یکے از کافرے کافر مُسلماں
ہوش کے ناخن بھی نہ لیے ہوں گے کہ نیاز نیاز کی پکار کانوں میں پڑی۔ برصغیر پاک و ہند میں بہت کم کیا معنی شاذ ہی کسی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہو گا کہ پوری ایک نسل اور نئی پود کی ذہنی دنیا تہہ و بالا کر کے رکھ دی‘ دماغ سے پھوٹنے والے سوتے یوں اپنا رُخ بدلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے گئے‘ نیاز نے جس دھڑلّے اور ٹھسّے سے اپنے مذہبی سیاسی علمی ادبی افکار کو الم نشرح کیا اُس کی شان سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ ان کی لپیٹ میں نوعمر ہی نہیں ہم عمر اور ہم عصر یکساں آئے۔ کس کی مجال تھی کہ دامن سمیٹ کر آنکھ بچا کر نکل جاتا۔ نیاز نے خلائق کے ذہنی خلفشار ‘روحانی کرب اور اوہام پرستی کے عفریت سے جس تگ و تاز‘ جرأت اور پُرشکوہ انداز میں نجات دلائی ہے یہ کچھ انہی کا حصہ تھا۔ خدا کا فرسودہ تصور جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر خوش ہوتا اور تیوریاں چڑھا لیتا ہے‘ نیاز کے قلم کی نشتریت کی تاب نہ لا کر یہ بُت پاش پاش ہو کر رہ گیا اور خدائے عظیم کا وہ حقیقی اور سچا روپ سامنے آیا جس کا وہ مستحق ہے‘ جو بے نیاز مطلق ہے‘ وہ ایک قوت ہے جو نظام عالم کے قیام کی ذمہ دار ہے اور جو اصول اس نے مقرر کر دیئے ہیں اُن میں تبدیلی ممکن نہیں۔ نیاز کا تصّور اسلام بھی عام روش سے ہٹ کر اور بے جا نہیں‘ بجا ہے کہ یہ ذہنی انقلاب مرہون منت تھا ایک تو ان کی قبل از وقت پختہ ہو جانے والی فطرت اور دوسرے ان کے استادوں مولانا سید ظہور الاسلام صاحب محرک ندوۃ العلماء اور بانی مدرسہ اسلامیہ فتح پور اور مولانا نور محمد صاحب مدرسِ اعلیٰ شاخ عربی مدرسہ اسلامیہ فتح پور کے طبائع کے تضاد کا۔ تکمیل تعلیم درسی کے
بعد پولیس اور دیگر مختلف وادیوں میں بھٹک بھٹکا کر بے چین اور مضطرب روح کو پہلوئے نگار میں آخر قرار آ ہی گیا۔ یہاں ان کے جوہر کھلے۔ اپنے نظریات اور معتقدات کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری کر دیا۔ نیاز کے آراء کی زد چونکہ ملائوں کے فرسودہ خیالات‘ معتقدات اور خود ساختہ روایات خصوصاً حلوے مانڈے پر پڑی تھی‘ اس لیے چہار سُو محاذ قائم کر دیئے گئے اور بعض حضرات تو اخلاقی حدود سے بھی تجاوز کر گئے۔ دلیل کا جواب نہ بن پڑا تو اینٹ پتھر ہاتھوں میں لے لیے‘ قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ ہر شریف اور غیور انسان کی طرح نیاز بھی اپنی حفاظت کرنا خوب جانتے تھے۔ وہ اس میدان کے بھی مرد ثابت ہوتے مگر کسی کی ''ہمت مردانہ‘‘ ان کے گریبان تک تو کجا ان کے دامن کو بھی نہ چھُو سکی ورنہ وہ خنجر اپنے جوہر خوب دکھاتا جو اس ہنگامی حالت میں مطالعے کی میز کی دراز میں عُریاں رکھا رہتا تھا۔ کُفر کے فتوے گھڑے گئے‘ مقدمات دائر ہوئے اور جب یہ علم ہوا کہ نیاز تو ہماری من گھڑت روایات کے بخیے ادھیڑے گا اور برسر عدالت مناظرے کے لیے ہمہ تن تیار ہے‘ برصغیر کے کم و بیش سبھی علما کو کھینچ بلائے گا اور عباوقبا کو تار تار کر ڈالے گا تو کھٹ سے واپس بھی لے لئے گئے اور اب تو بعض حقائق کا اظہار خود انہی کے قلم سے ہو رہا ہے جن کی فرشتہ سیرتی کی دھوم مچی ہوئی تھی‘ مثلاً ماہنامہ ''نقوش‘‘ کے آپ بیتی نمبر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی نے بڑے رکھ رکھائو اور چائو سے اپنی موجودہ ازدواجی زندگی کی تصویر کشی تو کر ڈالی مگر اُس مظلومہ کا ذکر پی گئے جسے نکاح کی آڑ میں تین مہینوں تک تختہ مشق بنائے رکھنے کے بعد شریعت اسلامی میں والدین کے احکامات کی افضلیت کا جواز پیدا کر کے چلتا کیا۔ جُبّہ و دستار کے پیچ و خم دستاویزی ثبوت تردیدی سے دھڑا دھڑ نکالے جانے لگے تو ''ایمانوں‘‘ کی سلامتی کے لیے جابجا 'نگار‘ کا داخلہ ممنوع قرار دے کر روڑے اٹکائے گئے۔ یہ نیاز ہی کا دل گردہ تھا‘ تن تنہا چُومکھی لڑتا رہا۔ دکن میں 'نگار‘ کے داخلے پر پابندی کا ذکر والد صاحب کے نام ایک خط میں بھی آیا۔ تیور ملاحظہ فرمائیے:
بیشک 'نگار‘ کا داخلہ حیدرآباد میں ایک سال کے لیے ممنوع قرار پایا ہے لیکن گھبرائیے نہیں‘ نگار برابر اسی طرح جاری رہے گا‘ میں دکن جا کر کوئی کوشش نہ کروں گا کیونکہ مجھے ان سب کو بتا دینا ہے کہ نگار کی زندگی کا مسئلہ حیدرآباد وغیرہ کے خریداروں سے بہت بلند ہے۔ نقصان ہوا ہے اور ہو گا لیکن میں اس نقصان سے ہمت نہیں ہار سکتا۔
بچپن لڑکپن چھٹپن بھی کہہ لیجئے نگار کے فائل اُلٹتے پلٹتے گزرا اور اب بھی جس غائر مطالعہ کی ضرورت ہے اس کی توفیق کہاں ہو پاتی ہے۔ غرض زندگی کے ہر دور میں نیاز کو رگ جاں سے زیادہ قریب پایا۔ گویا یہ سلسلہ روحانی تھا۔ گوشت پوست کے نیاز کو دیکھنے کی سعادت پندرہ ہی برس کی عمر میں حاصل ہو گئی۔ والد محترم سید مبارک علی شاہ‘ جیلانی دنیائے ادب میں میرے امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابّا کا وجود سرزمین بہاولپور کی خزاں رسیدگی میں گل نوبہار سے کم نہیں۔ ان کے 1926ء سے قائم ہوئے کتب خانے ''مبارک اُردو لائبریری‘‘ کی سیر دیکھنے اس دور میں کہ ترقی یافتہ ایٹمی دور کہلاتا ہے‘ سال بھر میں ایک ہی آدھ دیوانہ آ نکلتا ہے تو 1933ء میں اس کے سہ ماہی نقیب 'لالہ صحرا‘ کو کون پوچھتا جس میں اُس وقت کی تقریباً سبھی مشہور شخصیتوں نے شرکت فرمائی تھی۔ ایسی غیر شاعرانہ فضا کو ذہن میں لائیے اور1935 ء کا تصور کیجئے اور ہمارے ابّا کے سفر لکھنئو کو دیکھیے‘ لامحالہ قبلہ کے عشق نیازی کے انتہائی مدارج پر ایمان لانا پڑتا ہے ۔یہ کیونکر ممکن تھا کہ 1952ء میں وہ کراچی تشریف لائیں اور ابّا دیدار یار سے محروم رہ جائیں۔ مجھے بھی ساتھ لے لیا گیا۔ میں اور ابا جب سُوئے منزل جاناں چلے ہیں تو سلیمانی ہر دستے کے سالار ادیب شہیر سید رئیس احمد جعفری ندوی مرحوم و مغفور ہمارے ساتھ تھے اور متامّل کہ اگر آپ کا معاملہ نہ ہوتا تو میں نیاز سے کبھی نہ ملتا۔ عقائد کے اختلاف پر یہ اخلاقی ردعمل میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ممکن ہے وہ
رواداری میں ایسا کہہ گزرے ہوں ورنہ وہ نیاز کی عظمت کے تہہ دل سے قائل تھے۔ نیاز صاحب کا ایک مکتوب اپنے روزنامچے میں نقل کرنا، یہی نہیں نیاز نمبرمیں اسے ایک بہت اچھا انسان اور بہت اچھا مسلمان بھی کہہ چکے ہیں۔ نیاز جعفری مجادلہ ''نگار ‘‘میں اپنی بہار دکھا چکا تھا اور جعفری صاحب کے مضامین میں جو ادیبانہ شان پائی جاتی تھی اس کی تعریف اور مداحی کا اعلان ہو چکا تھا اس لیے جب عبدالواحد سندھی کتب خانہ تاج آفس بند روڈ کراچی جو اب مرحوم ہو چکا ہے ‘ یہ کہہ کر لے گئے‘ آئیے آپ کو جعفری صاحب سے ملائوں تو ابّا کا پہلا سوال یہی تھا کہ کیا آپ وہی ''نگاری جعفری‘‘ ہیں۔ جواب نفی نہیں اثبات میں ملا اور پھر بات جعفری صاحب کے نانا ریاض خیرآبادی تک پہنچی جن سے ابا سفر لکھنئو میں مل چکے تھے اور آج تک رطب اللسان ہیں کہ ریاض سے بڑھ کر انسان دوست اور شریف النفس آدمی مشکل سے ملے گا...
سٹاپ پریس : متنازعہ شعر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ریاض خیرآبادی کا نہیں بلکہ شاد عظیم آبادی کا ہے۔ کراچی کے ایک دوست نے بتایا ہے کہ فکشن ہائوس والوں نے ضرب المثل اشعار کی جو کتاب چھاپی ہے اس میں یہ شعر شاد عظیم آبادی کے نام سے منسوب ہے۔ علاوہ ازیں نوٹ فرما لیں کہ ''نیا ادب‘‘ میں میرے نام سے رکھے گئے گوشے میں میری 30 غزلیں شائع کی گئیں‘ جو غلطی سے 3 لکھا گیا۔
آج کا مقطع
مجھ پر ظفرؔ خدا کی زمیں تنگ ہی سہی
خوش ہوں کہ میرے سر پہ کھلا آسماں تو ہے