چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب انور ظہیر جمالی کی میں تہہ دل سے عزت کرتاہوں، ان کا شمار ماضی اور حال کے ان چند بہترین جج صاحبان میں ہوتاہے جن کی پاکستان کی سیاست اور معاشرے پر گہری نگا ہ ہے، جس سے متعلق وہ اکثر تبصرہ کرتے رہتے ہیں، بعد میں ان کا یہ تبصرہ اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتا ہے، جس سے خلق خدا اپنی سوچ اور شعور کے مطابق استفادہ کرتی ہے، تاہم انہوں نے اپنے تبصرے میںبڑی وضاحت سے یہ بات کہی ہے کہ'' جیسا بھی لولا، لنگڑا نظام ہے اسے چلنا چاہئے، دونوں بڑی جماعتوں نے غلطیاں کی ہیں‘‘ان کا یہ تبصرہ ایک ایسے نظام کے بارے میں ہے، جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے، جبکہ اس نظام کو چلانے والے چہرے کسی نہ کسی عنوان سے ماضی میں بھی اور اب بھی حکومت کر رہے ہیں اور ان ہی سیاست دانوں کی بے لگام کرپشن سے پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکل چکا ہے، اگر کچھ عرصہ یہی نظام عوام کے سروں پر مسلط رہا تو پاکستان کی سا لمیت سوالیہ نشان بن جائے گی، چنانچہ اس نظام کے تحت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ نہ تو پاکستان کے وسیع ترمفاد میں ہے اور نہ ہی عوام کے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اقتدار پر قابض ٹولا اور دیگر سرمایہ دار ہر سال آٹھ ہزار ارب ہڑپ کرجاتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ عدلیہ، فوج، اور سول سوسائٹی اس کرپشن کو روکنے اور کرپٹ عناصر کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام نظر آرہی ہے، جو چھوٹی موٹی سزائیںاس مد میں دی جارہی ہیں، وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر ماتحت عدالتوں سے مختلف حربوں کے ذریعہ جس میں رشوت بھی شامل ہے، چھوٹ جاتے ہیں۔ خطرناک اور بدمعاش عناصر کو جیل میں ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں، یہاں تک کہ رات کو مجبور عورتیں بھی ان کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔ مزیدبراں کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں غیر ملکی جاسوس جس میں را پیش پیش ہے، ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں، اگر پولیس اور رینجرز ان کی تادیب نہ کریں تو یہ ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، بلکہ پہنچارہے ہیں۔ انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آنے کے بعدپارٹیوں کا اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرنا نظام کو مزید کمزور بناتا ہے۔ حالانکہ ان پارٹیوں نے اپنے منشور کے ذریعہ سبز باغ دکھا کر عوام سے ووٹ لئے ہوتے ہیں، اور یہ وعدہ کیا ہوتا ہے، کہ وہ ان کی معاشی حالات ٹھیک کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتیں گی۔ اس لئے جسٹس جمالی نے ٹھیک کہا ہے کہ دونوں جماعتوں (پی پی پی اور مسلم لیگ ن) نے غلطیاں کی ہیں، محترم جسٹس صاحب کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس کی وجہ سے ملک ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے جہاں اب مزید غلطیاں کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اسی لئے چیف آف آرمی اسٹاف کوگوادر میں ایک سیمینار میں کہنا پڑا ہے کہ دہشت گردی اور معاشی کرپشن کے گٹھ جوڑ کو ختم کردیں گے، معاشی دہشت گردی جس میں بڑے بڑے سیاست داں اور بیورو کریٹ وغیرہ شریک ہیں اور ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے ملک اقتصادی ترقی میں خطے کے تمام ملکوں سے پیچھے رہ گیا
ہے، شرح نمو مشکل سے 4%تک پہنچی ہے ۔ بجٹ کا خسارہ اس لئے بڑھتا جارہا ہے کہ حکومت شاہانہ انداز میںخرچ کررہی ہے، اور قرض لے کر ملک کا نظم ونسق چلارہی ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو اس لئے قرضہ نہیںدے رہا کہ پاکستان میں ہر شعبے میں شاندار ترقی ہورہی ہے، بلکہ اس لئے دے رہا ہے کہ بعد میں قرضے کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں (خدانخواستہ) اس ملک پر قبضہ کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ جیسا کہ بعض جگہ ایسا ہوا ہے۔
وزیرخزانہ اسحق ڈار گداگرانہ انداز میں زیادہ سود کے ساتھ قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، قرضہ تو مل جاتا ہے، لیکن ملک ان مالی اداروں کے پاس گروی رکھ دیا جاتا ہے شرمندگی الگ ہوتی ہے کیا اس طرح ملک معاشی ترقی کرسکتا ہے اور خود کفیل ہوسکتا ہے؟ اور کیا اس موجودہ نظام میںملک کو ترقی دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کے سلسلے میں کوئی رمق یا روشنی موجود ہے؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام یا اس کے بطن سے جنم لینے والی ''جمہوریت‘‘ میں ان کی استعداد موجود ہے جو ملک کی ترقی یا پھر عوام کی خوشحالی کا سبب بن سکتی ہے؟ دیوار کے پیچھے جو نظر آرہا ہے وہ بہت ہی
بھیانک منظر ہے، اور یہ منظر موجودہ نظام کا پیدا کردہ ہے، جسے لنگڑا، لولا کہہ کر چلتے رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ بھارت کی عدلیہ کے بارے میں آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہونگے، وہاں کی عدلیہ بہت طاقتور اور عوام دوست ہے، اسی عدلیہ نے اندرا گاندھی کو جیل بھیجا تھا اس کے بعد کئی بڑے اور نامور وزرائے اعلیٰ جیل کی یاترا کر چکے ہیں ، جبکہ وطن عزیز میں کیا ہورہا ہے؟ عدلیہ طاقتور عناصر کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے، یہ سب کچھ جاننے کے باوجودایک ایسے نظام کے حق میں لب کشائی کی جا رہی ہے جس نے اس ملک کی اخلاقی اور معاشی حالت کو سخت نقصان پہنچایا ہے، ایک خاص ایجنڈے کے تحت عوام کو غربت وافلاس کی تاریکی میں مستور کردیاہے، تو دوسری طرف صرف 2فی صد افراد اس ملک پر حکومت کرکے عیش وعشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تلخ‘ المناک و پر سوز حقیقت یہ ہے ، کہ یہ نظام ناکام ہوچکاہے، اس میں اتنی سکت نہیںہے کہ یہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے، اوراس کے ذریعہ خوشحالی کی کوئی تعبیر نکل سکے، لولا، لنگڑا نظام ایک لولے ، لنگڑے معاشرے کو جنم دے رہاہے، جس میں آگے بڑھنے کی تمام صلا حیتیں مفقود ہوچکی ہیں، اس نظام سے یہ امید رکھنا کہ اس کے ذریعہ ملک مستحکم ہوگا، عبث سوچ ہے۔