تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-04-2016

پٹھانکوٹ سے فرار

آخر وہی ہوا جس کی امید کی جا رہی تھی۔ بھارت پٹھان کوٹ سے فرار ہو گیا۔ پاکستان سے گئی ہوئی تحقیقاتی ٹیم کو ادھر ادھر گھما کرواپس بھیج دیا گیا کہ ہوائی اڈے کے اندر کسی اور کے جانے سے ان کو شائد ڈر لگنے لگا تھا ۔ہوسکتا ہے کہ بھارت اس معاملے میں کچھ سنجیدگی دکھابھی دیتا لیکن کلبھوشن یادیو کی ہونی نے انہونی کر دی۔ اس لئے بوکھلایا ہوا بھارت اب جتنا بھی واویلا کرتا رہے یادیو تاجر تھا ایران میں کاروبار کرتا تھا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسا تاجر تھا کہ اس کے پا س کسی بھی قسم کے سرکاری ٹیکس کا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ ابھی بھارت کا گورداسپور والا ڈرامہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ 2 جنوری 2016 ء کو پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی شامت آ گئی اور اس پر حسب معمول لشکر طیبہ اور جیش محمد کا شور و غل مچا دیاگیا۔ پٹھان کوٹ میں جو ہوا اس کے بارے میں بھارتی حکومت اور ان کے میڈیا کی جانب سے سنائی جانے والی بے پرکی باتیں اپنی مدت ‘میعاد پوری کر چکی ہیں اور اقوام عالم سمیت بھارت کو بھی سمجھ آ چکی ہے کہ بات وہ نہیں ‘جو سمجھی جا رہی تھی اور سچ بھی وہ نہیں جو ان کا میڈیا اور سرکاری زبانیں اگل رہی ہیں ‘ورنہ امریکہ اور برطانیہ جیسے بھارت کے وفادار کہاںآرام سے ٹکنے والے تھے ۔ بھارت کو احساس ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے وزیر دفاع کی جانب سے پٹھان کوٹ کے غصے میں دیا جانے والا بیان بھی ان کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس چکا ہے اور دنیا جو کل تک بھارت میں ہونے والی دہشت گردی پر بھارت کی ہاں میں ہا ں ملانا اپنا فرض سمجھا کرتی تھی وہ بھی اب بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے اس کی باتوں کو ماننے سے احترا زکر رہی ہے۔ پاکستان کا رویہ بھی معذرت خواہانہ نہیں رہا بلکہ اب اس پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جارحانہ سا ہوتا جا رہا ہے اور وہ دنیا کی کسی بھی کمیٹی، کمیشن یا تحقیقاتی اداروں اور ایجنسیوں کے سامنے بیٹھ کر اصل چہروں کو بے نقاب کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے‘ شایدیہی وجہ ہے کہ عالمی رہنمائوں کی کوششوں سے بھارتی حکومت نے پہلی دفعہ فیصلہ کیا ہے کہ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان کے ساتھ مل کر تلاش کیا جائے تاکہ بھارتی عوام سمیت پوری دنیا کو معلوم ہو سکے کہ اصل دہشت گرد کون ہیں۔
پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں تک پہنچنے کیلئے پاکستان نے اپنے نہایت ایماندار اور قابل ترین افسران پر مشتمل جائنٹ انٹیروگیشن ٹیم تشکیل دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو مطلع کیاکہ ایک دفعہ آپ ہماری بات مانتے ہوئے ان چہروں اور خفیہ ہاتھوں کو تلاش کرنے میں مدد کریں تاکہ وہ لوگ جو ہمارے اور آپ کے درمیان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکا وٹ بنتے ہیں ان کو سامنے لایا جا سکے۔ پاکستان سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کی سربراہی میں یہ ٹیم 27 مارچ کو پٹھان کوٹ پہنچی تاکہ بھارت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے‘ لیکن بھارت کی غیر سنجیدگی جلد ہی عیاں ہو گئی اور یہ ٹیم واپس پاکستان پہنچ گئی۔ موجودہ حالات کے مطابق دونوں ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی فریق سے کوئی پہلو بھی پوشیدہ رکھے بغیر انسانیت اور خطے میںامن کے قیام کیلئے خلوص دل سے تعاون کریں۔ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی ادارے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ الزامات کی کہانیوں کا یہ سلسلہ بہت ہو چکا‘ جو سچ ہے وہ پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کیونکہ یہ فقط دو ملکوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ان میں رہنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اگر جھوٹ کی جڑ کو ابھی سے اس کی بنیادوں سمیت اکھاڑانہ گیا تو یہ کل کو کسی بھی وقت غصے اور وحشت میں تبدیل ہو کر اس خطے میں بسنے والوں کی تباہی و بربادی کا با عث بھی بن سکتی ہے ۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ تباہی برصغیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس سے ایک زمانہ برسوں تک متاثر ہو تا رہے گا۔کلبھوشن جیسے چہروں سے پردہ اٹھنے سے ایک تو بھارت اور اس کے عوام کے ذہنوں میںلگی وہ گھانٹھیں کھل جائیں گی جو پاکستان مخالفت کے نام پر لگائی گئی ہیں‘ اور ساتھ ہی اقوام عالم بھی بھارت کی امن و آشتی سے اٹھے ہوئے پردے دیکھ کر ہوش ربا حقائق جان سکیں گی۔ 
بھارت کو وسیع القلبی سے پاکستان کی جے آئی ٹی سے تعاون کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھی بھارتی حکومت نے پاکستان کو اس طرز کی دہشت گردی کے حقائق جاننے کیلئے اپنے ساتھ انگیج کیا اور یقینا پاکستان بھی بہت ہی کھلے دل سے بھارتی حکام سے مکمل تعاون کی پالیسی اپنارہا تھا ۔ سچ جاننے کیلئے قائم کیا جانے والا کمیشن پاکستان کی پرانی خواہشات میں سے ایک ہے تاکہ'' اجیت ڈوول‘‘ جیسے لوگوں کے تیار کئے گئے ٹوپی ڈراموں سے دنیا با خبر ہو سکے ۔اقوام عالم کی یادداشت اور اجیت ڈوول کے شیطانی منصوبوں کے بارے میں بھارت کی وزارت داخلہ کے سابق افسرR.V.S.MANI کا 2014ء میں بھارتی ہائیکورٹ میں دیا گیا وہ حلفیہ بیان ایک بار پیش کرتا ہوں جس میں اس نے لکھا کہ نئی دہلی پارلیمنٹ ہائوس پر فائرنگ اور ممبئی26/11 کا ڈرامہ بھارت کا اپنا ہی تیار کردہ تھا اور اس کی تصدیق گورداسپور اور کشتی کے فلاپ ڈرامے سے کی جا سکتی ہے۔ دو جنوری یعنی پٹھان کوٹ وقوعہ کی رات سے ہی بھارتی حکومت اور ان کا سرکاری میڈیا یہ رپورٹس دیتا رہا ہے کہ ہوائی ا ڈے پر حملہ کرنے والے 
دہشت گردوں کی کل تعداد6 تھی لیکن بھارت نے ان میں سے صرف چار دہشت گردوں کی تصویریں پاکستان سے شیئر کی ہیں۔ بھارت کو باقی دو دہشت گردوں کی تصاویر اور ان کے بارے میں جمع کی گئی مکمل معلومات بھی پاکستان سے شیئر کرنا ہوں گی۔دو جنوری کو گزرے چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے طور پر یقینا اپنے بھر پور وسائل سے بہت سے ثبوت جمع کر لیے ہوں گے۔ ان تمام معلومات کو ایک دوسرے سے مخفی رکھ کر کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا اس لئے اس جرم اور سازش کو بے نقاب کرنا دونوں کیلئے از حد ضروری ہے ‘جو دونوں ملکوں میں کشیدگی کا باعث بننے جا رہا تھا۔ 
بھارت سے تو کچھ بھی پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اس وقت خود دہشت گردی کے سب سے بڑے عفریت کا براہ راست شکار ہو رہا ہے ۔یہ دہشت گردی وہ ہے جس کے سرے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے جا ملتے ہیں‘ اس لیے پاکستان کسی طور بھی نہیں چاہتا کہ اپنے کسی ہمسایہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو سپورٹ کرے کیونکہ دہشت گرد کا تو کوئی ملک ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ سرحدوں پر یقین رکھتا ہے ۔اگر آج کسی دہشت گرد کو سپورٹ کیا جائے تو کل کو اسے زیا دہ قیمت دینے والا اپنے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔اسی لیے پاکستان کی مغربی سرحدوں سے کی جانے والی دہشت گردی کو انسانیت کے قتل کے طور پر لیتے ہوئے اس کی مکمل بیخ کنی کرنے کو اپنے ایمان کا حصہ بنانا ہو گا۔ ۔بھارت کو اب پٹھان کوٹ سے فرار کا کوئی بھی بہانہ اور راستہ ڈھونڈے بغیر انسانیت کی فلاح اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عالمی ایجنڈے کی پاسداری کرنا ہو گی‘ کیونکہ پٹھان کوٹ سے ٹیکنیکل فرار کا کوئی بہانہ نہیں چلے گا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved