تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-04-2016

میں نہیں جانتا! پاناما کہاں ہے؟

جج صاحب نے اپنی عدالت میں موجود پولیس اہلکار سے پوچھا''بم کیسے چلتا ہے؟‘‘
پولیس اہلکار نے اپنے پاس موجود بم کی پن نکال کر‘ جج صاحب کی طرف بڑھا دیا اور کہا ''ایسے۔‘‘
بم واقعی چل گیا۔ جج صاحب اور آس پاس کھڑے لوگ زخمی ہو گئے۔ لیکن جج صاحب کو پتہ چل گیا کہ بم کیسے چلتا ہے؟ آج کل حکومت پر بم چلا ہوا ہے۔ وزیراعظم کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اس چلے ہوئے بم کے اثرات سے کیسے بچیں؟ انہوں نے امریکہ کا دورہ ملتوی کیا۔ اندیشہ یہ تھا کہ صدر اوباما‘ پاناما لیکس کے بارے میں کوئی سوال نہ کر دیں۔ ترکی کا دورہ بھی منسوخ کر دیا۔ ترکی کے حکمران‘ میاں صاحب کے دوست ہیں۔ اگر وہ دوستانہ انداز میں پوچھ لیتے کہ آف شور اکائونٹس کیسے کھولے جاتے ہیں؟ تو ہمارے میاں صاحب کیا کرتے؟ حد یہ ہے کہ میاں صاحب فضائیہ کی ایک تقریب میں جانے سے بھی کترا گئے۔ ڈر تھا کہ فضائیہ کے کسی افسر نے اگر یہ پوچھ لیا کہ ''آف شور اکائونٹ کیسے کھلتا ہے؟ ‘‘ تو میاں صاحب کیا جواب دیں گے؟ انہوں نے خواجہ آصف کو تقریب میں شرکت کے لئے بھیج دیا‘ جہاں پر خواجہ صاحب کو گارڈ آف آنر بھی لینا پڑا۔ خواجہ صاحب دُور دُور سے ایسا نہیں لگتے کہ وہ گارڈ آف آنر لے رہے ہیں۔ انہیں فوجیوں میں گھرے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ خواجہ صاحب گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان کے چاروں طرف فوجی تھے اور وہ سوٹ میں ملبوس اکیلے فوجیوں میں گھرے ہوئے چل رہے تھے۔ جن لوگوں نے اچانک ٹیلیویژن کھول کر یہ منظر دیکھا‘ ان کی اکثریت یہی سمجھی کہ خواجہ صاحب گرفتار ہو گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد خواجہ صاحب کی یہ حقیقت کھل گئی اور کمنٹری سے پتہ چل گیا کہ خواجہ صاحب‘ وزیراعظم کی جگہ گارڈ آف آنر لے رہے ہیں۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنی جگہ خواجہ صاحب کو گارڈرآف آنر لینے کی زحمت دی۔ 
مجھے وہ وقت بھی یاد ہے‘ جب اپنے خصوصی طیارے میں وزیراعظم اسلام آباد جانے کے لئے لاہور ایئرپورٹ پہنچے۔ خصوصی جہاز میں سواریاں پوری تھیں‘ جو ظاہر ہے اعلیٰ افسروں‘ وزیروں اور اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل تھیں۔ خواجہ صاحب‘ ان سواریوں سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ ''کیا آپ رک جائیں گے؟ مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ مگر وہ جسے بھی کہتے‘ اسے اپنا ضروری کام نکل آتا۔ حقیقت میں کوئی بھی وزیراعظم کے جہاز میں سفر کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وزیراعظم نے انہیں دیکھ لیا اور جہاز کے اندر ایک سیٹ ڈھونڈ کر‘ خواجہ صاحب کے لئے خالی کرا دی۔ اس وقت جہاز کے اندر ایک سیٹ ملنا‘ خواجہ صاحب کے لئے ایک نعمت تھی۔ مگر گزشتہ روز وہ خود وزیراعظم کی جگہ گارڈ آف آنر لے رہے تھے۔وزیراعظم نے خبرنامے میں یہ منظر دیکھ کر یقینا سوچا ہو گا ''کاش! میں پیسے پر عزت کو ترجیح دیتا۔‘‘ اب ٹکے ٹکے کا آدمی ان پر باتیں بنا رہا ہے۔ ایسی دولت کا فائدہ؟ ایک طرف 20کروڑ کی قوم ہے‘ جس نے وزیراعظم کو اپنے ملک کی سب سے زیادہ عزت بخشی اور وزیراعظم صاحب ہیں کہ وہ اوباما سے منہ چھپا رہے ہیں۔ ترکی کے اردوان‘ جو ان کے بہترین دوست ہیں‘ ان کے سامنے جانے سے کترا رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی فضائی فوج سے سلامی لینے سے گریز کر رہے ہیں اور یہ اعزاز خواجہ آصف کے سپرد کر دیا۔ ہمارے لیڈروں کو بھی سلامی لینے کا کتنا شوق ہے؟ بطور وزیرداخلہ چوہدری نثار ‘ اسلام آباد پولیس کے سربراہ بنے‘ تو انہیں پاسنگ آئوٹ پریڈ کی سلامی لینے کا موقع ملا۔ ان کے ٹھاٹ دیکھنے والے تھے۔ وہ باقاعدہ جیپ میں کھڑے ہوئے اور ترتیب سے لگی پولیس کی قطار کے آگے سے یوں گزرے‘ جیسے ملک کا صدر یا وزیراعظم ہو۔ ویسے تو خواجہ صاحب کے انداز بھی دیکھنے والے تھے‘ جب وہ افسروں اور جوانوں کی سلامی لے رہے تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایئرفورس کی سلامی لیتے ہوئے خواجہ صاحب کیا سوچ رہے ہوں گے؟ یہی سوچ رہے ہوں گے ''اے خدا! پاناما لیکس سچ نکلیں‘ میاں صاحب کی چھٹی ہو اور فوج کی سلامیاں ‘میں لیتا پھروں۔‘‘ لیکن ابھی یہ کھیل لمبا چلے گا۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے‘ جب وزیراعظم ناجائز دولت کے الزام پر ہاف پلیٹ شرم کھا کر‘ اپنے منصب سے دستبردار ہو جائیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ نواز شریف تو ملک کے وزیراعظم ہیں‘ وہ اتنا بڑا منصب کیسے چھوڑیں گے؟ پاکستان کے قریباً 200 سرمایہ داروں کے نام‘ پاناما لیکس میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ناجائز دولت پر دست بردار ہوا؟ میں نے بہت غور کیا کہ پاکستان کے تمام سرمایہ داروں میں سے کسی ایک کو تلاش کر لوں‘ جو اپنی دولت پر فخر کر سکتا ہو؟ میں نے اپنی زندگی میں صرف چند پاکستانی ایسے دیکھے ہیں‘ جو ڈنکے کی چوٹ پر اپنی دولت مندی کا اعلان کریں اور بلند آواز میں یہ کہیں کہ میں نے اپنی آمدنی کے ایک ایک پیسے پر ٹیکس دیا ہے۔ چند ایک اور بھی ایسے ہوں گے۔ لیکن دولت مندوں کی اکثریت یا ٹیکس چور ہے یا سرے سے ہی ٹیکس نہیں دیتی۔ آپ نے قبائلی علاقوں میں قبیلوں کے سربراہوں کے بارے میں سنا ہو گا کہ ان کے حجرے نوٹوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان میں غیرملکی کرنسی کے ڈھیر بھی ہوتے ہیں ۔ دہشت گردوں کے خلاف فوج کی حالیہ کارروائی کے نتیجے میں‘ ان کے حجرے بھی خطرے میں آ گئے تھے۔ لیکن آخری اطلاع کے مطابق قبیلوں کے سردار اپنی دولت بچانے میں کامیاب رہے۔ ایک طرف ہمارے ملک کا وزیراعظم ہے کہ اس کو دولت چھپانا پڑ رہی ہے۔ اسے صدر اوباما اپنے ملک میں بلاتے ہیں‘ لیکن ہمارے وزیراعظم منہ چھپا کر لندن کا رخ کر لیتے ہیں۔ ترکی سے دعوت نامہ آتا ہے‘ تو ہمارے وزیراعظم وہاں جانے سے بھی کترا جاتے ہیں۔ حالانکہ اردوان سے میاں صاحب کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ کیا وقت آیا ہے کہ پیسہ ہمارے وزیراعظم کے لئے بوجھ بن گیا ہے؟ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں میں یہ بوجھ بانٹ کرسوچا ہو گا کہ بلا ٹل جائے گی۔ لیکن بلا ابھی تک نہیں ٹلی۔ 
ہمارے وزیراعظم نے پاکستان کے قومی ٹیلیویژن پر اپنے بیٹوں کی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ فلیٹ اور دولت ان کی ہے اور وہ خود ''پائی پائی‘‘ کے محتاج ہیں۔ لیکن کیا زمانہ آ گیا ہے کہ لوگ پھر بھی مان کر نہیں دیتے۔ وہ فرماتے ہیں‘ میرے پاس پیسہ بھی نہیں اور لوگ ہیں کہ مان کر نہیں دیتے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ ''ثبوت لائو۔‘‘ چھپائے گئے پیسے کا ثبوت کون دے؟ یہی وہ مسئلہ ہے‘ جس میں ہمارے وزیراعظم الجھے ہوئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں‘ دولت آپ کی ہے۔ وزیراعظم فرماتے ہیں‘ میرے بیٹوں کی ہے۔ بیٹوں کے بارے میں وزیراعظم فرماتے ہیں کہ یہ دولت انہوں نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں کما لی تھی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اتنی کم عمری میں اس قدر زیادہ دولت ‘ سعودی عرب کے ولی عہد کے سوا شاید ہی کوئی کما سکتا ہو۔
ہمارے ملک کا وزیراعظم مختار کل ہوتا ہے۔ جناب نوازشریف آٹھ نو سال ہمارے ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اتنے عرصے میں‘ جتنی دولت بھی انہوں نے کمائی‘ اسے آسانی سے جائز قرار دے سکتے تھے۔ یہ غفلت وہ کیوں کر بیٹھے کہ اپنی دولت آف شور کمپنیوں میں لگا دی؟ یہ کمپنیاں تو ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ ناجائز دولت چھپائی جائے۔ ہمارے وزیراعظم ٹھاٹ سے اپنی دولت پاکستانی بنکوں میں رکھ سکتے تھے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ وزیراعظم کو پاکستانی بنکوں پر اعتماد ہی نہیں۔ وہ سوچتے ہیں‘ جس ملک کا میں وزیراعظم ہوں‘ وہاں کے بنک محفوظ کیسے رہ سکتے ہیں؟ لیکن دولت جب پاس آ جائے‘ تو وہ کتنی ہی کالی کیوں نہ ہو؟ اسے جائز بنا کر ‘ دنیا کے کسی بھی بنک میں ڈنکے کی چوٹ پر رکھا جا سکتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنی دولت کو جائز کیوں نہیں بنایا؟ اب بھی وہ دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اپنی دولت کو جائز بنا لیں۔ لیکن دولت ہے کہ جائز بننے میں نہیں آ رہی۔ یہ بڑی کمبخت چیز ہے۔ آ جائے تو بوجھ بن جاتی ہے‘ نہ آئے تو تر سا ترسا کے مار دیتی ہے۔ لیکن ایسے شخص کا کیا کریں؟ جس کے پاس دولت ہے اور وہ اسے چھپا چھپا کے ہانپ رہا ہے۔ ایسے دولت مندوں کا حال بھی کراچی کے ان جج صاحب جیسا ہے‘ جنہوں نے ایک پولیس والے سے کہا تھا کہ ''بم کیسے چلتا ہے؟‘‘ اور پولیس اہلکار نے بم کی پن نکال کر ‘ جج صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اور وہ زخمی حالت میں ہسپتال کے اندر پڑے سوچ رہے ہیں''میں نے کیوں پوچھا کہ بم کیسے پھٹتا ہے؟‘‘میاں صاحب کو خدا نے دونوں چیزیں دے رکھی ہیں‘ اقتدار بھی اور دولت بھی۔ اقتدار کسی کام نہیں آ رہا۔ دولت چھپائے نہیں چھپ رہی۔ خود چھپنا چاہتے ہیں اور چھپا نہیں جا رہا۔اس سے تو بہتر تھا کہ کالادھن سفید کر کے مجھے دے دیتے۔ میں غریب آدمی ہوں۔ مجھے کالا دھن رکھنا نہیں آتا۔نہ مجھے پتہ ہے‘ پاناما کہاں ہے؟ اور نہ کبھی پارک لین کے فلیٹس دیکھے ہیں۔ نہ میں کرسی پر کھڑے ہو کر ''گونواز گو‘‘ کے نعرے لگا سکتا ہوں۔ نعرے تو لگا سکتا ہوں‘ کرسی پر چڑھ کر کھڑا نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved