پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ان دنوں ایک عظیم تعمیراتی منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔ منصوبے کے تحت جاتی عمرہ سے پانامہ تک میٹرو ٹرین کے لئے ایک انڈر پاس بنایا جائے گا۔ اس طویل انڈر پاس میں روشنی کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے روشندان بنائے جائیں گے‘ جہاں سے سورج کی روشنی‘ انڈر پاس کے اندر جائے گی اور اس میں کہیں بھی بجلی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس میں ٹرین چلنے کے اوقات اس طرح سے رکھے جائیں گے کہ جس وقت ٹرین جہاں پر ہو گی‘ وہاں اوپر دن ہو گا۔ جہاں رات شروع ہو گی‘ ٹرین کا سفر ختم ہو جائے گا۔ ریلوے لائن دہری بچھائی جائے گی تاکہ حادثوں کا ڈر نہ رہے۔ ہفتے میں ایک دن‘ کسی بھی مقام پر‘ کسی بھی وقت ٹرین میں حاکم اعلیٰ شہباز شریف کے خصوصی خطاب کے لئے اہتمام کیا جائے گا۔ اس میں ڈیسک پر مطلوبہ تعداد میں انڈے رکھے جائیں گے تاکہ مقرر‘ دوران تقریر جہاں بھی مکا مارنے کی ضرورت محسوس کریں گے‘ مکے کا وقت آنے سے پہلے‘ ڈیسک پر بنی ہوئی جگہ پر ایک انڈہ رکھ دیا جائے گا۔ حاکم اعلیٰ جتنے مکے بھی ماریں گے‘ اتنے ہی انڈے مخصوص جگہ پر رکھے جائیں گے۔ حاکم اعلیٰ جب تک چاہیں گے‘ انڈے توڑتے رہیں گے اور جب ان کی طبیعت اکتا جائے گی‘ تو انڈے رکھنے کا سلسلہ ختم کر دیا جائے گا۔ اس ٹرین میں پانامہ کے تمام بینکوں کے کائونٹر مہیا کئے جائیں گے تاکہ مسافر ٹرین میں داخل ہوتے ہی‘ ڈالروں اور پونڈوں سے بھری ہوئی بوریاں بینکوں کے پاس محفوظ کرا لے۔ یہ بوریاں مسافر کے لئے مخصوص نشستوں کے نیچے رکھی جائیں گی تاکہ انہیں کوئی دوسرا نہ چھیڑ سکے۔ چونکہ پانامہ سے واپسی پر ٹرین خالی آیا کرے گی‘ اس لئے ہر مسافر سے دوطرفہ کرایہ وصول کیا جائے گا۔ یہ ٹرین دنیا کا ایک عجوبہ ہو گا۔ اس کے دونوں اطراف‘ سٹیشن خفیہ رکھے جائیں گے۔ ایک سٹیشن جاتی عمرہ میں ہو گا اور دوسرا پانامہ میں۔ جہاں جہاں سمندر آئے گا‘ وہاں سے ٹرین زیر آب گزرے گی اور خشکی آتے ہی یہ زمین کے اوپر آ جائے گی۔ راستے میں خوراک اور پانی کا مناسب انتظام ہو گا۔ رفع حاجت کے لئے معیاری لیٹرینز بنی ہوں گی۔ غرض اس ٹرین کا سفر انتہائی آرام دہ اور خواب آور ہو گا۔ ٹرین کے ڈیزائن اور اوقات سفر کے لئے مناسب انتظامات پر فی الحال غور کیا جا رہا ہے۔ جب مطلوبہ ضروریات پوری کرنے کے لئے‘ ٹرین کے ڈیزائن میں گنجائشیں پوری کر لی جائیں گی‘ تو اس منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے گا۔ حاکم اعلیٰ کا پہلا مکا‘ جاتی عمرہ سے ٹرین کا سفر شروع ہوتے ہی چلایا جائے گا۔ اس خطاب میں حاکم اعلیٰ کی روایت کے عین مطابق پُرزور اور پُرشور وعدے کئے جائیں گے۔ مثال کے لئے ان کے وعدوں کے طویل ریکارڈ میں سے‘ چند ایک وعدے یہ ہیں۔
٭گوجرہ میں مسیحی برادری پر ہونے والے ایک ایک ظلم کا حساب نہ لیا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 5اگست 2009ء
٭سستی روٹی کو کامیاب نہیں بنایا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 13 جون 2010ء
٭روٹی 2 روپے میں نہ بکوائی‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔31 مارچ 2011ء۔ (آج کل یہ وعدہ بہت یاد آ رہا ہے)
٭زرداری کو کراچی‘ لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 17 مارچ 2012ء
٭3 سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 19 اپریل 2012ء
٭2 سال میں پاکستان سے لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ختم نہ کئے‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 24 اپریل 2012ء
٭پاکستان کو اگلے 5 سالوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان نہ بنایا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 16 نومبر 2012ء
٭اگر لوٹی ہوئی قومی دولت واپس نہ لایا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 30 نومبر 2012ء
٭میں نے صدر زرداری سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہ لی‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 23 دسمبر 2012ء
٭اوکاڑہ کو لاہور نہ بنا دیا‘ تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ 5 مارچ 2013ء۔ (اوکاڑہ تو لاہور نہ بن سکا‘ لاہور اوکاڑہ بن گیا)
ٹرین میں دونوں میاں صاحبان کے آرام و آسائش و دیگر ضروریات کے لئے‘ بہترین انتظامات کئے جائیں گے۔ میاں صاحب عموماً ہر بیرونی سفر کے لئے حسب ضرورت اپنے خانسامے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی جبکہ وہ بائیں بازو کے ٹریٹمنٹ کے لئے‘ برطانیہ گئے ہیں‘ ان کے دو خانسامے بھی ساتھ ہیں۔ اس مرتبہ سفر میں خصوصی دعائوں کے لئے‘ میاں صاحب والدہ محترمہ کو ساتھ لے گئے ہیں۔ حاکم اعلیٰ کے سابقہ وعدوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جب سابقہ وعدوں کی تکمیل ہو جائے گی‘ تو اس کے بعد انڈر گرائونڈ میٹرو کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ صرف دو افراد کے لئے
انڈر گرائونڈ ٹرین کا اتنا عظیم منصوبہ کیوں مکمل کیا جائے؟ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ لاہور میں نوے فیصد تعمیراتی منصوبے‘ میاں صاحب کی سہولت کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان کا تعمیر کردہ کوئی بھی راستہ یا کوئی بھی انڈر پاس جا کر دیکھ لیجئے‘ وہ کسی نہ کسی انداز میں میاں صاحبان کے گھر سے ایئرپورٹ اور واپسی کی خاطر بنایا گیا ہو گا۔ فی الحال وسائل کی کمی کے سبب شہریوں کو سڑک پر روک کر‘ ان کے کھڑے ہونے کی جگہیں نہیں بنائی جا سکیں۔ مگر جیسے ہی انڈر پاس اور جدید ترین سڑکیں مکمل ہوں گی‘ تو دو رویہ‘ راہگیروں‘ رکشوں‘ کاروں‘ موٹر سائیکلوں اور سواری کے دوسرے تمام ذرائع کے‘ کھڑے ہونے کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی تاکہ جب معزز سواریاں سڑک پر آئیں‘ تو فوراً دو رویہ ٹریفک روک کر‘ شاہی سواریاں بے روک ٹوک اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں۔ میاں صاحب کو شہر میں جہاں بھی کہیں جانا ہو‘ ان کی آمد و رفت کے لئے خصوصی راستہ دستیاب ہونا چاہیے۔ جب انہیں کسی نئی جگہ پر جانا ہو‘ خصوصی سروے کر کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر دیا جائے۔ جیسے لوگوں کے گھر‘ دکانیں‘ ہوٹل وغیرہ راستے میں حائل ہو جاتے ہیں۔ ایسی تمام چیزوں کو مسمار کر کے‘ تیز رفتاری سے چلنے کا راستہ تعمیر کر دیا جائے گا۔ جدھر سے بھی میاں صاحبان کو گزرنا ہو گا‘ ادھر راستے میں جتنی بھی رکاوٹیں دکھائی دیں گی‘ ان سب کو مسمار کر دیا جائے گا۔ البتہ جہاں چوبرجی اور شالیمار باغ جیسے‘ تاریخی مقامات آئیں گے‘ تو فالتو تعمیراتی مقامات کی تراش خراش کر کے‘ ان کی نشانی چھوڑ دی جایا کرے گی۔ جیسے چوبرجی کے چوراہے کی نوک پلک سنوارنے کے لئے‘ اصل چوبرجی کی کاٹ چھانٹ کر دی گئی ہے۔ اسی طرح شالیمار باغ کا دماغ درست کرنے کے لئے‘ ایسی تعمیرات جو بادشاہوں کے ذہن میں اس وقت آئیں‘ جب ان کا موڈ خراب تھا۔ خراب موڈ کی بنائی ہوئی تعمیرات کو صاف کر کے‘ میاں صاحبان کے ذوق کے مطابق مناسب راستہ بنایا جائے گا۔ جیسے چوبرجی کو گنجا کر کے‘ شاہی ذوق کے مطابق کر دیا گیا ہے۔ لوگ اب اسے گنجی چوبرجی کہتے ہیں۔ ویسے بھی اس بڑھیا کا سر بنانے سجانے کے قابل نہیں رہ گیا۔ تاریخی عمارتوں کی سائنس یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق حلیہ بنا کر رہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ چوبرجی جیسی بڑھیا‘ بال بنائے اور چہرے پر رنگ و روغن لگائے‘ ناز نخرے دکھا رہی ہو۔ آخر میں آج کا سوال‘ جو ہر شخص کے ہونٹوں پر ہے‘ آپ کو اس کا جواب بتا دوں۔ پاکستان کے ہر شہری کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا میاں صاحب واپس آئیں گے؟ میرا جواب یہ ہے کہ میاں صاحب یقینا واپس آئیں گے۔ حکومت چھوڑ کر کون جاتا ہے؟ میاں صاحب جتنے دن چاہیں گے‘ دنیا میں رہیں گے۔ وہ اسحق ڈار‘ اور اپنے دفتری عملے کے ساتھ معمول کے کام کاج کرتے رہیں گے۔