اگر میں یہ کہوں کہ اس دنیا میں روپے نام کی چیز پائی ہی نہیں جاتی تو شاید آپ مجھے دیوانہ سمجھیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ گہرائی میں غور کیجیے تو تیل، سونا، کوئلہ، لکڑی، لوہا، ہر وہ چیز جس سے ہم انسان اپنی زندگیوں کو آرام دہ بناتے ہیں، وہ اس زمین پر ہماری آمد سے قبل ہی موجود تھی۔ روپیہ صرف خدمات ماپنے کا ایک آلہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کوئی نہ کوئی شے یا کوئی مہارت دوسروں کو مہیا کرتا ہے۔ تیل کھوجنے والی ایک کمپنی کا مالک زمین کے نیچے سے تیل نکال رہا ہے۔ جو لوگ اس کام میں اس کی مدد کرتے ہیں، وہ اس کے ملازم ہیں۔ انہیں وہ اس کے عوض بظاہر کرنسی نوٹ جاری کرتا ہے لیکن یہ نوٹ وہ کھا تو نہیں سکتے اور نہ ہی انہیں اوڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ روپیہ لے کر دکان پر جاتا اور جوتے خریدتا ہے۔ جوتا ربڑ سے بنا ہے جو کہ ایک درخت سے نکالا جاتا ہے‘ یا وہ چمڑے کا ہے، جو کہ ایک جانور کی کھال سے بنا ہے۔ دکان کا مالک وہ روپے لے کر دوسری دکان سے کپڑے خریدتا ہے۔ یہ کپڑے کپاس سے بنے ہیں، جو کہ اسی زمین سے اگتی ہے۔ چینی گنے سے بنتی ہے۔ گنّا اسی زمین سے نکلتا ہے۔ جو کرنسی نوٹ ہم استعمال کرتے ہیں، وہ لکڑی یا کپاس ہی سے وجود میں آتی ہے۔ جس کار پہ ہم سفر کرتے ہیں، وہ لوہے اور پلاسٹک سے بنی ہے۔ اس میں استعمال ہونے والا تیل زیرِ زمین پہلے سے موجود تھا۔ یوں روپیہ صرف ایک شخص کی خدمات اور اشیا ماپنے کا آلہ ہے۔ یہ صرف تجارت میں مدد (Facilitate) کرتا ہے۔ حقیقت میں انسان آج بھی صرف خدمات مہیا کرتا ہے، یا ان اشیا کا لین دین کرتا ہے، جو اس زمین پر شروع سے موجود تھیں۔
یہاں اس زمین پہ تہہ در تہہ حفاظتی حصار موجود ہیں، جو کہ زندگی کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ انتہائی بلندی سے لے کر زیرِ زمین تک، ہر کہیں موجود ہیں۔ زمین کی کششِ ثقل ہمیں اس سے باندھے رکھتی ہے۔ یہ مناسب ہے، نہ ہی تو ہمیں قدم اٹھانے سے روکتی ہے اور نہ ہی ہوا میں اڑنے دیتی ہے۔ اسی کی مدد سے ہم پانی پینے سے لے کر روزمرہ کے سارے امور سرانجام دیتے ہیں۔ فضا میں گیسوں کا غلاف ہے۔ پہاڑ ہیں، جو زمین کو تھامے رکھتے ہیں۔ نادیدہ مقناطیسی میدان ہیں۔ زمین کے نیچے پگھلا ہوا لوہا اگر نہ ہوتا توجانداروں کی اکثریت کینسر کا شکار ہوتی۔ ان سب کے ساتھ جاندار اجسام میں وہ سارے نظام کام کر رہے ہیں، جن کے تحت جسم کے ہر کونے تک توانائی پہنچتی اور فاسد مادے خارج ہوتے رہتے ہیں۔
یہ سب چیزیں ہمیں ایک خوشگوار زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں لیکن کب تک؟ اپنی شاندار عقل سے کام لے کر ہم سمندر سے خلا تک سبھی کچھ مسخر کیے بیٹھے ہیں‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم محفوظ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم بوڑھے اور کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک بڑھاپے اور موت کا تعلق ہے، انسان اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ بالکل انہی کے انداز میں ہم مرتے اور اسی طرح ہمارے جسم گل سڑ جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ساری انسانی کامیابیاں بے معنی سی لگتی ہیں۔ زمین کی تاریخ حادثات سے بھرپور ہے۔ کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ ہمیں ختم کر سکتا ہے۔
جس عقل پہ ہم نازاں ہیں، اسی کی مدد سے انسانوں نے ایک دوسرے کی زندگی اجیرن کی ہے۔ انفرادی زندگیوں میں انسان ایک دوسرے کو ستانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ ریاستی سطح پر دیکھیے تو شمالی کوریا بغل میں ایٹم بم دبائے بیٹھا ہے۔ اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود امریکہ بہادر اس کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ادھر امریکہ اور یورپ کا عسکری اتحاد نیٹو روس کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔ فریقین پندرہ ہزار سے زائد جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
عقل سے کام لے کر ہر شعبے میں انسان بہتر ٹیکنالوجی استعمال کرتا‘ اور یوں اپنی زندگی آسان بناتا ہے۔ انسان کو عقل کیا صرف اس لیے دی گئی تھی کہ وہ اپنی زندگی آسان بنائے اور تباہ کر دینے والی جنگی ٹیکنالوجی تیار کرے؟ عقل اگر جبلت پر غالب نہ ہو، اگر وہ خدا کو پہچاننے میں، اس سے تعلق استوار کرنے میں ناکام رہے۔ اگر وہ ہر قسم کی منفی خواہشات کے خلاف برسرِ جنگ نہ رہے تو انسان جانور ہی نہیں بنتا بلکہ قرآن کے الفاظ میں بدترین جانور۔
ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا کے بارے میں سوچے۔ اپنی پیدائش اور زندگی کے بارے میں سوچے۔ اپنی استطاعت، اپنی تعلیم اور اہلیت کے مطابق ان نشانیوں پر غور کرے، جو ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ میں آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہوں‘ تو پھر ان آزمائشوں سے گزرنے کی تیاری کرے۔ اسے تکلیف پہنچے گی۔ اپنے اہل و عیال سے، رشتے داروں، کاروباری حریفوں سے۔ بیماری، غربت اور کاروباری نقصان سے۔ غصے سمیت مختلف جبلتیں اس کے صبر کا امتحان لیں گی۔ ایسے میں اسے کوشش کرنا ہو گی کہ عقل غالب رہے۔ غصہ مسائل کو مزید الجھاتا ہے۔ عقل بند دروازے کھولتی ہے۔ درحقیقت اگر زمین پہ انسانی حیات کا مقصد ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ عقل کا امتحان ہے۔ یہی عقل خدا تک لے جاتی ہے۔ یہی جبلتوں پہ غالب رہنے میں انسان کی معاون و مددگار ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر یہ کہتے ہیں: عقل نرم و نازک ہے۔ جب دیو ہیکل جذبات غالب آ جائیں تو وہ سہم کر بیٹھ جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک غلطی کرتا اور ٹھوکر کھاتا ہے۔ ایسی ہر غلطی سے اگر ایک سبق بھی انسان سیکھتا رہے تو آہستہ آہستہ زندگی سنورتی چلی جاتی ہے۔
انسان کے بس میں کیا ہے؟ زمین پہ زندگی کے لیے درکار سارے حفاظتی انتظامات پہلے سے موجود ہیں اور اگر کوئی حادثہ ہونا ہو تو اسے وہ روک نہیں سکتا۔ زمین پہ زندگی گزارنے کے لیے درکار وسائل پہلے سے موجود ہیں۔ کس گھر میں ہم نے پیدا ہونا اور کس طرح کی آزمائشوں سے ہمیں پالا پڑنا ہے، یہ ہمارے اختیار میں نہیں۔ زندگی میں کس بیماری سے کتنا عرصہ ہمیں گزرنا ہو گا، یہ بھی ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہمارے بس میں تو صرف یہ ہے کہ عقل کو استعمال کریں، اسے غالب رکھیں۔ اس کی مدد سے خدا سے تعلق استوار کریں۔ جس طرح کی آزمائش سے ہمیں گزارا جائے، اس میں تحمل سے گزرتے جائیں۔ عقل اور ریاضت سے مسائل سلجھانے میں لگے رہیں؛ حتیٰ کہ ہماری روح جسم کا ساتھ چھوڑ جائے۔