تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     15-04-2016

تو سیاست چھوڑ دوں گا!

اب تو حد ہو گئی۔ ایک اور سیاسی مسخرہ بول پڑا۔ کہا: میرے خلاف پانامہ لیکس کا الزام ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔
ویسے اطلاعاً عرض ہے: سیاست (Politics) اپنے ڈکشنری معنوں میں بھی شہریوں یا عوام سے میل جول اور ان کے کام آنے کا نام ہے‘ اس لئے جو عوام کا خزانہ لوٹے‘ پھر اُسے دُور کے ملکوں میں چُھپا کر فخر سے کہے: یہ دولت میری ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے یا کرتا رہا، اسے سیاست کے علاوہ باقی سب کچھ کہا جا سکتا ہے۔ سیاست کے اس مزاحیہ فنکار نے اپنے دفاع کے لئے شہید بینظیر بھٹو کی تصویر کا سہارا ڈھونڈا۔ یہ آئے روز بیان دے کر تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسے وہ سب کچھ خدانخواستہ شہید بی بی کے لئے کر رہا تھا۔ شرم و حیا سے عاری، شکم اور ضرورت کے بندے کیسے ہوتے ہیں؟ بابائے جمہوریت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے ایک بار انہیں یوں مخاطب کیا۔ ؎
شمع روشن ہوئی محفل میں پتنگے ناچے
واہ رے تہذیب، تری بزم میں ننگے ناچے
اہلِ مغرب کے تمدّن کی فُسوں کاری سے
بن کے اشراف، سٹیجوں پہ لفنگے ناچے
پانامہ لیکس کے حوالے سے ''مٹی پاؤ گروپ‘‘ نہ صرف ایکسپوز ہوا‘ بلکہ بری طرح ناکام بھی‘ کیونکہ اس کی سوچ دستر خوان سے دستر خوان تک ہے‘ دستر خوان بیشک دیسی ہو یا ولایتی۔ اسی لئے اس واردات کے نامزد ملزم معلوم تاریخ کی سب سے بڑی معاشی دہشت گردی کے اثرات اور عالمی ردِ عمل‘ دونوں سے غافل ہیں۔ آئیے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھ لیں۔
پانامہ منظرنامہ دوسرے ہفتے میں بھی عالمی میڈیا اور سیاست پر چھایا رہا۔ 3 ملکوں کے سربراہان حکومت مستعفی ہوئے۔ باقی ملزم‘ جن کے نام بھاری رقوم کی ڈکیتی میں سامنے آئے‘ وہ نظریہء ضرورت یا نظریہء جمہوریت کے پیچھے چھپنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘ جس کی کئی وجوہ عالمی سطح کی ہیں۔ مثلاً، اقوامِ متحدہ اور ورلڈ بینک نے "All CORRUPTION CASES" کے عنوان سے ادارہ بنایا۔ جس میں چوری شدہ اثاثے (Stolen Assets) اپنی مشترکہ ویب سائٹ پر ڈال دیے۔ لہٰذا جو یہ کہتے ہیں، کرپشن ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا‘ ایسے ملزموں کو عالمی بینک اور اقوامِ متحدہ کے کاغذات جھوٹا ثابت کرنا ہوں گے‘ ورنہ یہ ثبوت کیا سیاست چھوڑ دینے کے لئے کافی نہیں؟
دوسرے، سرد جنگ کے ختم ہو جانے کے طویل عرصے بعد روس نے ایک دفعہ پھر اپنا وجود عالمی طاقت کے طور پر منوایا ہے۔ یوکرائن اس کی پہلی مثال تھی۔ مڈل ایسٹ اور شام میں روسی فتوحات اس کے تازہ ثبوت کے طور پر سامنے ہیں۔ اسی لئے یورپ اور امریکہ کے تمام میڈیا ہاؤسز 24 گھنٹے پیوٹن کو ہٹلر بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ پانامہ لیکس کی فہرست میں چند روسی شہریوں کے نام بھی آئے۔ مغربی میڈیا نے ان ناموں کو ''پیوٹن ہٹاو‘‘ مہم چلانے کے لئے تلوار بنا لیا۔ اس لئے جب تک پیوٹن روس کی سیاست کا متحرک مرکزی کردار ہے، پانامہ لیکس کا معاملہ نہ دبے گا‘ نہ ہی اسے 35 پنکچر لگ سکتے ہیں۔
تیسرا حوالہ، ایک امریکی ادارہ ڈی ای اے (Drug Enforcement Agency of America) ہے‘ جو لازماً پانامہ لیکس اور منشیات کی گندی دولت پر تحقیقات کرے گا‘ کیونکہ دنیا بھر کے بے روزگاروں اور غریبوں کی لوٹی ہوئی رقم صرف پانامہ میں چھپائی نہیں گئی‘ بلکہ دوسرے راستے سے یہی دولت بین الاقوامی فراڈ، منشیات اور ٹیکس چوری کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ پانامہ لیکس کے کچھ ملزموں کے خلاف ان میں سے ایک عدد الزام لگا۔ کچھ کے خلاف دونوں الزام لگ گئے، جبکہ دیگر کے خلاف تینوں الزامات بنتے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور کچھ دوسرے ملکوں میں ٹیکس کے محکمے ٹیکس چوری کے اس انکشاف پر فوری تحقیقات کا آغاز کر چکے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے‘ پاکستان میں ایف بی آر وغیرہ ابھی تک حرکت میں کیوں نہیں آئے۔ اس کا جواب اس حسرت میں پوشیدہ ہے جو وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے قریبی حلقے کے سامنے کھول کر رکھی۔ باوثوق حوالہ کہتا ہے کہ وزیر اعظم اس بات پر پچھتائے کہ انہوں نے اپنے سمدھی کو ایم این اے کیوں نہیں بنایا، سینیٹر کیوں بنا دیا۔ تخت کے مستقل سامعین میں سے ایک نے نکتہ اٹھایا: جناب! اسحاق ڈار ''ڈی فیکٹو‘‘ پرائم منسٹر تو ہیں ہی، وہ ایم این اے بن کر کیا کرتے؟ جواب آیا... وہ ایم این اے ہوتے تو انہیں پرویز الٰہی کی طرح ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیتے تاکہ وزیر اعظم کی ''بیماری‘‘ کے دوران ڈار صاحب قائم مقام وزیر اعظم کا چارج سنبھال سکتے۔
ابھی ذکر ہوا وزیر اعظم صاحب کی بیماری کا۔ سیاستدانوں کی سیاسی بیماریوں کے ثبوت سامنے ہیں۔ مشکل وقت میں بیمار پڑنے والے سیاستدانوں سے عمومی اور موجودہ وزیر اعظم سے خصوصی طور پر قوم ایک سوال ضرور پوچھنا چاہے گی۔ وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بنے، بیمار ہوئے‘ علاج پاکستان میں نہ ہو سکا۔ مجبوری انہیں لندن لے گئی۔ پھر جنرل ضیاء کی دعا سے وہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر بیٹھے۔ تب بھی بیماری کا علاج سات سمندر پار جا کر ممکن ہوا۔ اب نواز شریف تیسری دفعہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ کوئی کروڑ پتی یا لکھ پتی ان کے مقابلے میں ''ککھ‘‘ جتنا وزن نہیں رکھتا۔ ان کے دور میں انگلی کے اشارے سے چالیس ارب، اَسی ارب، سو ارب اور دو سو ارب روپے والا پروجیکٹ ایسے بنتا ہے جیسے ڈرائیور ہوٹل پر کھانا کھانے والا کنڈیکٹر، چارپائی پر بیٹھے بیٹھے چھوٹے کو آرڈرکرتا ہے ''چھوٹے تھوڑی سی دال اور ڈال دے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ برسرِ قتدار رہنے کے باوجود وزیر اعظم کوئی ایک ایسا ہسپتال اپنے ملک میں کیوں نہ بنا سکے‘ جہاں ان کا، ان کے رشتہ داروں اور سیاسی خاندان کا علاج ممکن ہوتا...؟
حکمران اور سابق حکمران اشرافیہ کو ٹھیکے داری بزنس کے علاوہ صرف دو ''ٹی وی ٹِکر‘‘ ہی پسند آتے ہیں۔ ایک، نوٹس لے لیا۔ دوسرا ''تو میں سیا ست چھوڑ دوں گا‘‘۔
2010ء کے سیلاب کے بعد کہا گیا: اپنی جائیداد بچانے کے لئے لوگوں کو ڈبونے کا الزام ثابت ہو جائے‘ تو استعفیٰ دے دوں گا۔ فلڈ کمیشن کی رپورٹ نے الزام کی تصدیق کر دی‘ لیکن استعفیٰ کا اعلان کرنے والا مُکر گیا۔ کرپشن کی ایک پائی ثابت کر دو، استعفیٰ دے دوں گا۔ واقعی ایک ''پائی‘‘ ثابت کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اربوں کھربوں کے ثبوت نیلام کے مال کی طرح میڈیا میں رُل رہے ہیں۔ قوم سے مذاق کرنے والوں کو معلوم ہے پاکستان کے غریب عوام کو زبان، فرقہ، طبقہ اور برادری کے خانوں میں بند کر دیا گیا۔ ترقی پسند ملک وہ ہوتا ہے جس کی قوم ترقی پسند ہو۔ ترقی آزاد سوچ اور آزاد سیاست سے ہی ممکن ہے۔ غلامانہ ذہنیت قوموں کو غیرملکی آقاؤں کے غلاموں کا بھی محتاج رکھتی ہے۔ اسی لیے قائد اعظم ثانی کو پانامہ لیکس میں قوم کی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ اس کا علاج لندن یاترا بذریعہ ماسکو سے کروانے میں سخت مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved