تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     15-04-2016

حکمرانی کا پیمانہ اور پانامہ

اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپؐ حکمرانِ مدینہ بن گئے۔ سب سے پہلا کام آپؐ نے مسجد کی تعمیر کا کیا۔ ''طبقات ابن سعد‘‘ میں ہے کہ پتھروں سے دیواریں بنا دی گئیں، کھجور کے تنوں کو ستون بنا دیا گیا، چھت بناتے ہوئے لکڑیوں کو شہتیر بنا دیا گیا اور ان کے اوپر کھجور کی شاخیں ڈال دی گئیں۔ چھت پر صحابہؓ نے گارے کی لپائی کا سوال کیا تو فرمایا ''جس طرح موسیٰ علیہ السلام کا چھپّر تھا ویسا ہی یہ بھی ایک چھپّر ہے۔ کچھ لکڑیاں ہیں اور ٹہنیاں ہیں۔ لوگو! موت تو اس سے بھی قریب تر ہے۔‘‘ یعنی درخت کا رشتہ زمین سے کٹتا ہے تو اس کے بعد بھی ایک لمبی مدت تک وہ کارآمد رہتا ہے۔ انسان کی اجل کا کچھ علم نہیں، لمحہ کا بھروسا نہیں اور جب اس کا رشتہ روح سے کٹ جائے تو گھر میں کچھ دیر کے بعد اسے رکھنا ناممکن ہے۔ لہٰذا! یہ چھپّر ہی بہتر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسی کے ساتھ گزارا کیا تھا اور حضرت محمدکریمﷺ کی گزران بھی اسی کے ساتھ ہو گی۔ اللہ اللہ! یہ ہے حکمرانِ مدینہ کی پہلی عمارت کی تعمیر کا انداز اور ساتھ ہی سوچ کی پرواز جس نے صحابہؓ کو زمین کی پستیوں سے اٹھایا اور اوج ثریّا تک پہنچایا۔ اب ایک دوسرا منظر ملاحظہ ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی قوم اور قبیلے بنی اسرائیل کی ایک خاتون خیبر کی فتح کے بعد حضرت محمد کریمؐ کی اہلیہ محترمہ بنتی ہیں۔ ان کا اسم گرامی صفیہؓ ہے۔ اللہ کے رسولؐ اپنی اسی چھپّر والی مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہیں۔ حضرت صفیہؓ اپنے چھپر نما حجرے سے اپنے شوہر نامدار کو ملنے آئی ہیں۔ بخاری اور حدیث کی دیگر کتابوں میں تفصیل موجود ہے جس کے مطابق رات کے اندھیرے میں حضورؐ اپنی اہلیہ محترمہ اور مومنوں کی ماں کو ذرا گھر کے قریب چھوڑنے کے لئے مسجد سے باہر تشریف لے گئے۔ الوداع کرنے کے پوائنٹ پر ذرا رک کر باتیں کرنے لگے۔ دو انصاری لوگ جو وہیں سے گزر رہے تھے، ذرا دور ہو کر گزرنے لگے تو حضور پاکؐ نے دونوں کو مخاطب ہو کر فرمایا، ذرا رک جائو۔ وہ دونوں رک گئے۔ آپؐ نے بلایا اور فرمایا، یہ میری بیوی صفیہ ہیں، میں ان سے باتیں کر رہا تھا۔ دونوں نے عرض کی، حضورؐ! آپ پر ہماری جان قربان، اس وضاحت کی ضرورت کیوں محسوس فرمائی؟ فرمایا! تاکہ تمہارے دل میں یہ وسوسہ جنم نہ لے کہ رات کے اندھیرے میں اللہ کے رسولؐ نہ جانے کس عورت سے محو گفتگو تھے۔ یہ ہیں حکمران مدینہ جو اپنے بارے میں دو انسانوں کے دل میں بھی پڑنے والے شک و شبہ کو فوراً دور کرتے ہیں۔
قارئین کرام! آج جس ''پانامہ انکشاف‘‘ نے دنیا کے حکمران طبقے کو ہلا مارا ہے، اس کے پیچھے آپ جائیں تو سودخور یہودی ملے گا۔ میرے حضورؐ کے آنے سے پہلے مدینہ جب یثرب ہوا کرتا تھا تو اس دوران یہودی سود خوروں نے مدینہ کے باسیوں کو سودی لعنت میں جکڑ رکھا تھا۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز زندگی کو بھول چکے تھے اور سود خوری کی لعنت کا طوق انسانیت کے گلے میں ڈال چکے تھے۔ ہمارے حضورؐ تشریف لائے اور سودی سسٹم کو ختم کیا۔ یہودیوں کے بازار کے مقابل غیر سودی مارکیٹ قائم کی جس کا نام ''سوق المدینہ‘‘ یعنی مدینہ مارکیٹ رکھا۔ چھپّر والی سادہ مسجد اور چھپّر نما حجرے بنا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز زندگی کا احیا کیا۔ یہودی اپنے سود خور گمراہ آباء کے چلن سے ہٹ نہیں پائے۔ آئی ایم ایف کے سود خور عالمی ادارے کے پیچھے وہی ہیں۔ ورلڈ بینک کے سودخور ادارے کے بانی وہی ہیں۔ بینکنگ کے سودی نظام کے کرتا دھرتا وہی ہیں۔ وال سٹریٹ کی بلند و بالا سودی دیواروں کے پیچھے انہی کے چہرے چھپے ہیں۔ ہمارے مسلمان حکمران طبقے نے اپنے اپنے ملکوں کو انہی اداروں کا مقروض بنا رکھا ہے اور عوام کی جیبوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ سودی قرض کی رقم کو پھر انہوں نے لوٹا ہے اور آف شور یعنی ہم غریبوں کے ساحلوں سے دور مختلف جزیروں میں فرضی کمپنیوں کے نام سے جہاں اربوں ڈالر کھپا رکھے ہیں، ان ''آف شور کمپنیوں‘‘ کے پیچھے بھی وہی یہودی ہیں۔ انہوں نے پہلے ''وکی لیکس‘‘ کے ذریعے حکمرانوں کے منہ پر کالک لگائی اور اب پانامہ انکشاف کے ذریعے ان کے مونہوں پر مزید سیاہ ترین کالک کا لیپ کیا ہے۔ یہ لیپ مسیحی اور مسلمان حکمرانوں کے چہروں پر کیا گیا ہے۔ یہ حکمران گھنائونا کردار ادا کر کے اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے تھے۔ یہودی نے ان کے گھنائونے اور گندے کردار کو ننگا کر دیا ہے اور ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے۔ قیامت کے دن شیطان بھی ان پر اسی طرح ہنسے گا کہ دیکھا کس طرح میں نے تمہاری خواہشوں کو تمہارا معبود بنایا اور آج اپنی ذلت کے مناظر دیکھتے ہو تو اپنی خواہشوں پر ماتم کرو،میری ملامت مت کرو۔
حضرت عمروؓ بن عاص اللہ کے رسولؐ کے معروف صحابی ہیں۔ مسیحی رومیوں سے جب معرکے شروع ہوئے تو اللہ کے رسولؐ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں بھی یہ سلسلے جاری رہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے شام، اردن، فلسطین، لبنان کے علاقوں میں رومیوں کے مقابلے کے لئے چار جرنیلوں کو مختلف علاقوں میں فوجیں دے کر روانہ کیا۔ ان میں حضرت عمروؓ بن عاص بھی شامل تھے۔ وہ رومی مسیحیوں سے برسرپیکار رہے۔ یہ سارے علاقے جو مسیحی اقتدار میں تھے مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں یہ سلسلے جاری رہے۔ حضرت عمروؓ بن عاص اور آگے بڑھے اور مصر کے بھی فاتح بن گئے۔ یوں مسیحی لوگوں سے لمبی لڑائیاں لڑنے، ان کے کردار کو دیکھنے، ان کے مذہب کا جائزہ لینے کا ان کو وسیع موقع ملا اور تجربہ حاصل ہوا۔ ان کی زندگی کے آخری دور میں حضرت عمروؓ بن عاص کے سامنے ایک صحابی رسول حضرت مستورد قریشی نے ایک حدیث بیان کی۔ کہتے ہیں، میں نے اللہ کے رسولؐ کو فرماتے ہوئے خود سنا کہ ''قیامت آئے گی تو رومی (مسیحی) لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔‘‘ حضرت عمروؓ بن عاص نے یہ سن کر ان سے کہا، ارے دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟ حضرت مستورد قریشیؓ کہنے لگے، ہاں ہاں! میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے اللہ کے رسولؐ سے سنا ہے۔ تب حضرت عمروؓ بن عاص کہنے لگے، اچھا! اگر یہ بات ہے تو (میں نے اپنے لمبے تجربات سے جو حاصل کیا، اس کے مطابق) ان مسیحی لوگوں میں چار خصلتیں ہیں۔ (1)آزمائش کے وقت یہ لوگ سب سے بڑھ کر بردبار ہوتے ہیں۔ (2)مصیبت آنے پر سب لوگوں کی نسبت مصیبت سے جلد سنبھل جاتے ہیں۔ (3)جنگ میں پسپائی کے بعد سب لوگوں کی نسبت جلد ہی دوبارہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ (4)مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے حق میں سب لوگوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ (5)پانچویں خصلت جو ان میں ''حسنۃٌ جمیلہٌ‘‘ بہت اچھی اور خوبصورت ہے وہ یہ ہے کہ ''اَمْنَعُھُمْ مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوْکِ‘‘ سب لوگوں سے بڑھ کر حکمرانوں کے ظلم کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہونے والے ہیں۔ (صحیح مسلم: 7279)
قارئین کرام! مسیحیوں کے بارے میں تجربہ کار مسلم جرنیل اور دانشور صحابی رسولؐ اپنے نبیؐ کے جس فرمان کی شرح کر رہے ہیں اس کا صرف آخری حصہ ملاحظہ کیجئے اور آج پانامہ انکشاف کے بعد دنیا کے حالات کو دیکھئے۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم کا مسیحی لوگوں نے گھیرائو کیا اور اسے مستعفی ہونا پڑا۔ یوکرائن کے وزیراعظم مستعفی ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں ایک سرکاری ادارہ قائم ہے اور اس کا سربراہ ''کمشنر اخلاقیات‘‘ کہلاتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اگر پانامہ لیکس کے شکنجے سے قانونی طور پر بچ بھی نکلے تو اگر کمشنر اخلاقیات نے کہہ دیا کہ وزیراعظم کا جو مقام ہے اس پر الزامات کی دھول کا اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ کیمرون صاحب 10 ڈائوننگ سٹریٹ سے نکل کر اپنے گھر کے کمرے میں آرام کریں تو اخلاقی دبائو کیمرون کو گھر بھیج دے گا۔ مالٹا ایک چھوٹا سا مسیحی ملک ہے، اس کے وزیراعظم کے دفتر کا بھی مسیحی لوگوں نے گھیرائو کر لیا ہے اور نہ جانے آئندہ کتنے حکمرانوں کے گھیرائو ہوں گے اور وہ چلتے بنیں گے۔ اس سے پہلے بھی ہم ان کے گھیرائو دیکھ چکے۔ امریکہ کے مضبوط اور معاشی میدان میں محسن صدر کلنٹن کو دیکھ چکے کہ مونیکا کے ساتھ جنسی سکینڈل سامنے آیا اور صدر انصاف کے کٹہرے میں رو رہا تھا۔ رومانیہ کے صدر چائو شیسکو کو دس لاکھ لوگوں نے اس کے محل کا گھیرائو کر کے صدارتی کرسی پر بٹھا کر گولی مار دی اور کہا کہ ہم نے جناب مسیح علیہ السلام کا دشمن مار دیا جو بے حد ظالم اور کرپٹ تھا۔
مندرجہ بالا حقائق سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ مسیحی دنیا کے حکمران جن کی جان پنجۂ یہود میں ہے وہ ان کے ظلم کو برداشت نہیں کرتے۔ ان کی اخلاقی بے راہ روی وہ جنسی میدان میں ہو یا کرپشن کے ڈھیر میں ہو، اسے برداشت نہیں کرتے۔ رہے ہم مسلمان لوگ ہم کہاں ہیں...؟ ہم لوگوں کو ہمارے حکمرانوں نے جس سودی نظام میں جکڑ رکھا ہے اس کی زنجیروں کو توڑنے میں ہمارا کیا کردار ہے؟ قوم تو زبردست ہے کہ جس کو قائداعظم جیسا لیڈر ملا تو برصغیر میں ایک معجزہ رونما ہوا، پاکستان بن گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے سود اور کرپشن کی زنجیر تڑوانے کے لئے کون سا لیڈر ملے گا؟ محترم سراج الحق اور لیاقت بلوچ کرپشن فری پاکستان کی تحریک چلا رہے ہیں۔ عمران خان بھی گرج رہے ہیں۔ مگر پوری قوم میدان میں آ جائے یہ منظر بنتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ بہرحال! پرامن جدوجہد جاری رہنی چاہئے کہ حکمرانی میں حضرت محمد کریمؐ کے طرز زندگی اور اخلاقی ساکھ کا کچھ نہ کچھ حصہ تو ہم اہل پاکستان کے حصے میں بھی آئے۔اللہ کرے ایسا منظر ہماری آنکھ بھی دیکھ پائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved