1990ء کی دہائی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضے کی ایک قسط لینے والا ملک کہا کرتے تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ ایک حکومت معاشی معاملات سدھارنے کے لیے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے پاس قرضہ لینے جاتی تو اپوزیشن معیشت کی بربادی کا نوحہ پڑھتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کردیتی۔ تحریک کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف درونِ خانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ الٹے سیدھے وعدے کرکے اسے بھی ساتھ ملا لیتی اور کچھ ہی عرصے بعد اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کردیا جاتا۔ اس کے بعد نئی حکومت بنتی اور پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ نئے سرے سے قرضے کا ڈول ڈالا جاتا، اقتصادی اصلاحات کی بات کی جاتی اور پہلی قسط لیتے ہی حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوجاتا، سیاست میں احتجاج و سازش کے اس امتزاج نے کسی حکومت کو بھی اس قابل نہ ہونے دیا کہ وہ ملک میں بہتری لانے کے اپنے ایجنڈے پر عمل کرسکے۔ پاکستانی معیشت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سکڑتی جاتی تھی اورعوام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جارہے تھے۔ کوئی ملک تو دور کی بات سمندرپار پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے گھبراتے تھے۔ اگر کوئی غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے آبھی جاتا تو پھر حکومت کو اس کی ناروا شرطیں بھی ماننا پڑتیں۔اگرچہ اس دہائی میں نواز شریف نے موٹرویز کا آغاز کیا اور بے نظیر بھٹو شہید نے بجلی کا مسئلہ بھی حل کیا لیکن دونوں کو غیر ملکی کارپوریشنوں کی سخت شرائط پر ہی قوم کے لیے یہ ضروری سودے کرنا پڑے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں
غیرملکی کمپنیوں کے اندازے ہی درست ثابت ہوئے ۔ نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کے دور میں بنے بجلی گھروں کو احتساب کی ٹکٹکی پر کس لیا اور بے نظیر بھٹو نے موٹروے بنانے والی کمپنی کو عذاب میں مبتلا کردیا۔ ان کمپنیوں کے مالکان اگر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں سے بچ گئے تو صرف اس وجہ سے کہ وہ دوسرے ملکوں کے شہری تھے ۔ اگر یہ لوگ پاکستانی ہوتے تو یقینا جیل میں ڈال دیے جاتے۔ ان کمپنیوں کا انجام دیکھ کر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی شرائط مزید کڑی کردیں اور اگر کسی پاکستانی نے بھی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی تو کسی آف شور کمپنی کے ذریعے کی۔ تاکہ برے وقت میں ''غیرملکی‘‘ کمپنی کی وجہ سے عزت اور جان بچ سکے۔
آف شورکمپنی بے شک اس وقت دنیا میں بدنام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیاکے مخصوص سیاسی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کمپنیوں کے ذریعے ہم جیسے ملکوں میں معیشت کا پہیہ تھوڑا بہت گھومتا رہا۔ ان کمپنیوں کی صورت میں یورپی اور امریکی کمپنیوں کو موقع مل گیا کہ وہ ان ملکوں کے ساتھ بھی کاروبار کرسکیں جن کے ساتھ ان کی اپنی حکومتیں معاشی تعلقات نہیں رکھنا چاہتیں۔ امریکی کارپوریشنوں نے بے شمار ایسی آف شور کمپنیاں قائم کیں جو امریکی پابندیوں کے زمانے میں ایران سے کاروبار کرتی رہیں۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکے کے
بعد جب پاکستان پر پابندیاں لگیں تو یہ آف شور کمپنیاں ہی تھیں جو ہماری ضروریات کو پورا کرتی رہیں۔حتیٰ کہ خود ہمارے ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں بھی پاکستان کی قائم کردہ آف شور کمپنیوں کا اہم کردار ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ ہم نے کس طرح اپنے جوہری پروگرام کے لیے بی وی آئی لینڈ سے لے کر موریشس تک آف شور کمپنیوں کا ایک جال پھیلایا اور عالمی جاسوسی نظام کو چکمہ دے کر پرزہ پرزہ کرکے مطلوبہ آلات اسلام آباد تک پہنچائے۔
قومی سلامتی کے لیے آف شور کمپنیوں کا استعمال صرف پاکستان نے ہی نہیں کیا بلکہ اس میں دنیا کا ہر ملک ملوث ہے۔ اسلحے کی خریدو فروخت سے لے کر اپنے دوست اور دشمن ملکوں کی جاسوسی تک کے لیے آف شور کمپنیاں دنیا بھر میں زورو شور سے استعمال ہورہی ہیں۔ کرہ ارض پر اس نظام کو چلانے والوں میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں۔ یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ امریکہ کی سیٹلائٹ ریاست پانامہ آف شور کمپنیوں کی میزبانی کرے اور امریکی حکومت اس سے نا واقف رہے۔ آف شور کمپنیوں کا سب سے بڑا گڑھ بی وی آئی لینڈ برطانیہ کی ملکیت ہو اور برطانیہ یہاں کی معاشی سرگرمیوں سے لاتعلق رہے، یہ ایک احمقانہ توقع تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔ ان دونوں ملکوں کی سرپرستی میں چلنے والا یہ نیم قانونی نظام اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے ساٹھ فیصد اثاثے اور پچاس فیصد تجارت اسی کے قبضے میں جا چکے ہیں ۔ اس لیے کوئی ملک نہیں چاہے گا کہ وہ اس کے خلاف کسی تفتیش کا حصہ بنے۔ خاص طور پرپاکستان تو ایسی ہرتفتیش سے گریز کرے گا جس کے نتیجے میں خود اس کا جوہری پروگرام دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے۔
پاکستان میں آف شور کمپنیاں عمران خان کا عنوانِ سیاست ہیں۔خان صاحب اس معاملے کی نزاکتوں کو نظر انداز کرکے وزیراعظم نواز شریف کونشانے پر رکھ کر دھرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔یہ دھرنا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس کا جواب تو وقت دے گا لیکن یہ طے ہے کہ نواز شریف کو 2018ء سے پہلے وزارت عظمٰی سے ہٹانا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے ہیں اور دوسری وجہ وہ منصوبے ہیں جن کی بروقت تکمیل کے لیے ملک میں سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ پاک چین راہداری سے لے کر پاک ایران گیس پائپ لائن تک ان منصوبوں کے بارے میں اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی بنیاد یںکسی ایک سیاسی جماعت کے وعدوں پر نہیں بلکہ ہموار سیاسی نظام کی توقعات پر رکھی گئی ہیں اور انہیں کاغذ سے زمین پر اتارنے کے لیے ہمارے فوجی بھی اپنا خون بہا رہے ہیں۔ اسی لیے جب عمران خان نے قوم سے خطاب کی مضحکہ خیز حرکت فرمائی تو اگلے روز گوادر میں کھڑے ہوکر چیف آف آرمی سٹاف کو کہنا پڑا کہ ''محاذ آرائی کو چھوڑ کر تعاون کا راستہ اختیار کریں‘‘۔ چیف جسٹس نے بھی ان کی آواز میں آواز ملائی اور نظام کو آگے چلائے رکھنے کا مشورہ دیا۔ ان حالات کے باوجود بھی عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے تو پھر ان کے لیے دعاکے سواکچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حالات وزیراعظم کے حق میں ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ان کے صاحبزادوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کی اخلاقی ساکھ گر ی ہے۔ اس معاملے سے پہلے وزیراعظم کو جو سیاسی حمایت میسر تھی آج نہیں ہے۔ ایک سیاستدان کے طور پر وزیراعظم کو خوب اندازہ ہے کہ اخلاقی ساکھ سے محروم ہوجانے والی حکومت کتنی مضبوط ہوتی ہے اس لیے ان کی سیاسی ضرورت ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے خاندان کے کاروبار پر پڑے قانونی رعایتوں کے پردے ہٹائیں ۔ اگر وزیراعظم ایسا نہیں کرپاتے توجلد ہی وقت آجائے گا جب لوگ شفافیت کے نام پر سیاسی استحکام کی قربانی دینے پر تیار ہوجائیں گے۔