تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     16-04-2016

چھوٹو یا پنجاب کا عزیر بلوچ

اکتوبر 2013ء میں خادم پنجاب میاں شہبازشریف متاثرین سیلاب میں امدادی چیک تقسیم کرنے ضلع راجن پور آئے تو متاثرین میں سے ایک ریاض احمد خان چنگوانی نے چیک وصول کرنے سے قبل فریاد کی کہ بندہ پرور سرائیکی عوام کو امداد سے زیادہ جان و مال کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ استفسار پر چنگوانی نے پندرہ روز پہلے پیش آنے والا اغواء برائے تاوان کا واقعہ بیان کیا اور کہا ؎
نہ اِدھر اُدھر کی تُو بات کر یہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں‘ تری رہبری کا سوال ہے
محمد اصغر نامی ایک غریب کسان اپنے تین ساڑھے تین ایکڑ رقبہ پر کپاس کی حفاظت کے لیے سویا ہوا تھا کہ مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ اغوا کار علی گل باز گیر گینگ نے ورثا سے چالیس لاکھ روپے تاوان طلب کیا ‘ بصورت دیگر تھانہ ہڑند کے رہائشی کو قتل کی دھمکی دی۔ ریاض خان چنگوانی نے یہی واقعہ وزیراعلیٰ کے گوش گزار کیا اور اغوا کاروں کے ٹھکانے کے علاوہ فون نمبر کی نشاندہی کی۔ وزیراعلیٰ نے ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا‘ تسلی دی‘ انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں اور مغوی کی بحفاظت بازیابی کی یقین دہانی کرائی مگر دو ماہ گزر گئے‘ پولیس و انتظامیہ نے محض تسلیوں کے سوا کچھ کیا نہ وزیراعلیٰ کو یہ معمولی واقعہ یاد رہا۔
مایوس ہو کر ریاض خان چنگوانی اور اصغر کے دیگر خیر خواہوں نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی خان گورچانی کے والد پرویز خان گورچانی سے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے ذریعے رابطہ کیا اور مغوی کی رہائی کے لیے اپنا قبائلی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی درخواست کی۔ پرویز خان گورچانی کنی کترا گئے۔ عذر یہ پیش کیا کہ اغوا ہونے والے ای ڈی او ہیلتھ مظفر گڑھ مشتاق رسول کی تاوان کے عوض بازیابی پر ہمیں بدنامی مول لینا پڑی اس لیے ہم اس معاملے میں نہیں پڑتے۔ جرائم پیشہ گروہوں سے قریبی رابطہ رکھنے والے ایک قبائلی مہتر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ گیارہ رکنی وفد نے چوٹی بالا کے قریب مغلو کے علاقہ میں علی گل بازگیر کے ٹھکانے پر پانچ چھ گھنٹے مذاکرات کئے۔ رات بھی وہاں گزاری اور منت سماجت کے بعد سولہ لاکھ روپے ادا کر کے مغوی کو رہا کرا لیا۔ مغوی نے واپسی پر بتایا کہ میرے ورثا اور ریاض خان چنگوانی سمیت خیر خواہ جس سے رابطہ کرتے علی گل بازگیر کو فوراً خبر ہو جاتی حتیٰ کہ پرویز خان اور حافظ عبدالکریم سے میٹنگ کی بھی۔
علی گل بازگیر گزشتہ ہفتے مارا گیا‘ ابھی تک اس کی اچانک موت معمہ ہے۔ غلام رسول عرف چھوٹو مزاری کے خلاف آپریشن کسی اور علاقے میں ہو رہا ہے مگر مارا سو کلومیٹر دور علی بازگیر گیا۔ بعض لوگ اسے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی عاطف مزاری ‘ پرویز اقبال گورچانی و شیر علی گورچانی کے ساتھ میٹنگ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے تنگ عوام اس بات پر خوش ہیں کہ ایک ظالم اور سنگدل ڈاکو مارا گیا؛ تاہم وہ اس بات پر افسردہ ہیں کہ اس کے سرپرستوں سے اب کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ اگر وہ زندہ گرفتار ہوتا تو شائد دہشت کی علامت یہ شخص اہم اور چشم کشا انکشافات کرتا۔
کچا جمال کے آپریشن کا ایک ناکام مرحلہ ختم ہوا۔ سات پولیس اہلکار ناقص منصوبہ بندی اور نمائشی اقدام کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کچے کے علاقے میں ماضی کے آپریشن اس بنا پر ناکام رہے کہ یہاں کے ایک مزاری سردار کے علاوہ ماضی کے بوسن اور اب چھوٹو گینگ کے دیگر سرپرست‘ اغوا برائے تاوان کا یہ نفع بخش کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ مریدا نکانی‘ طارق بوسن‘ علی بازگیر اور دیگر ڈاکو انہی لوگوں کی سیاسی سرپرستی کی بنا پر چار اضلاع کے عوام کے لیے عذاب بنے رہے اور انہوں نے بے خوف و خطر دہشت گردوں کو پناہ دی۔ دریائے سندھ میں کچے کا علاقہ صرف دشوار گزار نہیں‘ آپریشن کے لیے ناموزوں بھی ہے۔ ڈاکو اردگرد بستیوں میں قیام پذیر لوگوں کے علاوہ اپنے بچوں اور خواتین کو بطور انسانی ڈھال (ہیومن شیلڈ) استعمال کرتے ہیں۔ ہر پولیس آپریشن کی انہیں قبل از وقت اطلاع ملتی رہی اور یہ موقع ملنے پر پولیس اہلکاروں کو اغوا کر کے نہ صرف اپنی شرائط منواتے رہے بلکہ اپنے گرفتار ساتھیوں کو بھی رہا کروا لیا کرتے تھے۔ 
فوج کچے کے علاقے میں آپریشن کے لیے پہنچ گئی ہے۔ کرفیو لگا کر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے مگر سکھانی‘ عمرانی اور دیگر بلوچ قبائل کا علاقے سے محفوظ انخلا اور پولیس یرغمالیوں کی رہائی اہم مرحلہ ہے؛ تاہم فوج کو ابتدا ہی میں بعض بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔ مثلاً ہر پولیس آپریشن ناکامی سے دوچار کیوں ہوا؟ یہ محض ناقص منصوبہ بندی اور نااہلی کا نتیجہ تھا یا ہمیشہ مقاصد کچھ اور تھے۔ عام طور پر یہ آپریشن اس موسم میں کیوں کیا جاتا ہے جب دریائے سندھ میں پانی وافر اور گندم کی فصل تیار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں سابق ڈی پی او راجن پور سہیل ظفر چٹھہ اور مقامی زمیندار خالد بشیر مزاری کے مابین مقدمے کی تفصیلات بھی دلچسپ ہیں۔ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت بھی ہے کہ جرائم پیشہ گروہ اتنا طاقتور کیسے ہوتا چلا گیا کہ اب وہ پولیس آپریشن کا مقابلہ کرنے کے علاوہ ریاست سے برسر پیکار بلوچ علیحدگی پسند گروہوں اور فاٹا و کراچی کے عسکریت پسندوں کو پناہ دینے اور بھارت سے اسلحہ و تربیت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
اس امر کا جائزہ لینا ازبس ضروری ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے فراری یہاں کیسے پہنچے؟ کوئی جرائم پیشہ سیاسی گروہ اس واردات میں ملوث تو نہیں۔ فوجی قیادت کی طرف سے آپریشن کے اعلان کے بعد پولیس حکام اچانک حرکت میں کیوں آئے اور سول بالادستی کی آڑ 
میں رینجرز آپریشن کو روک کر پولیس فورس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جب دو روز قبل چھوٹو مزاری یا بکھرانی نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی تو اُسے قبول نہ کرنے کی وجہ کیا تھی؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ علی گل بازگیر کی طرح چھوٹو مزاری کے سینے میں بھی بعض سیاستدانوں‘ مقامی وڈیروں‘ پولیس اور انتظامی افسران کے راز دفن ہیں اور انہیں اندیشہ ہے کہ اگر چھوٹو مزاری فوج یا رینجرز کے ہاتھ لگ گیا تو وہ پنجاب کا عزیر بلوچ ثابت ہو سکتا ہے۔ مرید نکانی‘ طارق بوسن اور دیگر گینگسٹر بھی مارے گئے‘ زندہ ہاتھ نہیں آئے۔ طارق بوسن اگرچہ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا مگر اس کے ساتھیوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ چھوٹو کی کارستانی تھی۔ 
مجرم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس وقت تک طاقتور نظر آتا ہے جب تک ریاستی مشینری کمزوری اور مصلحتوں کا شکار ہو۔ ماضی میں ہر آپریشن اس خوف سے معطل ہوا کہ گینگ مزید نقصان کر سکتا ہے۔ علاقے کے عوام جانتے ہیں کہ ڈاکو اپنی وارداتوں کے بعد ڈکیتی کے سامان‘ تاوان اور بھتے کی رقم سے بااثر سرداروں کے علاوہ پولیس و انتظامیہ کے کرپٹ عناصر کی درجہ بدرجہ ''خدمت تواضع‘‘ کرتے ہیں اور ان کے مخالفین سے بھی نمٹتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی متوازی حکومت عرصہ دراز سے قائم ہے مگر آج تک کسی حکومت اور پولیس و انتظامیہ نے اس کے قلع قمع کے لیے فوج او رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘ آخر کیوں؟ بھارت میں ویراپن اور پھولن دیوی جب ناقابل تسخیر ہونے لگے تو ریاست نے تمام وسائل مختص کر کے ان کا قلع قمع کیا۔ ویراپن کیخلاف فوجی آپریشن تو برسوں جاری رہا۔
علی گل بازگیر‘ چھوٹو مزاری‘ چوٹانی‘ مندرانی اور دیگر گروہوں نے صادق آباد‘ رحیم یار خان‘ راجن پور، تونسہ‘ ڈیرہ غازیخان‘ مظفر گڑھ حتیٰ کہ ملتان تک کے شہریوں کی زندگی اجیرن کئے رکھی۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور میں لوگوں نے بڑی گاڑیاں بیچ کر چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر اکتفا کی کیونکہ ہر مالدار کو اغوا کا خدشہ تھا یا بھتے کی پرچی آ جاتی تھی۔ ہوٹل‘ پٹرول پمپ‘ بڑے کاروباری اداروں کے مالکان اپنے بچوں کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوئے مگر روک تھام کی سنجیدہ کوشش اب ہو رہی ہے۔ فوج اور رینجرز کی موجودگی سے لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہے اور شائد مقابلے کی نوبت نہ آئے کیونکہ اب چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو سرنڈر کے علاوہ موت ہی نظر آ رہی ہے؛ تاہم زندہ گرفتاری کی صورت میں اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کا قلع قمع ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی چور اُچکا سرداروں اور پولیس افسروں کی شہ پر مریدا نکانی‘ طارق بوسن‘ علی گل بازگیر‘ عقیل بوسن اور چھوٹو مزاری کا روپ نہ دھار سکے۔ بعض ناقدین آپریشن کو پانامہ لیکس سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دے رہے ہیں مگر یہ حکومت پنجاب کی گڈ گورننس پر سوالیہ نشان‘ باعث بدنامی اور سیاسی بحران میں اضافے کا باعث ہے۔ عزیر بلوچ‘ صولت مرزا اور ڈاکٹر عاصم حسین کی طرح چھوٹو مزاری کے انکشافات سے میڈیا میں رونق خوب لگے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved