تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     16-04-2016

اخلاقی دبائو اور سیاسی حقائق

1789ء میں بنجمن فرینکلن نے لکھا تھا: ''اس دنیا میںکوئی چیز بھی یقینی نہیں، سوائے موت اور ٹیکسز کے‘‘۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، آج طبی سائنس اور بہتر خوراک سے موت کو قدرے التوا میں ڈالا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ٹیکسز کا تعلق ہے‘ تو انہیں بھی جیسا کہ ہمیں حال ہی میں علم ہوا، موزاک فونسیکا جیسی قانونی فرموں کے تعاون اور ٹیکس وکلا کی فقیدالمثال ذہانت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ بعض صورت میں ٹیکسز سے مکمل طور پر بچ نکلنے کے راستے بھی کھلے ہیں۔ قانون کی کتاب انسانی ذہن کا بہرحال مقابلہ نہیںکر سکتی۔ 
جب پاناما پیپرز کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دی تو پاکستان پر خود پارسائی نامی منافقت کا سورج نصف النہار پر دکھائی دیا۔ اس خیال نے ہمارے گفتار کے غازیوں کو مشتعل کر دیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کا خاندان اور کچھ دیگر سیاست دان اور کاروباری افراد سمندر پار اکائونٹس رکھتے ہیں۔ لیکن ٹھہریں، ذرا دم لیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی سے ہمارے موجودہ وزیر اعظم کا خاندان لندن کے مہنگے ترین علاقے، مے فیئر میں چار فلیٹس رکھتا ہے۔ سینیٹر رحمان ملک تو بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے دور میں برطانیہ میں پراپرٹی کا بزنس کرتے تھے؛ تاہم پھر محترمہ کی نگاہ اُن پر پڑ گئی۔ 
جن دیگر افراد کے نام پاناما پیپرز میں ہیں، اُنہیں کوئی شرمندگی نہیں۔ وہ دولت مند افراد ہیں جو اپنے کالے دھن کو سمندر پار اکائونٹس میں ٹیکس حکام سے دُور، چھپا کر رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ کسی اور ملک میں اکائونٹس کھولنا غیر قانونی حرکت نہیں، بشرطیکہ آپ نے انکم ٹیکس حکام کو چکمہ نہ دیا ہو۔ اس مرحلے پر قانونی معاملات دھندلے ہو جاتے ہیں۔ محمد نواز شریف ایک پاکستانی شہری ہیں جبکہ پاناما میں رجسٹرڈ ایک کمپنی‘ جسے اُن کے بیٹے کنٹرول کرتے ہیں‘ برطانیہ میں موجود اُس جائیداد کی ملکیت رکھتی ہے جو دراصل نواز شریف فیملی کی ملکیت بتائی جاتی ہے۔ اس وقت جو سوال سب سے اہم ہے‘ یہ ہے کہ جس رقم سے لندن کی جائیداد خریدی گئی، وہ کن ذرائع سے حاصل کی گئی تھی؟ کیا وہ رقم غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی تھی؟ کیا اُنھوں نے اُس پر ٹیکسز اداکیے تھے؟ اور کیا وہ رقم لندن میں باقاعدہ بینکنگ کے نظام کے ذریعے منتقل کی گئی تھی؟
ان سوالوں کے علاوہ بھی پاکستان کے سیاسی اکھاڑے اور ٹی وی کے سدا بہار ٹاک شوز کی رونق بڑھانے کے لیے بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن خاطر جمع رکھیں، یہ غوغا دیپک راگ نہیں! فی الحال ان سے دریائے راوی میں کوئی جوئے خون نہیں اٹھے گی‘ اور نہ ہی کسی کے نشیمن تہہ و بالا ہوںگے۔ اگر کچھ دیر گھر کی رونق بڑھانے کے لیے یہ ہنگامہ ضروری تھا تو ایک بات ہے، ورنہ عام افراد اب تک اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہیں کہ ان کے سیاست دان بدعنوان ہیں، بلکہ اکثر افراد توقع کرتے ہیں کہ سیاستدان اپنی جیبیں بھریں اور اُنہیں بھی موقع دیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بدعنوانی کے خلاف برپا کیا جانے والا تمام تر ہنگامہ عوام کی توجہ حاصل کرنے‘ اور اُنہیں التباسی سکون آفرین استیصال کی کیفیت سے جھنجھوڑے میں ناکام رہا ہے۔ تین سال قبل زرداری صاحب اور پی پی پی کو جو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کی وجہ اُن پر مالی بدعنوانی کے الزامات نہیں بلکہ نااہلی، بدنظمی اور امن و امان کی ناقص صورت حال تھی۔ 
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ شریف فیملی، سیف اﷲ اور بھٹو فیملی کو فرشتے مان لیا جائے، لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ان پر بدعنوانی کے الزامات ان کا ذرہ برابر سیاسی نقصان نہیں کرتے۔ بھلا بطخ کے پروں پر بھی پانی ٹھہرتا ہے؟ تو پھر اُسے بھگونے کی کوشش کیوں کی جائے؟ وزیر اعظم نواز شریف نے جوڈیشل کمشن کی پیشکش کی ہے۔ بنا لیں، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کمشن کی انکوائریوں کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو گا۔ وقت آگے بڑھ جائے‘ اور رفتگان (ان گنت کمشن نتائج) کی یاد عوام کے حافظے سے اتر جائے گی۔ اگلے انتخابات تک کوئی اور مسئلہ سابق مسائل کا صفایا کر چکا ہو گا۔ اب لوگ اُسے دیکھیں یا ماضی کی یادوں کو گلے لگائے خود کو بے آرام کرتے رہیں۔ 
تاہم اس حمام میں صرف پاکستان ہی نہیں، دیگر بہت سوں کی جامہ پوشی کا یہی حال ہے۔ 2009ء میں برطانیہ کی 2003ء کی خلیجی جنگ میں شمولیت پر قائم ہونے والی گلکوٹ انکوائر ی کا آج تک پتا نہیں چلا۔ جس دوران ہم جلد بازی کا شکار ہو کر اپنے وزیر اعظم اور ان کی فیملی پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں، مت بھولیں کہ دبئی کے ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز کے اشتہارات پاکستانی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ کیا کسی نے پوچھا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران وہ کون سے فرشتہ صفت پاکستانی ہیں جنھوں نے تیس بلین درہم مالیت کی جائیداد دبئی میں خرید فرمائی ہے؟ کیا یہ بھاری رقم جائز اور قانونی ذرائع سے وہاں پہنچی؟ پاکستان میں جو بھی جائیداد کی خرید و فروخت کرتا ہے، وہ ٹیکس بچانے کے لیے زمین کی قیمت کم لکھتا ہے؛ چنانچہ پاناما پیپرز پر پاکیٔ دامن کی اتنی حکایت کیوں؟
دوسری طرف یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی بدعنوان سرکاری افسر یا زیرک بزنس مین کی طرف سے دبئی میں جائیداد کی خریداری ایک بات ہے، لیکن اس غریب ملک کے حکمران کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں جائیداد خریدے اور پھر اس کی ملکیت چھپانے کی کوشش بھی کرے۔ جب آصف زرداری کی سرے محل کی مبینہ ملکیت کی خبریں افشا ہوئیں تو اُس وقت محترمہ کی حکومت تھی۔ میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ان کے پاس حکمرانی کا اخلاقی جواز ختم ہو گیا ہے۔ میں عموماً پی پی پی کی حمایت کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک دوست کے ذریعے پتا چلا کہ بی بی میرے کالم پر پریشان ہے۔ اُنھوں نے غصیلے لہجے میں پوچھا: ''مزدک (اس وقت میرا قلمی نام) میرے خلاف کیوں ہو گیا ہے؟‘‘ نواز شریف صاحب کے مے فیئر فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو (قدر) سرے محل سے کہیں زیادہ ہے، لیکن یقین رکھیں یہ سکینڈل دب جائے گا، اخلاقی اتھارٹی سیاسی حقائق کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لوگ نواز شریف کی جماعت کو پھر ووٹ دے کر اقتدار میں لے آئیں گے۔ لیکن ایک بات گرہ سے باندھ لیں۔۔۔۔ جب وہ اگلی مرتبہ آپ کو ٹیکس دینے کی ہدایت کریں تو دل کھول کر ہنسیں۔ ایک جاندار قہقہہ بہت سے اعصاب کو سکون دیتا ہے، ہمارا کتھارسز کر دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved