تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-04-2016

آنکھ کب کھلے گی؟

جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، قوم خواہشات اور امیدوں کا جھولا جھولنے لگتی ہے۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے مگر قوم روش اِس لیے ترک نہیں کرتی کہ ایسا کرنے میں لطف بہت ہے۔ اب کسی بھی معاملے میں سارا زور زیادہ سے زیادہ لطف کشید کرنے پر ہے۔ ہر معاملے سے لطف اندوز ہونے کو زندگی کا ایک اہم فریضہ یا مقصد بنا لیا گیا ہے۔ جو مزا شادی کی تقریب میں ہوا کرتا ہے وہی مزا لوگ اب مَیّت کے گھر میں بھی تلاش کرتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ تھوڑا بہت پا بھی لیتے ہیں۔ مَیّت اگر سرد خانے میں رکھی ہو تو تین چار گھنٹے سوگ کے عالم میں گزارنے کے بجائے غیبت کی محفل سجا کر گزارنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تدفین میں شرکت کو بھی سوگوار گھرانے کی دِل جُوئی سے زیادہ پورے خاندان کے لوگوں سے ملاقات کا ایونٹ سمجھا جاتا ہے۔ 
انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہوتا رہتا ہے اُسے دیکھ کر دل و دماغ کی عجیب ہی کیفیت ہوتی ہے۔ مجموعی ماحول بیان کرنے کے لیے قمر جمیلؔ کا سہارا لینا پڑے گا۔ ع 
بہار آئی تو قول و قسم کے پھول کھلے 
انتخابی مہم کے انتہائی خوشگوار موسم کے دوران اہلِ سیاست کے ہونٹوں پر ایسے ایسے دعووں اور وعدوں کے پھول کھلتے ہیں کہ عوام کی خواہشات توانا ہوتی جاتی ہیں، امیدیں پروان چڑھتی جاتی ہیں۔ وعدوں اور دعووں کی رنگینی اور ہماہمی انتخابی موسم تک محدود ہوتی ہے۔ انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد وہ لوگ بہت دور تک دکھائی نہیں دیتے جن کے وعدوں اور دعووں پر بھروسہ کرکے عوام نے خواہشات اور اُمیدوں کے چراغ جلائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہاتھوں میں اُمیدوں کی جگہ شکایات کے چراغ آ جاتے ہیں۔ ع 
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر 
جو انتخابی مہم کے دوران انقلاب برپا کرنے کے دعوے کرتے ہیں‘ وہ منتخب ہونے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے اُن کا کوئی وجود ہی نہ رہا ہو۔ ایک بار پھر قمر جمیلؔ یاد آرہے ہیں۔ ؎ 
یہ کیا تضاد ہے اِس کائنات میں اے دوست! 
کہ ہر وجود کے اندر عدم کے پُھول کھلے! 
جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دل ڈوبنے لگتے ہیں، اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ جنہیں خیرخواہ اور ہمدرد جان کر ووٹ دیئے تھے وہ ایسے نکلیں گے۔ غریب کا دل ہوتا ہی اِس لیے ہے کہ بات بات پر ٹوٹے، شیشے کی طرح چکنا چور ہو جائے! بہار کی آمد پر پھولوں کی آرزو بالآخر اُسے کانٹوں کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ ؎ 
دل شاد تھا کہ پھول کھلیں گے بہار میں 
مارا گیا غریب اِسی اعتبار میں! 
جب معاملات مینڈیٹ ہولڈرز کے ہاتھوں میں ہوں تو ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ اپنی زندگی پر بھی کوئی اختیار نہیں رہتا۔ جن کے پاس مینڈیٹ ہوتا ہے وہ اگر چاہیں تو ہماری حفاظت کا بندوبست کریں، چاہیں تو نہ کریں! ایسے میں جو مل جائے اُسی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ بقول ساحرؔ لدھیانوی ع 
جو مل گیا اُسی کو مقدر سمجھ لیا 
مشکل یہ ہے کہ کوئی قوت منتخب ہو یا غیر منتخب، جب اُس کے ہاتھ میں اقتدار اور اختیار ہوتا ہے تب وہ اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے کچھ ایسا کرتی ہے جسے محض لہو گرم رکھنے کا بہانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کچھ کر دکھانے پر محض وقت گزارنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 
اس وقت ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ باری کا معاملہ افسانے جیسا لگتا تھا، اب حقیقت جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ اپوزیشن نام کی کوئی چیز بظاہر ہے ہی نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ منتخب حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل ترک کیا جا چکا ہے۔ نادیدہ قوتیں یہ کام فریضہ جان کر کر رہی ہیں۔ تین سال سے قوم یہی تماشا دیکھ رہی ہے۔ جو مینڈیٹ پا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے وہ بظاہر ناکام ہی رہے ہیں یا ناکام بنائے گئے ہیں۔ ہماری جمہوریت اب مفاہمت کے آغوش میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ایسے میں یہ توقع کم ہی رکھی جانی چاہیے کہ منتخب ایوان میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے عوام کے لیے کوئی ٹھوس کردار ادا کرنے کا سوچیں گے۔ ہاں، انتخابی عمل میں زیادہ ناکام رہنے والے ''نان سٹیٹ ایکٹر‘‘ بن کر عوام کے مینڈیٹ کو جھٹلانے پر تُلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر معاملے میں معاملہ حد سے کچھ بڑھا ہوا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس حالت کو کس طور بیان کیا جائے۔ 
منتخب حکومت کو کام کرتے ہوئے تین سال ہونے کو آئے ہیں مگر اب تک معاملات ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ کچھ وقت تو سابق حکومتوں کا رونا رونے میں کٹ گیا۔ اور کام کی جو تھوڑی بہت گنجائش بچی تھی اُسے اُن سب نے مل کر ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے جو عوام کی پسند کے معیار پر پورے نہیں اترے اور منتخب ایوانوں میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 
تحریک انصاف نے بہت کچھ بدل ڈالنے، بلکہ نیا پاکستان منصۂ شہود پر لانے کا دعوٰی کیا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ اب تحریک انصاف والوں سے صبر نہیں ہو رہا۔ خیبر پختونخوا میں کچھ کر دکھانے کا موقع ملا تھا مگر اِس موقع کو بظاہر ضائع کر دیا گیا ہے۔ کچھ کر دکھانے کے بجائے معاملہ اِس حد تک بگڑا یا بگاڑ دیا گیا کہ عوام چوہے مارنے پر مجبور ہو گئے! کہاں نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ اور کہاں چوہا مار مہم! عوام حیران ہیں کہ عمران خان صاحب کو ہوا کیا ہے کہ اچھے خاصے مینڈیٹ کو فضول کاموں پر ضائع کر رہے ہیں۔ 
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ اپنے ہی منتخب کردہ لوگوں کو ایوان میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھ کر عوام حیرت میں مبتلا ہوا کرتے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ حیرت میں مبتلا ہونے کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ کب تک اور کس کس بات پر حیرت میں مبتلا ہوا جائے! کوئی ایک رونا ہو تو انسان رو بھی لے۔ جمہوریت کے نام پر یہاں تو تماشا تین سال سے جاری ہے وہ لوگوں کو بیلٹ بکس سے دور جانے پر اکسا رہا ہے۔ 
ذہن یہ فیصلہ کرنے سے بظاہر قاصر ہے کہ اس صورت حال کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ عوام یا جمہوریت پسند سیاسی قوتیں؟ جن کے ہاتھوں جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے وہ خود کو جمہوریت کا چمپئن قرار دینے سے باز نہیں آرہے! منتخب حکومت کو اس کے قیام کے ابتدائی ایام ہی سے مختلف النوع پریشانیوں سے دوچار کرنے کی خواہش اور کوشش ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اور وہ بھی چلمن کی اوٹ میں نہیں جو حکومت کو کسی صورت چلنے دینے کے روادار نہیں۔ 
عوام کے ذہن میں ایک الجھن ضرور پروان چڑھتی گئی ہے کہ اگر یہی جمہوریت ہے تو ہم کیا اِس کا اچار ڈالیں گے؟ انتخابی عمل ان کے انتخاب کے لیے ہوتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرنے کے اہل ہوں۔ اگر انتخابی عمل سے گزرنے پر بھی بنیادی مسائل کے حل کی راہ ہموار نہ ہو تو جمہوریت کا کیا کریں گے؟ سوال جمہوریت کے بے ثمر ہونے کا نہیں، ہمارے نظام کی خرابیوں کا ہے۔ جمہوری عمل سے بالا قوتوں نے طے کر رکھا ہے کہ کسی بھی منتخب حکومت کو آسانی سے وہ سب کچھ نہیں کرنے دیں گے جس کے حوالے سے وعدے کرکے وہ عوام کی حمایت پانے میں کامیاب رہے ہیں۔ 
قوم تین سال سے جمہوریت کے نام پر طرح طرح کے تماشے دیکھ رہی ہے اور ان تماشوں کو بھاگتے چوروں کی لنگوٹیاں سمجھ کر خوش ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ جمہوریت ایسی حالت کا نام تو ہرگز نہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا مگر ہم اِسی میں خوش ہیں۔ یہ سراسر نقصان دہ کیفیت ہے۔ منتخب حکومت کا بنیادی قضیہ یہ ہے کہ اُس نے ہر طرح کے دباؤ کو سہتے ہوئے صرف اس بات کو اہمیت دی ہے کہ کسی نہ کسی کام چلتا رہے۔ یہ تو ایسی بات ہے جیسے کوئی یہ کہ گوشت اور ہڈی ختم بھی ہو جائے تو کوئی غم نہیں، کھال سلامت رہنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ گوشت اور ہڈی کے بغیر کون سا وجود برقرار رہ سکتا ہے؟ 
سوال یہ ہے کہ حکومت کی آنکھ کب کھلے گی۔ تین سال ہونے کو آئے ہیں اور میاں صاحب اب تک بظاہر کچھ بھی ڈلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ہر صوبائی حکومت اپنی مرضی کی ڈگر پر گامزن ہے۔ ایسے میں وفاق مزید ڈھیلا اور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ عوام نے کچھ سوچ کر ن لیگ کو اقتدار سے نوازا تھا۔ پرنالے اب تک وہیں کے وہیں بہہ رہے ہیں۔ نئے انتخابات میں دو سال رہ گئے ہیں۔ ایسے میں میاں صاحب کو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کرنا چاہیے جس سے جمہوریت کی آبرو کسی حد تک بحال ہو اور اُن کے لیے بھی نئے امکانات پیدا ہوں۔ حکومت کا کسی بھی قیمت پر محض برقرار رہنا قوم کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved