تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-04-2016

مسئلہ انداز فکر کا ہے

اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس، یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔
اطلاع یہ ہے کہ نون لیگ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں محترمہ مریم نواز برہم تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران پارٹی کے لیڈروں نے پانامہ لیکس پر وزیر اعظم کا دفاع نہیں کیا۔ راوی کے مطابق تحکم کے ساتھ انہوں نے کہا کہ حاضر سروس نہیں، سبکدوش جج ہی کو تحقیقات سونپی جائیں گی۔ خبر یہ تھی کہ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں وزیر خزانہ اسحق ڈار معاملات کے نگران ہوں گے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ ان کی معاونت کریں گی۔ اخبار نویسوں کی سادگی پہ تعجب ہوتا ہے۔ نگرانی مریم نواز فرما سکتی ہیں، ہمارے اسحق ڈار نہیں۔ اسحق ڈار کا کام احکامات کی تعمیل ہے۔ وہ اس وقت قہرمان اور طاقتور ہیں، جب دوسرے وزراء سے واسطہ ہو۔ مریم نواز اگر موجود ہوں‘ کسی مؤقف پر ڈٹ جائیں گی تو اسحق ڈار کی مجال کیا ہے کہ انحراف اور انکار کریں۔
کاروبار حکومت میں اسحق ڈار کی گنجائش کیسے پیدا ہوئی‘ جو ایک خوف زدہ آدمی ہیں۔ اس قدر خوف زدہ کہ کالا دھن سفید کرنے کے سوال پر دبائو کے چند لمحے بھی برداشت نہ کر سکے تھے۔ طوطے کی طرح فرفر بولنے لگے۔ ان سوالوں کے جوابات بھی عنایت کر دیئے تھے‘ جو ان سے پوچھے تک نہ گئے۔ ان قصورواروں کے بارے میں بھی بتا دیا، جن کے بارے میں سوال تک نہ کیا گیا۔ حکمرانوں کو درباریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ محنتی اور متحرک مگر آقا کی ترجیحات کا خیال رکھنے والے۔ چوہدری نثار علی خان سیاست اور انتظام کی باریکیوں کو کہیں زیادہ سمجھتے ہیں مگر وہ اپنی رائے رکھتے ہیں اور گاہے اس پر اصرار بھی 
کرتے ہیں۔ جبکہ وہ ایک ہمہ وقت 'ہز ماسٹرز وائس‘ ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے چاند کی روشنی سورج سے مستعار ہوتی ہے۔ اپنی حدود و قیود سے وہ واقف ہیں اور سر تا پا ایک نوکری پیشہ آدمی ہیں۔ ملک‘ آئین اور عوام نہیں، اس طرح کے افسرانِ کرام کی توجہ کا محور و مرکز فقط حکمران ہوتا ہے۔ وہ اس کے نقطۂ نظر سے زندگی اور زمین کو دیکھتے ہیں‘ بلکہ آسمان کو بھی۔ ایسے ہی لوگوں کے طفیل شاہی درباروں میں سجدے کی رسم کا اجرا ہوا تھا۔ ایسے ہی لوگوں نے بادشاہ کو ظلِ الٰہی کا نام دیا تھا۔ وہ حکمرانوں کے ساتھ ابھرتے اور ڈوب جاتے ہیں۔ تاریخ کے دیباچوں اور فٹ نوٹس میں بھی ان کا ذکر نہیں ہوتا۔ یہی وہ مخلوق ہے، جن کے طفیل برصغیر میں سلطانیٔ جمہور کا سورج کبھی طلوع نہ ہو سکا۔ مغلوں کے عہد میں وہ مغل تھے۔ سکھوں کے دور میں ان کے حلیف، مارشل لاء میں وہ خاکی وردی کے پجاری ہوتے ہیں۔ اگر کبھی انتخابات سرزد ہو جائیں تو جمہوریت کے علمبردار۔
نواز شریف کے تیسرے دورِ اقتدار کی خصوصیت یہ ہے کہ اول روز سے وہ بے دلی کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوانِ وزیر اعظم میں ان کا دل نہیں لگتا۔ عمران خان دم لینے دیتے ہیں اور نہ آزاد اخبار نویس۔ رہی سہی کسر فوجی قیادت نے پوری کر دی ہے۔ نواز شریف طالبان سے مفاہمت کے آرزو مند تھے اور بھارتی برہمن سے بھی۔ دونوں خواب ان کے پورے نہ ہو سکے۔ اس لیے کہ زمینی حقائق سے کوئی رشتہ ان سپنوں کا نہیں تھا۔ عسکری قیادت نے ان سے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا شوق وہ پورا کر لیں۔ تین باتوں کا مگر خیال رکھیں۔ اول یہ کہ مذاکرات کی مدت متعین ہونی چاہئے۔ ثانیاً یہ دستور کی حدود میں ہونے چاہئیں۔ ثالثاً مولوی صاحبان کو معاملے سے الگ رکھیں ورنہ وہ اسے ہائی جیک کر لیں گے۔ میاں صاحب کا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ ان کے اندازِ فکر میں اقتدار کا مطلب من مانی ہے۔ بہترین نتیجہ اخذ کرنے کی بجائے، وہ اپنی انا کو گنے کا رس پلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے مولوی سمیع الحق کو مذاکرات سونپے جو اصلاً ایک غیر ذمہ دار آدمی ہیں۔ کچھ بھی کہہ سکتے اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ باقی تو خیر یوسف شاہ نامی ایک شخص کو انہوں نے خود ہی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنا لیا۔ بعد ازاں تحریکِ انصاف میں شامل ہو جانے والا ایک اور عجیب و غریب شخص بھی، ٹیم میں شامل تھا، ایک نادر نسخہ اس نے پیش کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے دوران جن لوگوں کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا، ان کی دل جوئی کی جائے۔ ان کے نقصانات کی تلافی کی جائے۔ افغانستان میں 
موصوف پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔ گفتگو میں کبھی کبھی معقول بھی نظر آئے۔ کبھی ان میں ذہانت بھی جھلک اٹھتی، مگر یہ وہ لوگ ہیں قبائلی ماحول میں جو پلے بڑھے۔ جو ریاست اور آئین کا شعور نہیں رکھتے۔ خطا معاف‘ تمام خوبیوں کے باوصف قاضی حسین احمد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ سیاستدانوں، جدید سیاسی جماعتوں کو وہ انگریز کی تخلیق سمجھتے۔ سیاستدانوں کو انگریزوں کا شاگرد قرار دیتے۔ اس میں قائد اعظمؒ کا استثنیٰ بھی نہ تھا جن کی دیانت و امانت کی قسم کھائی جا سکتی تھی۔ قبائلی اندازِ فکر کے ساتھ، ان کا احساس یہ تھا کہ قیادت علماء کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ وہ لوگ جنہیں بچپن میں سکھا دیا جاتا ہے کہ علماء پیغمبر کے وارث ہیں۔ جی ہاں! علماء ہی پیغمبر کے وارث ہیں مگر وہ اور لوگ تھے۔ اقتدار کے آرزو مند اور فرقہ پرست نہیں بلکہ علم کے جویا، ایثار کیش، خیر خواہ، نرم گفتار، غصہ پی جانے والے بھی، طلبہ کے سرپرست اور درباروں سے دور بسنے والے۔ کشف المحجوب میں سیدنا علی بن عثمان ہجویری نے لکھا ہے: امام ابو حنیفہ اہلِ علم کے امام ہیں اور اہلِ ذکر کے بھی۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر‘ سید منور حسن جیسے تو نہیں کہ قاتل حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے جوانوں کو بالواسطہ ظالم قرار دیں؛ با ایں ہمہ وہ بھی اسی قبائلی زمانے میں زندہ ہیں۔ وہ لوگ اور وہ ماحول وقت جہاں منجمد ہو گیا ہے‘ فہم کا قافلہ کبھی آگے بڑھتا ہی نہیں، زندگی بدلتی ہی نہیں۔ ؎
کوئی پکارو کہ اِک عمر ہونے آئی ہے
فلک کو قافلہِ صبح و شام ٹھہرائے
آج بھی وہ پانچ سو سال پرانی ٹوپی پہنتے اور اس پہ فخر فرماتے ہیں۔ وہ ٹوپی جو محض ایک رسم ہے، سردی سے بچاتی ہے اور نہ گرمی سے۔ طالبان رہنمائوں کے ساتھ وہ آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ قبائلی عہد کا اسلام خود پر جس نے جدید زندگی کا دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس نے ابھی تین سو سال پرانے صنعتی انقلاب کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ 
کہیں سے بات کہیں نکل گئی۔ سارا مسئلہ اندازِ فکر کا ہوتا ہے۔ 2013ء میں نواز شریف کے نئے دور کا آغاز ہوا تو وہ بددلی کا شکار تھے۔ نئے حقائق خاص طور پر آزاد میڈیا کے ساتھ ذہنی طور پر وہ سمجھوتہ نہ کر سکے۔ شہباز شریف نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی‘ اور اپنی پسند کے افسر اسلام آباد بھجوائے۔ خاندان میں مزاحمت کا آغاز ہوا اور بالآخر مریم بی بی وہاں جا براجیں۔ حسین نواز بھی سوچا کیے مگر سوچا ہی کیے۔ یوں بھی ان کا مزاج سیاسی نہیں۔ وہ ذہنی الجھنوں کا شکار بھی ہیں۔ جیسا کہ واقعات سے آشکار ہوا محترمہ مریم نواز ہی اب باپ کی جانشین ہیں۔ وہ شریف خاندان کی بے نظیر بھٹو ہیں۔ ان جیسی ذہین اور مضبوط نہیں۔ ان کا شخصی تاثر اچھا ہے۔ وہ ایک عام باوقار پاکستانی خاتون نظر آتی ہیں۔ وضع دار اور گھریلو سی۔ رہے پانامہ لیکس تو ان سے نجات کی کوئی صورت نہیں، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانا ہی ہو گا۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ وقت بدل جائے‘ آدمی خود کو نئے سانچے میں ڈھال نہ سکے۔ زرداری کے بعد شریف خاندان کے ساتھ یہ المیہ رونما ہو چکا۔ اب ہم ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ؎
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس، یہ دن ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved