کو کھٹکھٹاتے ہوئے فریاد کی تھی کہ چھ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ان کے والد اورمرتضیٰ بھٹو کے دوسرے پانچ ساتھیوں کے قاتل پولیس افسر جنہیں پہچاننے یا ڈھونڈنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگ سکتا‘ وہ کھلے عام کراچی میں گھوم رہے ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ اس خاتون نے خط کے آخر میں لکھا تھا کہ ہمارے ملک میںانصاف اور قانون کی حالت دیکھ کر وہ اس دن کو کوس رہی ہیں جب اس معاشرے میں پیدا ہوئی تھیں۔
بلاول بھٹو نے چار اپریل کو گڑھی خدا بخش اور مس جتوئی نے سولہ سال پہلے انگریزی اخبار میں اپنے خط میں جس جانب اشارہ کیا تھا، وہ سانحہ 20 ستمبر1996ء کی رات 9 بجے مرتضیٰ بھٹو کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کے قریب رونما ہوا تھا۔ اس وقت نجانے کیا وجہ تھی کہ خلاف معمول جائے وقوعہ کے چاروں جانب تاریکی پھیلی ہوئی تھی، تین گاڑیاں آگے پیچھے وہاں پہنچیں اور اچانک گولیوں کی خوفناک تڑتڑاہٹ نے دور دور تک رہنے والوں کے اوسان خطا کر دیے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔کوئی پندرہ منٹ بعد فائرنگ کی آوازیں تھم گئیں اور گولیوں کی زد میں آنے والے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے تو لوگ آہستہ آہستہ اور ڈرتے ڈرتے اپنے گھروں اور گاڑیوں سے باہر نکلنا شروع ہوئے اور جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ عجیب منظر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے چھلنی ہو چکا تھا اور ان کے ساتھ عاشق حسین جتوئی سمیت ان کے پانچ ساتھیوں کی لاشیں بے یار و مدد گار پڑی ہوئی تھیں۔ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ ان کے جسموں میں گولیوں کے کتنے سوراخ ہیں؟ اگلی صبح اخبارات آئے تو پتا چلا کہ کلفٹن میں پولیس مقابلہ ہوا اور پولیس کی دفاعی فائرنگ سے میر مرتضیٰ بھٹو، عاشق حسین جتوئی اور ان کے پانچ ساتھی مارے گئے۔ اس پولیس مقابلے کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ مقابلے میں وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کا بھائی اور ان کے چھ ساتھی تو مارے گئے لیکن پولیس کے کسی سپاہی کو ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی تھی۔
اگلی شام خبر آئی کہ خطرناک اور مشکوک سمجھے جانے والے ان لوگوں سے ہونے والے پولیس مقابلے میں ایک پولیس انسپکٹر حق نواز سیال کے پائوں پر ہلکا سا زخم آیا جسے فوری طور پر ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا، لیکن نجانے کیا ہوا کہ اسی شام ہسپتال کے کمرے سے‘ جہاں وہ داخل تھا‘ گولی چلنے کی آواز آئی اور انسپکٹر حق نواز اپنے بیڈ پرہلاک پایا گیا۔ آج تک پتا نہیں چل سکا کہ کسی نے اسے قتل کیا یا اس نے خود کشی کی تھی۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ 20 ستمبر1996ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹا قتل ہو گیا لیکن پیپلز پارٹی چپ رہی،کسی نے آج تک کسی کے گلے میں کپڑا ڈال کر نہیں پوچھا کہ ہماری حکومت میں ہمارے بھٹوکا بیٹا کیسے قتل ہوگیا؟ آٹھ سال حکومت میں ہونے کے با وجود ابھی تک اس قتل کا کوئی سر پیرکیوں نہیں مل سکا؟ مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ اور یتیم بچے سر پٹخ پٹخ کر رہ گئے لیکن کوئی بھی ان کے قاتلوں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا سکا۔
اگر بلا ول بھٹو زرداری نے آج 20 سال بعد اپنے مقتول ماموں کو یاد کر ہی لیا ہے تو وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سے، جن کے صوبے میں یہ قتل ہوئے تھے، اتنا تو پتا کر سکتے ہیں کہ حملے کا آغاز کس نے کیا تھا تاکہ ثابت ہو سکے کہ کس فریق نے اپنے دفاع میں گولیوں کی بارش کی۔ دوسرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اپنے دفاع میں قانون کس حد تک جانے کی اجا زت دیتا ہے؟ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ فریقین کا نقصان کتنا ہوا؟ اس طرح کے مقابلوں میں فریقین کا نقصان ترازو میں رکھ کر تولا نہیں جاتا، لیکن ان سوالات کا سامنا عدالت میں لازماً کرنا پڑتا ہے۔
اگر بلاول بھٹو زرداری کے دل میں واقعتاً اپنی ماما بینظیر بھٹو، اپنے شہید نانا کے بیٹے اور ماموں مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی محبت جاگ اٹھی ہے تو وہ ہمت کریں اور سب سے پہلے یہ معلوم کرائیں کہ وہ کون تھا جس نے محترمہ بینظیر بھٹو کی گاڑی کو روٹ سے ہٹا کر لیاقت باغ کے شمالی دروازے کی جانب جانے کوکہا اور پھر جب ان کی گاڑی وہاں کھڑے''مجمع‘‘ کے قریب پہنچی تو وہ کون تھا جس نے محترمہ کو فون کرکے اپنا سر باہر نکال کر ''مجمع‘‘ کو ہاتھ ہلانے پر زور دیا؟ یقینا وہ کسی ایسے شخص کا فون تھا جس کی بات محترمہ کسی صورت ٹال نہیں سکتی تھیں۔ محترم بلاول بھٹو! اگر آپ واقعتاً اپنی ماما کے قاتل کو پکڑنا چاہتے ہیں تو جنرل مشرف پر غداری کا لیبل لگانے سے پہلے یہ معلوم کریں کہ وہ فون کال کس کی تھی؟ جناب والا! سندھ میں آپ کی حکومت ہے اس لئے سب سے پہلے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں سے اپنے ماموں مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی تفتیش شروع کرائیں تاکہ اصل قاتل سامنے آ سکیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اگلے سال ذوالفقار علی بھٹو کی38 ویں برسی کے موقع پرگڑھی خدا بخش آنے کی بجائے لندن یا امریکہ میں اپنے والد کے پاس چلے جائیں اور ان سے پوچھیں کہ پاپا میری ماما اور ماموں کے قاتل کہاں ہیں؟